2014 کا عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنا سب کو یاد ہے۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر دیے جانے والی اس دھرنے میں پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اور پاکستان میں ان دھرنوں کے حوالے سے جو کچھ سنا گیا، سب ہماری یادداشتوں کا حصہ ہے۔ ہم میں سے اکثر نے پاکستان کی اس شاہراہ کو دھرنے والوں کی ضروریات کے مطابق ایک غلیظ نالے کی صورت بہتا ہوا دیکھا ہے۔ قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کی دیواروں پر دھلے ہوئے کپڑے بھی سوکھتے دیکھے ہیں۔ مار دیں گے، مر جائیں گے، قبریں کھودیں گے، قاتل، چور، سول نافرمانی ہم نے کیا کچھ نہیں دیکھا اور سنا۔ سرکاری عمارتیں شائقینِ دھرنا کے نرغے میں آگئیں۔ کبھی سرکاری ٹی وی پر حملہ ہوا تو کبھی ایوانِ وزیراعظم پر یلغار ہوئی۔ ریاست ایک مذاق بن گئی۔ ایسا مذاق جو ایک سو چھبیس دن چلنے کے بعد المیے پر ختم ہوا۔ اس دھرنے کی وجہ سے ملک میں جھوٹ کو سچ بنانا سیاست قرار پایا۔ ہم جیسے‘ جو اس زہر کو امرت نہیں کہہ سکتے تھے، دھتکار ے گئے۔ لفافوں کے الزام لگے، حکومت کا چمچہ ہونے کے طعنے ملے، سوشل میڈیا پر دھرنے کے شیدائیوں نے اتنی گالم گلوچ کی کہ گھروالوں تک اس کے اثرات آنے لگے۔ بہت سوں نے یہ سب سہا لیکن اُف تک نہ کی۔ سیاست کے جوار بھاٹا سے جنم لینے والے اس طوفان کے مقابلے میں ملکی نظام نے پہلی بار خود کو مضبوط ثابت کیا۔ یہ دھرنا پاکستان کے جمہوری نظام پر ایک ڈاکا تھا، جس کو روکنے کے لیے اس ملک کا ہر ادارہ بروئے کار آیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، ہم سب کی آنکھیں اس کی گواہ بھی ہیں اور امین بھی۔ اپوزیشن کی اے پی سی آج پھر یہ وقت لے آئی ہے کہ گواہی دی جائے اور امانت لوٹائی جائے۔ یہ ماضی کے تجزیے کا‘ نہ سیکھے ہوئے سبق دہرانے کا وقت ہے‘ اور سبق یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو چلنے دو۔
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت گرانے کے لیے عین مین وہی الزامات لگائے جارہے ہیں جو عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے لگایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے، 2013 کا الیکشن فوج اور عدلیہ نے چرایا۔ یہی بات نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر کہہ رہے ہیں۔ عمران خان کا تقاضا نواز شریف کا استعفا تھا، نواز شریف کا مطالبہ عمران خان کا استعفا ہے۔ عمران خان کو جنرل راحیل شریف نے احتجاج کو حد میں لانے کے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور موجودہ فوجی قیادت نے بھی چند دن پہلے اپوزیشن کی جماعتوں کو بعنوان شائستہ یہی سمجھایا۔ عمران خان کے نزدیک ان کا وزیر اعظم نہ بن سکنا غمِ زمانہ تھا تو نواز شریف کے نزدیک 2018 کے الیکشن میں لگے شکست کے زخموں کا مرہم موجودہ حکومت کا خاتمہ ہے۔ توازن عمران خان بھی کھو بیٹھے تھے اور اب نواز شریف بھی اسے فراموش کیے دیتے ہیں۔ اپنی یادداشت میں چھ سال پہلے کے دھرنے کو تازہ کیجیے اور تین دن پہلے کے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جاری کردہ لائحۂ عمل کو سامنے رکھ لیجیے۔ آپ کو صاف معلوم ہوجائے گا کہ ہم دائرے میں سفر کرتے وہیں پہنچنے والے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ایک تحریک کے بعد نئی تحریک، ایک دھرنے کے بعد نیا دھرنا، اور ایک المیے کے بعد نیا المیہ۔
حالات کو اس نہج تک لانے میں اگر کسی ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے تو وہ عمران خان ہیں، جی ہاں، وزیراعظم اسلامی جمہوریہ عمران خان۔ انہوں نے نفرتوں کی جو فصل اپوزیشن میں رہتے ہوئے بوئی تھی آج بھی اسے پانی دے رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح حکمران ہو کر بھی انہیں اندازہ نہیں کہ اب وہ ملک کے سربراہ ہیں، انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ان سے یہ نہ ہوسکا اور اب انہیں اتنی ہی نفرت کا سامنا ہے جتنی وہ اپنے مخالفین سے کرتے ہیں۔ ان کا یہ تلخ لہجہ بھی ایک ادا ٹھہرتا اگر وہ ملک کے لیے کچھ بہتر کرچکے ہوتے۔ معیشت سنبھل جاتی، اداروں میں اصلاحات کا عمل شروع ہوجاتا، پولیس میں کچھ تبدیلی نظر آتی تو بات بھی تھی۔ انہوں نے بہترین ٹیم کا خواب دکھا کر جو لوگ جمع کیے جو لاہوری محاورے میں نمونے ہیں، یعنی محض بیکار۔ وفاقی کابینہ کی اکثریت ان بگڑے ہوئے بچوں پر مبنی ہے جنہیں کام ڈھنگ سے کرنا آتا ہے نہ بات کرنے کا سلیقہ ہے۔ خان صاحب کی دو سالہ حکومت کے بعد تو اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نالائقوں میں رہتے رہتے خود ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگنے لگا ہے۔ معاشیات کی لگام ان کے ہاتھوں سے چھوٹی سو چھوٹی تھی اب امن و امان پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ کوئی ایک ایسا اشاریہ نہیں جو یہ ثابت کرسکے کہ ملک نئی توانائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جب ایک جمہوری حکومت دو برس ضائع کرڈالے اور یہ توقع رکھے کہ اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں اٹھے گی، اسے حکومت کے سوا کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔
تحریک چلانا ہر سیاسی جماعت تو کیا، ہر شخص کا بھی حق ہے لیکن تحریک اس لیے چلانا کہ اپنی مخالف حکومت گرا دی جائے ہم جیسے نیم خواندہ معاشروں میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ سیاسی تحریکیں حکومتوں کا راستہ درست کرنے کے لیے ہوتی ہیں، حکومتیں گرانے کے لیے نہیں۔ ہماری تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہاں ایوب خان کے خلاف تحریک سے لے کر اپوزیشن کی مجوزہ تحریک تک‘ سبھی تحریکیں دراصل اقتدار کے طالب ایک گروہ کی طرف سے اقتدار پر متمکن دوسرے گروہ کے خلاف رہی ہیں۔ ان تحریکوں میں دلکش نعرے محض آرائش کے لیے ہوتے ہیں‘ ان کا مطلب کچھ نہیں ہوتا۔ ایسی آخری تحریک دھرنے کی صورت میں عمران خان صاحب نے بہ نفس نفیس چلائی اور ناکام رہے۔ اس دھرنے کی کور سٹوری الیکشن میں دھاندلی تھی مگر اصل مقصد نواز شریف حکومت ختم کرنا تھا۔ دھرنے کے دنوں میں ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی آپ کو یاد ہوگا؟ اس اجلاس میں ایک دلیل جس پر تحریک انصاف کے سوا تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں، یہ تھی کہ طاقت کے زور پر حکومت گرانا دراصل ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانا ہے، اور ایک بار مظاہرین کے بل پر حکومت گر گئی تو پھر کوئی حکومت چل نہیں پائے گی۔ یہ دلیل اتنی طاقتور تھی کہ عمران خان کے پاس بھی اس کا جواب نہ تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ صرف چھ برس پہلے یہ دلیل دینے والے آج اسی دلیل کے خلاف ہیں اور اپنے اپنے دھرنے لیے اس حکومت کے درپے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت کو دھرنے کے زور پر ہٹانا اگر عدم استحکام کی سازش تھی تو آج عمران خان کی حکومت ہٹانا جمہوری کیسے ہوسکتا ہے؟
2018 کا الیکشن اپوزیشن کے مجوزہ تحریک میں کوّر سٹوری ہے۔ میں نے یہ الیکشن قریہ قریہ گھوم کر دیکھا ہے۔ اس الیکشن سے پہلے کا سیاسی ماحول یہ سمجھانے کے لیے کافی تھاکہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بننے والے ہیں۔ پاکستان کے گلی کوچوں میں تبدیلی کی ہوائیں میں نے چلتی دیکھی ہیں۔ الیکشن سے پہلے اس کے نتائج پر جوکچھ لکھا بولا، سب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کچھ اندازے غلط ثابت ہوئے لیکن عمومی طور پر ووٹ کے ڈبوں سے وہی نتیجے نکلے جن کے بارے میں پہلے عرض کردیا تھا‘ اس لیے عمران خان کی حکومت پر ہزار اعتراض کے باوجود میں اسے جمہوری طور پر منتخب حکومت ہی سمجھتا ہوں۔ بالکل اتنی جمہوری جتنی میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ اگر میاں نواز شریف کی حکومت کو دھرنے کے ذریعے گرانا غلط تھا تو عمرا ن خان کی حکومت گرانا بھی اتنا ہی غلط ہے۔ اگر عمران خان اقتدار پر ڈاکا ڈالنے آئے تھے اور نظام ان کے راستے میں آ گیا تھا، آج ان کے اقتدار پر ڈاکا پڑے گا تو نظام کو پھر حرکت میں آنا چاہیے۔ ہم جیسے یہی کہتے تھے اور 2014 میں لفافے کہلائے، آج بھی یہی کہیں گے اور ایجنٹ کہلائیں گے۔ یوں ہونا ہے تو یونہی سہی۔