گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج پر کچھ کہنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ علاقہ پاکستان کا فی الحال باقاعدہ صوبہ نہیں؛ چنانچہ ہماری قومی اسمبلی میں اس علاقے سے کوئی منتخب ہوکر آتا ہے نہ سینیٹ میں دیگر صوبوں کی طرح اس کے نمائندے موجود ہیں۔ اگرچہ یہاں کے باسی پاکستان کا پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں لیکن بیشتر معاملات میں ان کی حیثیت پاکستان کے دوسرے شہریوں سے مختلف ہے۔ 2009 کے گلگت بلتستان آرڈر کے تحت جو صوبائی قسم کے اختیارات اور ادارے یہاں دیے گئے ہیں، ان کی حیثیت ضلعے جیسی بھی نہیں۔ یہاں پاکستان کے عدالتی نظام کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن کا دائرہ کار نہیں، پاکستان کے ریگولیٹری ادارے جیسے اوگرا، پیمرا یا پی ٹی اے مکمل طور پر اس نظام سے باہر ہیں، بس ایک وفاقی حکومت ہے جس کی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان یہاں کا نظام صدر مملکت کے نام پر الل ٹپ چلاتی رہتی ہے۔ وہ عام سی سہولیات جو صوبوں میں ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہیں، گلگت بلتستان کے لوگ ان کے لیے اسلام آباد کا منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ انہیں پاکستانی سیاست کا خوب اندازہ ہے کہ یہاں سیاسی مخالفین کے حلقے میں ترقیاتی کام بھی روک لیے جاتے ہیں چہ جائیکہ وفاقی حکومت کشادہ ظرفی سے اپنی مخالف حکومت کو ہی مالی وسائل فراہم کرتی رہے۔ مالی وسائل کی دستوری تقسیم کی وجہ سے ہی پاکستان کا ہر صوبہ اپنی مرضی کی حکومت بنا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں ایسی جماعتیں بھی حکومت بنا لیتی ہیں جن کی وفاق سے باقاعدہ لڑائی رہتی ہے لیکن وفاقی حکومت اس لڑائی کی آڑ لے کر کسی بھی صوبے کے مالی وسائل نہیں روک سکتی۔ چونکہ مالی وسائل کی یہ دستوری ضمانت گلگت بلتستان کو میسر نہیں اس لیے ان کا گزارہ صرف وفاقی حکومت کی من مرضی سے ملنے والے فنڈز پر ہے۔ اس لیے شعوری طور پر لوگ اسی پارٹی کو حکومت میں لاتے ہیں جو وفاق میں بھی حکمران ہو۔ اسی بنیاد پر گلگت بلتستان میں ہمیشہ سیاست کی عمارت بنتی ہے اور تازہ الیکشن میں بھی وہی نتیجہ نکلا کہ وفاق میں برسر اقتدار تحریک انصاف کو ہی اکثریت حاصل ہو گئی۔ اگر گلگت بلتستان کی اس مجبوری کو سیاسی حساب کتاب سے منہا کر دیا جائے تو تحریک انصاف کی عبرتناک شکست کے ٹو پہاڑ جتنی بڑی حقیقت تھی۔ یہاں کے باسیوں کی مجبوری ہے کہ وہ صوبائی حقوق نہ ہونے کی وجہ سے وفاق میں برسراقتدار پارٹی کو ووٹ کا تاوان بھرتے ہیں۔ یہی تاوان وہ پیپلزپارٹی کواور مسلم لیگ ن کو دیتے رہے ہیں جواب تحریک انصاف نے اپنی باری پر وصول کرلیا ہے۔ فرق البتہ یہ ضرور آیا ہے کہ وفاق میں برسراقتدار پارٹیوں کی تاریخ میں سب سے کم نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کی ہیں، گویا ایک طرح سے شکست کا ہی منہ دیکھا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کے الیکشن میں ایک طرح سے معرکہ مارا ہے۔ یہ کریڈٹ بہرحال بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نانا ذوالفقارعلی بھٹو کے نقش قدم پرچلتے ہوئے ہمالیہ کے دامن میں بسے ہر گاؤں، قراقرم کی ترائیوں کے ہر قصبے اور ہندوکش کی ہر آبادی میں جاکراپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر تنقید کے نشتر چلائے مگر لوگوں کوبہتر مستقبل کی امید بھی دلائی۔ وہ ایک مہمان کی طرح اس علاقے میں نہیں گئے بلکہ انہی سڑکوں پر سفر کیا جن پر یہاں کے لوگ کرتے ہیں۔ اسی طرح لینڈ سلائیڈ کے عذاب میں گرفتار ہوئے جیسے یہاں کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ان کارکنوں کو بھی میدان میں لاکھڑا کیا جو پیپلزپارٹی سے مستقل طور پر منسوب ہوجانے والی بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے گھروں میں بیٹھ رہے تھے۔ وفاقی حکومت والے عوامل (دھاندلی نہیں) اگر نہ ہوتے تو پیپلز پارٹی یقینی طور پر گلگت بلتستان میں زیادہ بہتر انتخابی نتائج حاصل کرسکتی تھی۔ اپنی بہترین انتخابی مہم کوبلاول نے الیکشن سے تین دن پہلے مریم نوازاور مسلم لیگ ن کے وفد سے ملنے کی حماقت نما غلطی کرکے تباہ کردیا۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کا ووٹر دراصل نواز شریف کا مخالف ہے اور اگر وہ ان سے بدگمان ہوتو اس کا ٹھکانہ تحریک انصاف ہے۔ ان کی اس ملاقات نے اسی تاثر کو گہرا کردیا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دراصل ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں جن کا مقابلہ تنہا تحریک انصاف کررہی ہے۔
گلگت بلتستان میں دھاندلی کا بے معنی شور ہٹا دیا جائے تو یہ بات بڑی حد تک واضح تھی کہ تحریک انصاف کا اصل مقابلہ مسلم لیگ ن سے ہوگا۔ اس کی توقع یوں بھی تھی کہ مسلم لیگ ن نے یہاں پہلی بار سرکاری ملازمتوں کیلئے میرٹ کی پابندی شروع کی، پیپلزپارٹی کے نمائندوں کی طرح نوکریوں کی خریدوفروخت نہیں کی۔ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی شکل میں پہلی بار گلگت بلتستان کو ایسا چیف ایگزیکٹو ملا جس نے سیاحت کے لیے ضروری سڑکوں کی تعمیر نوکی۔ گلگت سکردو روڈ کی تعمیر نو شروع کرا دینا تنہا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ یہ علاقہ اگر مکمل صوبہ ہوتا تو نون لیگ آسانی سے الیکشن جیت سکتی تھی۔ مقامی قیادت نے اپنی کارکردگی کو ہی بنیاد بناکر اپنی الیکشن کمپین منظم کررکھی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ تباہ ہوگیا جب مریم نواز نے یہاں جلسے شروع کیے۔ میری معلومات کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ وہ ہر حلقے میں جاکر مہم چلائیں لیکن مقامی قیادت نے کسی نہ کسی طریقے سے انہیں روکے رکھا۔ جب ان کا اصرار بڑھا توان کے چند جلسوں کا پروگرام بنایا گیا جسے مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے خود ہی بڑھا لیا۔ مریم نواز نے اپنے پہلے جلسے ہی میں ایسا عجیب و غریب انداز اختیار کیا جس نے حافظ حفیظ الرحمن کی ساری محنت اکارت کردی۔ ذرا تصور کریں‘ مریم نواز کی تقریروں کا مطلب تھا ''ہمیں گلگت بلتستان کی حکومت دیں تاکہ ہم وفاقی حکومت گرا سکیں‘‘۔ یہ تقریر سننے کے بعد بھی اگر ان کا امیدوار جیت جائے توپھر اسے قسمت کے سواکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مریم نواز کے جلسوں کی رونق تو خوب رہی لیکن ان کی تقریروں نے ترقی اور خدمت کے منشور پر پانی پھیردیا۔ آخری 'عقل مندی‘ بلاول بھٹو زرداری سے اصرار کرکے ملاقات تھی جس نے پیپلزپارٹی کو بھی نقصان پہنچایا اور مسلم لیگ ن کی بساط بھی لپیٹ دی۔ یہ ملاقات نہ ہوتی تو حافظ حفیظ الرحمن کا اپنے حلقے سے ہار جانے کا اندیشہ تک نہیں تھا۔ ظاہر ہے سیاسی غلطی پر مٹی ڈالنے کی بہترین حکمت عملی الیکشن میں دھاندلی کا شور مچانا ہے، سو مریم نواز اب یہی کریں گی۔
گلگت بلتستان کے الیکشن اسی معیار پرعین شفاف اور منصفانہ ہیں جس پر 2009 اور 2015 کے انتخابات منصفانہ قرار پاتے ہیں، جن میں بالترتیب پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے جیت کر حکومتیں بنائیں۔ ہارنے کے بعد بغیر ٹھوس شواہد کے شور مچاناکہ الیکشن چوری ہوگیا ہے، دراصل ووٹروں کی توہین ہے۔ اس توہین کا سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ سیاستدانوں کو جمہوری اقدارکے مطابق اپنی شکست مان کر آگے بڑھنا چاہیے نہ کہ سیاسی عمل کو اتنا مشکوک بنا دیا جائے۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ جب جب وہ الیکشن متنازع بناتے ہیں دراصل غیرجمہوری قوتوں کو طاقتور بناتے ہیں۔ اگر واقعی سیاستدانوں اور بالخصوص پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت گوارا نہیں توپھر انہیں پہل کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے نتائج قبول کرکے ان کے راستے میں پہلی رکاوٹ کھڑی کردینی چاہیے۔ دھاندلی ان کے ساتھ نہیں ہوئی، دھاندلی ستر سال سے گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ ہورہی ہے جنہیں ہم نے بے شمار وعدوں کے باوجود ان کا حق نہیں دیا۔ اگر اس دھاندلی پر یہ دونوں جماعتیں احتجاج کریں تو گلگت بلتستان بھی ان کے ساتھ ہوگا اور پاکستان بھی۔