کچھ عرصہ پہلے مجھے مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے بڑے دکھ سے بتایا کہ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ ن پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ چودھری شجاعت حسین کو چھین کر اپنا بنا لیا۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولے، 'چودھری شجاعت حسین میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ نواز شریف کو غلط فیصلوں سے روک لیتے تھی اورغلط فیصلہ ہونے کی صورت میں نجات کا راستہ ڈھونڈ لیا کرتے تھے‘۔ چودھری شجاعت حسین کی سیاست کی سب سے بڑی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ تصادم کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ جنرل مشرف کے ساتھ رہ کر انہوں نے ایک خالص مارشل لاء کو جمہوری شکل دے کر عوام کے لیے قابل قبول بنائے رکھا۔ اس زمانے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سارا کھیل بگاڑنے کے چکر میں تھیں لیکن چودھری صاحب نے انہیں پانچ سال تک ایک نامعلوم ٹرک کی بتی کے تعاقب میں لگائے رکھا۔ آج ہمیں جو مولانا فضل الرحمن کاروبارِ حکومت و ریاست کو تہ و بالا کرنے پر تلے نظر آتے ہیں، اس زمانے میں قاضی حسین احمد مرحوم کے اصرار کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اسمبلی سے ان کی محبت کا عالم یہ تھاکہ حافظ حسین احمد نے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دیا تو اس پر فرمایا، 'حافظ صاحب نے امام سے پہلے سلام پھیر لیا ہے‘۔ اس مارشل لائی جمہوریت کا یہ کارخانہ چودھری شجاعت کا ہی لگایا ہوا تھا جس میں سب اپنے اپنے کام پر لگے رہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے لال مسجد اور چیف جسٹس افتخار چودھری کے معاملے میں ان کے مشورے نظر انداز کیے، نتیجہ یہ نکلا کہ یہی دو معاملات ان کے زوال کی وجہ بنے۔ تاریخ یہ ہے کہ نواز شریف ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ دونوں وہیں ٹھوکر کھا گئے جہاں چودھری شجاعت کا مشورہ ان کے ساتھ نہیں تھا، باقی جزئیات ہیں۔
چودھری شجاعت حسین مسلم لیگ ن چھوڑ گئے تو شہباز شریف نے ان کی جگہ لے لی۔ نواز شریف کا چھوٹا بھائی ہونے کی وجہ سے انہیں بات کرنے اور کہنے کی وہ آزادی میسر نہیں جو مسلم لیگ ن میں چودھری شجاعت اور چودھری نثار علی خان کو حاصل رہی ہے‘ لیکن پھر بھی وہ اپنی بات کہتے رہے۔ شہباز شریف پاکستان میں اقتدار سے جڑی حقیقتوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ تجربے، مطالعے اور سوچ بچار کے بعد انہوں نے کچھ نتائج بھی اخذ کر رکھے ہیں جو ہماری تاریخ کے تناظر میں درست معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کو ہر قسم کے تصادم سے بچ کر سیاست کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں سول ملٹری تعلقات کی فلسفیانہ مو شگافیوں کو وہ تاریخ کے سپرد کر کے ان معاملات کو حقیقت پسندی سے طے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایمانداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی بہت سی مشکلات درحقیقت سیاستدانوں کی پیدا کردہ ہیں‘ اس لیے سیاست کے مقدمے کو وہ 'سیاستدان بنام فوج‘ کے عنوان سے نہیں لڑنا چاہتے۔ ان کے نزدیک دونوں میں تعلقات کا توازن قائم کرنا کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ مسلسل عمل کا نام ہے۔ گفتگو ہوتی رہے گی اور واقعات کے سکھائے ہوئے سبق سے نظام کے اندر یہ توازن خود بخود قائم ہوجائے گا۔ نواز شریف کی غیرحاضری میں شہباز شریف نے پاکستان کے نظام حکومت کی اسی تفہیم کے مطابق سیاسی معاملات چلانے کی اپنی سی کوشش کی۔ گزشتہ تین برسوں میں انہیں کامیابی ملی اور ناکامی بھی ہوئی۔ کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ نواز شریف پاکستان کی جیل سے نکل کر لندن کی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور ناکامی یہ کہ نواز شریف ایک بار پھر وہی آگ بھڑکا رہے ہیں جسے بجھانے کیلئے انہیں بہت کچھ کرنا پڑا تھا۔ اس سے پہلے بھی جب نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ سے بغیر کسی وجہ کے الجھنے کا پروگرام بنا لیا تو شہباز شریف نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کی لیکن ظاہر ہے کامیاب نہیں ہوئے اور واقعات اسی ترتیب سے رونما ہونے لگے جس کی خبر وہ بہت پہلے دے چکے تھے۔ چودھری شجاعت حسین کی طرح شہباز شریف بھی ماضی میں نہیں رہتے، مستقبل پر نظر جمائے رکھتے ہیں۔ آج اگر شہباز شریف جیل میں نہ ہوتے تو شاید ہماری سیاست بھی ماضی کے واقعات میں پھنسے رہنے کے بجائے آگے کی طرف دیکھ رہی ہوتی۔
شہباز شریف کی طرح جہانگیر ترین بھی تحریک انصاف کو راہ راست پر لانے اور رکھنے کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی شمولیت سے پہلے تحریک انصاف میں سوائے بدنظمی کے کیا تھا؟ جہانگیر ترین آئے تو اس کی شکل نکلنا شروع ہوئی۔ غیر حقیقی اور کسی درجے میں طفلانہ انداز فکر کو انہوں نے ہی سیاسی طور پر قابل قبول بنایا۔ 2013 میں جو ہڑبونگ جماعت کے اندر مچی ہوئی تھی، جہانگیر ترین نے پانچ برس لگا کر اسے ختم کر کے اس کو اتنا منظم کر لیا کہ 2018 کے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آ جائے۔ انہوں نے بڑی مہارت سے خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کو اپنی جماعت اور لیڈر کی مداخلت سے بچائے رکھا۔ ان کی اس حکمت عملی نے 2018 میں خیبرپختونخوا کو پکے ہوئے پھل کی طرح عمران خان صاحب کی جھولی میں ڈال دیا۔ پنجاب میں انہی کا جوڑ توڑ تھا جس کی وجہ سے تحریک انصاف نے وفاق میں حکومت بنانے کے لئے نشستیں جیت لیں اور پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنا لی۔ وہ اپنی جماعت کی اتنی بڑی طاقت تھے کہ جب تک متحرک تھے، اپوزیشن کا ہدف بنے رہے۔ عدالت نے عوامی عہدے کیلئے ان کی اہلیت ختم کر دی لیکن پس پردہ ان کی صلاحیت ان کی جماعت کی طاقت بنی رہی۔ حکومت بنی تو سوائے جہانگیر ترین کے ایسا کوئی نہیں تھا جسے یہ علم ہوکہ اگلے پانچ برسوں میں کیا کرنا ہے کیونکہ باقی سب کے پاس اپوزیشن کو گالیاں دینے کے سوا کوئی ہنر نہیں تھا۔ آئی ایم ایف میں جانے کے فیصلے سے لے کر پنجاب میں بلدیاتی نظام کی تشکیل تک سبھی کچھ وہ کرتے جا رہے تھے۔ ان کی موجودگی میں تحریک انصاف کے ہمدردوں کو یہ اطمینان رہتا تھا کہ معاملات کنٹرول میں ہیں۔ جیسے دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ نالائق لوگ کام کرنے والوں کے خلاف سازش کرتے ہیں، سو یہی جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا۔ کچھ لوگ ان کے خلاف بروئے کار آئے اور انہوں نے وزیر اعظم کے کان بھرنا شروع کر دیئے۔ کبھی کسی نجی زندگی کا حوالہ دیا گیا، کبھی کسی فرضی سازش کا، پھر چینی کی مہنگائی کا فرضی سکینڈل سامنے لایا گیا۔ اس کے بعد جہانگیر ترین کا تو کچھ نہیں بگڑا مگر حکومت کو فرق پڑا ہو سکتا ہے۔ان کے جانے کے بعد معاملات بالکل ہی کوچۂ طفلاں بن گئے۔ ایک سے ایک غلطی، ایک سے ایک حماقت نے حکومت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب وزیر‘ مشیر کوئی بات کریں تو لوگ چِڑ جاتے ہیں۔ سمت کا تعین ہے نہ کام کرنے کا سلیقہ۔ جہانگیر ترین آرام سے گھر بیٹھے ہیں، زیادہ ہوا تو جیل چلے جائیں گے‘ لیکن یہ طے ہے کہ اس کے بغیر معاملات چلانا آسان نہیں رہے۔
چودھری شجاعت حسین، شہباز شریف یا جہانگیر ترین جیسے لوگ عوامی سیاست میں شاید نواز شریف، عمران خان یا بے نظیر بھٹو کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مقبولیت ایک چیز ہے تو دانش بالکل دوسری۔ مقبولیت والے سیاسی جماعتوں کا چہرہ ہوتے ہیں، جبکہ یہ لوگ ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں جو نظر تو نہیں آتی مگر پورے جسم کا سہارا بنی رہتی ہے۔ چودھری شجاعت حسین تو صحت کے ہاتھوں مجبور ہیں لیکن شہباز شریف اور جہانگیر ترین کو ہمارے نظام کے نالائقوں نے کچھ کرنے سے روک رکھا ہے۔ اگر آج یہ تینوں ایک بار پھر میدان میں آجائیں تو ہماری سیاست میں بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ وہ تصادم بھی ٹل سکتا ہے جس کی طرف ہم دوڑے چلے جارہے ہیں۔