پاکستان پیپلزپارٹی کا تیسرا دورحکومت تھا، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے الگ ہوچکی تھی۔ مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن‘ دونوں پہلے سے اپوزیشن میں بیٹھی تھیں۔ ایم کیو ایم کے حکومت چھوڑنے کے بعد وزیراعظم قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے تھے لیکن مسلم لیگ ن یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کررہی تھی۔ پارلیمنٹ میں کسی نے چوں تک نہ کی حالانکہ اس وقت وزیراعظم اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکتے تھے۔ انہی دنوں مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ پیغام صدر آصف علی زرداری کو بھیجا گیا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں گرائی جائے گی۔ اس کے باوجود میڈیا پر ہم جیسے کچھ لوگ ہلکے سروں میں اسمبلی میں اراکین کی تعداد گننے لگے تو آصف علی زرداری نے چودھری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر ان کے اراکین کی حمایت حاصل کرلی اور ان کے ساتھیوں کو وزارتوں سے بھی نواز دیا گیا۔ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے اس اتحاد سے چند روز پہلے مسلم لیگ ن کے ایک جیّد رکن اسمبلی نے کچھ صحافیوں کو لاہور میں اپنے گھر پر ناشتے پر مدعو کیا۔ وہاں ایک زیادہ جیّد سینیٹر بھی موجود تھے‘ جنہیں میاں نواز شریف کا نفس ناطقہ بھی کہا جاتا تھا۔ میں نے ان سے پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے وہی کچھ فرمایا جو آج کل عمران خان کی حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں، ملکی معیشت کا رونا رویا، خارجہ پالیسی کی دہائی دی، وزرا کی بدعنوانی کی داستان سنائی۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے پوچھ لیا کہ آپ آسانی سے اس حکومت کو گھر بھیج کر اپنی حکومت بنا سکتے ہیں تو ایسا کیوں نہیں کرتے؟ کہنے لگے‘ ''پیپلزپارٹی کی حکومت ایک پریس کانفرنس کی مار ہے، لیکن اس کے بعد حکومت کون بنا پائے گا، کیا ہم پاکستان کو انارکی میں دھکیل دیں؟‘‘۔ پھر نہایت دلسوزی سے انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت پانچ سال پورے نہ کر پائی تو ملکی حالات کتنے خراب ہو جائیں گے۔ جو بات انہوں نے بتائی نہیں وہ یہ تھی کہ انہی دنوں پیپلزپارٹی سے اٹھارہویں ترمیم پر بات چیت چل رہی تھی جس کا بنیادی نکتہ دستور میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی کا تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی حمایت ضروری تھی۔ جب اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے یہ پابندی ختم ہوگئی تو پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کا راستہ الگ ہوگیا۔ 2013 میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عباس شریف کی وفات پر صدر آصف علی زرداری نے رائے ونڈ آکر نواز شریف سے تعزیت کرنا چاہی تو انہیں روک دیا گیا۔
2013 کا الیکشن ہوا، مسلم لیگ ن جیت گئی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی بری طرح ہار گئی۔ الیکشن کے چند روز بعد صدر آصف علی زرداری نے لاہور کے بلاول ہاؤس میں چند صحافیوں کے سامنے الیکشن پر تبصرہ کیا، ''یہ ریٹرننگ افسروں کا الیکشن تھا‘‘۔ اس فقرے میں نکتہ یہ تھا کہ الیکشن عدلیہ کی زیرنگرانی ہوا تھا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے اور اکثر ریٹرننگ افسر بھی جج تھے۔ زرداری صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرایا تھا اس لیے انہوں نے مسلم لیگ ن کو انعام کے طور پر الیکشن جتوایا ہے۔ پھر سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ افتخار محمد چودھری جب چیف جسٹس کے طور پر بحال ہوئے تو انہوں نے قصداً پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے جو عوامی تاثر کو خراب کرتے تھے۔ اس زمانے میں خواجہ آصف کی سپریم کورٹ میں پٹیشنز کس کو یاد نہیں کہ ادھر دائر ہوتی اور ساتھ ہی وزیر‘ مشیر قطار اندر قطار بلا لیے جاتے۔ خیر 2013 کا الیکشن پیپلزپارٹی نے تو قبول کرلیا مگر تحریک انصاف یا اس طرح کہیے کہ عمران خان نے اسے نہیں مانا۔ وہ اپنا دھرنا لے کر اسلام آباد آگئے تو وہی آصف علی زرداری جو اسمبلی کو ریٹرننگ افسروں کی اسمبلی کہتے تھے، دوبارہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ عمران خان کے مقابلے میں یہ دونوں جماعتیں جم کر کھڑی ہوگئیں اور اس طرح کھڑی ہوئیں کہ عمران خان کچھ کر پائے نہ انہیں کنٹینر پر چڑھانے والے۔ تحریک انصاف اپنی توانائی کا آخری ذرہ تک لگا بیٹھی لیکن نواز شریف سے استعفا نہ لے سکی۔
عمران خان کی وقتی ناکامی کی وجہ سے یوں محسوس ہونے لگا کہ اب ملکی سیاست مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ کراچی میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو پیپلزپارٹی بھی اس کی زد میں آگئی۔ وزارت داخلہ میں بیٹھے چودھری نثار علی خان پیپلزپارٹی کے لیے مسلسل دردِ سر بن گئے۔ سندھ میں رینجرز کے آپریشن پر زرداری صاحب کو اتنی تکلیف ہوئی کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ عین اسی وقت نواز شریف نے ان سے منہ موڑ لیا اور زرداری صاحب کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ پھر پاناما سکینڈل کھل گیا۔ عمران خان دوبارہ سیاست میں آگئے۔ پیپلزپارٹی ان سے الگ بساط بچھا کر بیٹھ گئی۔ ادھر نواز شریف پاناما کے بوجھ تلے دب گئے تو بلوچستان میں پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کر ڈالی۔ یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے سینیٹ میں صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوایا اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی اس امید میں تھی کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی اس کے ہاتھ میں آجائے گا کیونکہ ایم کیو ایم تتر بتر ہوچکی تھی اور کراچی والے پیپلزپارٹی کے دامن میں پناہ لے سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کو یہ توقع اس لیے بھی تھی کہ انہی دنوں سعید غنی ایک ضمنی انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست جیت چکے تھے۔ ان ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا۔ اب عمران خان ایک بار پھر مشترکہ دشمن کے طور پر سامنے آگئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو بیتاب رہا کرتی تھیں، قریب آنے لگیں۔ ان دونوں جماعتوں کو یقین ہوگیا کہ عمران خان کی حکومت اگر اپنا وقت پورا کرگئی تو بہت کچھ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ حکمران پارٹی بھی نااہلوں اور نکموں کا ایسا ہجوم ثابت ہوئی جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ معیشت تباہ، گورننس برباد، مہنگائی اور اس پر مسلسل یاوہ گوئی نے باقاعدہ طور پر عوام کو اس حکومت سے نالاں کرڈالا، یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو حکومت کے خلاف بنا بنایا ماحول بھی مل گیا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی‘ دونوں بڑی اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں ہیں۔ انہی جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں یہ طے کیا تھا کہ منتخب حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو مولانا فضل الرحمن بھی اسی نکتے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اپنے دعووں کے مقابلے میں نہایت بری کارکردگی دکھا رہی ہے لیکن یہ اس سے کچھ کم بری ہے جتنی پیپلزپارٹی نے دوہزار آٹھ سے تیرہ تک دکھائی تھی۔ اگر مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن پیپلزپارٹی کی کارکردگی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے ہیں تو تحریک انصاف کو یہ رعایت کیوں نہیں دے رہے؟ اگر آج پیپلزپارٹی 2018 کے الیکشن کی دھاندلی پر معترض ہے تو 2013 کے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن کہنے کے باوجود کیوں مانتی رہی؟ پھر اسی اسمبلی میں بیٹھ کر مقتدرہ کے لیے ضروری قانون سازی بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پورے خشوع و خضوع سے کرتی رہی ہیں تو اب ایسا کیا ہوگیا کہ حکومت گرائے بغیر انہیں کسی کروٹ سکون نہیں ملتا؟ ان سوالوں کا جواب دراصل یہ خوف ہے کہ بے مثال نالائقی کے باوجود اگلے ڈھائی سالوں میں تحریک انصاف نے کچھ بھی اچھا کرلیا تو 'بچوں‘ کو حکومت کرنے کے لیے ایک ملک نہیں مل پائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کی حکومت ابھی ختم کی جائے۔ اگر ابھی ایسا نہ ہوسکا تو 'بچوں‘ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ہوسکتا ہے اگلی بار بھی انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے۔ اس کے لیے 'بچے‘ تیار ہیں نہ بڑے۔