"HAC" (space) message & send to 7575

مفلوج حکومت

جب عمران خان صاحب کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوا تو مجھے مسلم لیگ ن کے ایک جید رہنما نے کہا‘ ''ہم نے طے کرلیا ہے کہ اب اس حکومت کو کام نہیں کرنے دینا‘‘۔ کچھ دن بعد وہ رہنما گرفتار ہوگئے اور کافی دن جیل میں گزارنے کے بعد باہر آئے تو دوبارہ متحرک ہوگئے۔ اس بار ان کا تحرک صرف ایک ہی مقصد کیلئے تھا یعنی تحریک انصاف کو سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہ آسکے۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ تحریک انصاف کے پیروں تلے کوئلے رکھتے چلے جانا آپ کا فیصلہ ہے یا مسلم لیگ ن کی حکمت عملی۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا‘ ''اس طرح کے کام پارٹی کی مدد اور لیڈر کی مرضی کے بغیر ناممکن ہوتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے شکوے کے انداز میں یاد دلایاکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوا تو عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ دھرنا ختم ہوا تو ایک سال چار مہینے بعد پاناما کیس چل پڑا، پھر سب کچھ تہ و بالا ہوگیا۔ ''ایک سال چار مہینے میں ہم جو کچھ کرسکتے تھے، کردیا۔ ہمیں جتنا وقت ملا تھا وہ عمران خان گزار چکے، اب مزید نہیں‘‘ انہوں نے غصے سے دانت پیستے ہوئے بات ختم کردی۔ جیل نے ان کے لہجے میں وہی تلخی پیدا کردی تھی جوشکست سے نہیں دھوکا کھانے سے ہوتی ہے۔
اس کے بعد بہت کچھ بدلنے لگا۔ مولانا فضل الرحمن دھرنا لے کر نکل آئے، نوازشریف کی بیماری کی خبریں آنے لگیں اور وہ نہایت آرام سے لندن پہنچ کر سیاست کے لیے آزاد ہوگئے۔ کورونا کی وجہ سے معاملات میں کچھ ٹھہراؤ آیا لیکن جیسے ہی اس وبا میں کچھ کمی ہوئی پیپلز پارٹی نواز شریف کے ساتھ پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی۔ پھر جلسے، ریلیاں، استعفوں کا اعلان کبھی لانگ مارچ کی دھمکی اور اب عدم اعتماد کا شوشہ، ان سب نے مل کر تحریک انصاف کی حکومت کو تماشا بنا دیا۔ حکومت‘ جو پہلے سے ہی نالائقی کے بوجھ تلے دب کر کچھ نہیں کرپا رہی تھی، سیاسی معاملات میں بھی نالائق ہی نکلی۔ اورتو اور حکومت کے دانا دوست بھی اتنے ہی نادان ثابت ہوئے۔ ان سب نے برضاورغبت مسلم لیگ ن کے پھیلائے ہوئے جال میں پاؤں رکھا اور پھڑپھڑانے لگے۔ حکومت نے اپنی حماقت سے وہ ماحول بنا دیا جس میں اس کے جانے کی افواہیں یوں پھیلیں کہ بیوروکریسی‘ جو پہلے احتساب کے خوف سے کچھ نہیں کررہی تھی، اب ان کے جانے کی فکر میں کچھ نہیں کررہی کہ نئے آنے والے نجانے کیا گُل کھلائیں۔
حکومت گرا دینے کا ماحول بناکر حزب اختلاف کی جماعتوں نے تحریک انصاف سے پیش قدمی کی صلاحیت چھین لی ہے۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ حکومت اپنی مدت پوری کرے یا نہ کرے۔ کچھ کیے بغیریہ اپنا وقت پورا کر بھی گئی توآئندہ الیکشن میں ایک سیاسی عبرت کی مثال بن کر تاریخ کے گھاٹ اتر جائے گی۔ پیپلزپارٹی اس صورتحال کو اپنے ہدف کا سو فیصد حصول قراردیتی ہے کیونکہ اس نے سندھ اور کراچی میں تحریک انصاف کو انہی کونوں کھدروں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے یہ نکلی تھی۔ مسلم لیگ ن کیلئے بھی یہ صورتحال قابل قبول ہے کہ ایک فالج زدہ حکومت ٹامک ٹوئیاں مارتی رہے اور اگلے الیکشن میں بے رحمی سے بھلا دی جائے۔
خراب کارکردگی اور نالائقی کی وجہ سے تحریک انصاف کی حالت اتنی ابتر ہے کہ اس کے اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی دوسری سیاسی جماعتوں سے آئندہ الیکشن کیلئے ٹکٹ کے سودے کررہے ہیں۔ عمران خان صاحب تک یہ اطلاع تواتر سے پہنچ رہی ہے کہ ان سودوں میں سینیٹ الیکشن میں ووٹ بیعانے کے طورپر لیا اور دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکینِ صوبائی اسمبلی گروہ بناکر تقاضا کررہے ہیں کہ پنجاب سے سینیٹ کی ایک نشست ان کی مرضی سے جنوبی پنجاب کی کسی شخصیت کو دی جائے۔ تحریک انصاف ان دونوں عناصر پرقابو پائے بغیر سینیٹ میں اپنے تناسب کے مطابق سیٹیں حاصل نہیں کر سکتی۔ اگر سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کے اندر یہ تقسیم واضح ہوجاتی ہے تو پھر آصف علی زرداری کی سکیم کے مطابق حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا بھی ممکن ہوجائے گا اور بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانا بھی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں بری کارکردگی کا مطلب غیبی قوتوں کا اس حکومت کی پشت سے ہٹ جانا ہے اور ان قوتوں کی پیچھے ہٹ جانے کے بعد یہ حکومت شاید چند گھنٹے بھی نہ چل پائے۔
سینیٹ میں اپنی مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے کیلئے عمران خان صاحب خود وہ کام کررہے ہیں جس کی برائی وہ قوم کے سامنے کئی بار کرچکے ہیں۔ وہ کام ہے اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنا۔ مبینہ طور پر انہوں نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ایک رکن کے ذمے یہ کام لگایا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے اراکین کو توڑ کر عثمان بزدار کے پاس لے جائیں۔ اس کام کیلئے ان کی معاونت پاکستان کی ایک بڑی کاروباری شخصیت کے ساتھ ساتھ شہزاد اکبر کررہے ہیں۔ اگر تحریک انصاف متحد ہوتی تو اپنے اراکین کی تعداد کے مطابق گیارہ میں سے سات نشستیں بہ آسانی حاصل کرلیتی۔ باغی ارکان کے خوف نے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو حریف جماعتوں کی جیب کاٹنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ اپنے تناسب کے مطابق نشستیں حاصل کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ادراک ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ایک نشست کا گھاٹا بھی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا راستہ کھول دے گا۔
سینیٹ الیکشن کے بعد پاکستان کی سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ اگر تحریک انصاف اپنے تناسب کے مطابق نشستیں جیت لیتی ہے تو عدم اعتماد کا معاملہ ٹل جائے گا‘ لیکن اس کے بعد آئندہ الیکشن کیلئے صفیں درست ہونے لگیں گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے جس جارحانہ انداز میں سیاست شروع کررکھی ہے، اس میں تیزی آئے گی اور اپوزیشن کو جو گنجائش ملی ہے اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس ماحول میں کوئی حکومت، خواہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، کام نہیں کرسکتی۔ یوں سینیٹ میں تحریک انصاف کو ملنے والی اکثریت بھی بے معنی ہوجائے گی۔
حکمران پارٹی کا المیہ ہے کہ اپنے ووٹروں سے کیا ہوا ایک وعدہ پورا کرنے کی بھی اس میں صلاحیت نہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں تھاکہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے‘ احتساب نہیں۔ عوام نے حکومت ان کے سپرد اصلاح کیلئے کی ہے‘ پچھلوں کو گالیاں دینے کیلئے نہیں‘ لیکن اس حکومت نے احتساب اور پچھلی حکومت کی لعن طعن کو ہی اپنا امتیاز بنایا۔ نتیجہ اس حکمت کا یہ نکلا کہ بائیس کروڑ لوگوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے احتساب کے منصفانہ ہونے پر کوئی بھروسہ ہو اور رہ گئی بات پچھلوں پر ذمہ داری ڈالنے کی تو اب وزیروں کی بھی یہ ہمت نہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں جاکر ایسی کوئی بات کرسکیں۔ اب بھی جبکہ اس حکومت کی دستوری میعاد میں تقریبا ڈھائی سال پڑے ہیں، اس سے یہ توقع نہیں کہ معاشی حالات سدھارنے کیلئے کچھ کرسکے۔ جب سیاسی جماعت سے کوئی امید وابستہ نہ رہے تواس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی آخری سانسوں پر آچکی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف اب اگر اپنی میعاد کا اگلا نصف پورا بھی کرلے تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ہاں اس کو اگر کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے تو بس ایسے کہ کوئی اسے زبردستی اقتدار سے نکال باہر کردے اور وہ شہیدِ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام میں چلی جائے۔ نواز شریف یہ نکتہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی ترجیحات میں بھی عمران خان کوفوری طور پر ہٹانا کافی نیچے جا چکا ہے کہ بلاول کا وزیراعظم بننے کا امکان مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات پیدا کردے گا۔ اپنی بدلی ہوئی ترجیح کا اشارہ چند روز پہلے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو فون کرکے دیا اور کہا، ''اب ہمیں عمران خان پر توانائی صرف کرنے کی ضرورت نہیں، سوچنا یہ ہے کہ اس حکومت کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کیسے کرنا ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں