وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین صاحب نے اقتصادی سروے ریلیز کرنے کے لیے گزشتہ روز جو پریس کانفرنس کی وہ معمول کی بات نہیں تھی۔ عام طور پر وفاقی بجٹ پیش کیے جانے سے ایک دن پہلے وزیر خزانہ ختم ہونے والے مالی سال کے حوالے سے حکومتی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہیں مگر شوکت ترین نے جو کچھ کہا وہ آئندہ مالی سال کی معاشی حکمت عملی کا دیباچہ تھا جو بجٹ کی صورت میں آج پیش ہو جائے گی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ختم ہونے والے مالی سال کی اچھائیوں‘ برائیوں کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ہیں۔ دوسری اہم تر وجہ یہ ہے کہ اس سال میں تقریباً چار فیصد کی معاشی ترقی دراصل ترقی نہیں بلکہ بازیافت یا ریکوری تھی، کیونکہ تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں اور کورونا کی وجہ سے معیشت پہلے ہی اتنی نیچے گر چکی تھی کہ اس سے نیچے مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس پست درجے سے تھوڑی سی واپسی کو ترقی سرے سے کہا ہی نہیں جا سکتا‘ اس لیے کسی وزیر میں یہ ہمت نہیں کہ معاشی معاملات سے متعلق تجربہ کار صحافیوں کے سوالات کا جواب دے سکے‘ لہٰذا بہترین طریقہ یہی تھاکہ ختم ہونے والے مالی سال کے بجائے آئندہ کی بات کی جائے۔
آئندہ مالی سال کیلئے شوکت ترین صاحب نے غیرروایتی طور پر وفاقی بجٹ سے ایک دن پہلے جو کچھ کہا ہے اگر اس کا پچاس فیصد بھی درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان معاشی حوالے سے درست راستے پر ہے۔ آئندہ مالی سال کیلئے ان کی حکمت عملی کی چار اہم خصوصیات ہیں۔ اوّل‘ انہوں نے صاف لفظوں میں آئی ایم ایف کی یہ بات ماننے سے انکار کردیا کہ بجلی کے نرخ اور تنخواہ داروں پر ٹیکس بڑھایا جائے۔ دوم، انہوں نے تسلیم کیا کہ ہمارے بینک اس قابل ہی نہیں کہ وہ چھوٹے کسان یا چھوٹے کاروباری افراد کو قرض دے سکیں‘ اس لیے ان کی اصلاح ضروری ہے۔ سوم، انہوں نے امید دلائی کہ ماضی کی طرح پالیسی چند بڑے کاروباری گروپوں یا بڑے زمینداروں کے لیے نہیں بنے گی بلکہ چھوٹے کاروباری اور چھوٹے کسان کے مفاد میں ہوگی۔ چہارم‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اہلکاروں کو ٹیکس دہندگان پر نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ ٹیکس دینے والا جتنا ٹیکس دے گا اسے درست سمجھا جائے گا اور کوئی خرابی نہ کر سکے اس کیلئے تین چار فیصد لوگوں کے حساب کتاب کا آڈٹ بھی ہوجائے گا۔
جہاں تک معاملہ آئی ایم ایف کا ہے تویقین مانیے پاکستان میں بہت ہی کم ماہرینِ معاشیات ہیں جو اس کی شرائط اور اپنے ملک کے زمینی حقائق میں کوئی توازن پیدا کرسکتے ہیں۔ ماضی میں اسی لیے پاکستان کو ''ایک قسط والا ملک‘‘ کہا جاتا تھاکہ یہاں کی حکومتیں پہلی قسط لینے کیلئے آئی ایف کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوجاتی تھیں اور جب شرائط پوری نہیں ہوتی تھیں تو اگلی قسط بھی نہیں ملا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے ساتھ بھی ترقی ممکن ہے‘ لیکن ہماری حکومتیں اپنی ازلی نالائقی کی وجہ سے کبھی اس قابل نہیں ہوئیں کہ قرض لے کر اپنی معیشت کو مستقل بنیادوں پر درست کر سکیں۔ ہمارے ہاں غلام محمد سے لے کر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ تک ایک آدھ کے سوا ایسے ایسے نمونہ وزیر خزانہ بنتے رہے‘ جو کسی اور ملک میں ہوتے تو کوئی انہیں وزارت خزانہ کے قریب سے نہ گزرنے دیتا۔ میری نظر میں شوکت عزیز کے بعد شوکت ترین ایسے وزیر خزانہ ہیں جو زمینی حقائق، نظام کی پیچیدگیوں اور آئی ایم ایف کی ضروریات کو متوازن کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
جب وزیراعظم عمران خان نے چھوٹے قرضوں کی بات کی اور عام آدمی کو سستے قرض کے ذریعے مکان دینے کا پروگرام بنایا تو خاکسار نے عرض کیا تھاکہ ہمارے بینکوں میں ایسے لوگ ہی موجود نہیں جو واقعی قرض دے سکتے ہوں۔ صلاحیت سے عاری بینکروں کی سب سے بڑی فنکاری یہ ہے کہ زراعت کی بات ہوتو کھاد بنانے والی بڑی بڑی دوچار کمپنیوں کو منتیں کرکے زیادہ قرضہ دے دو تاکہ حکومت کو بتادیا جائے کہ اتنا قرضہ ''زرعی شعبے‘‘ میں چلا گیا۔ چھوٹے کاروباری کو قرض دینے کی بات ہوتو کسی بڑے کاروباری گروپ کی چھوٹی کمپنی یا نئی بنی کمپنی کو قرض دو اور حکومت کو بتا دو 'ہدف حاصل ہوگیا‘۔ اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوگا کہ کورونا وبا کے دوران ملازمین کی تنخواہیں اداکرنے کیلئے صرف تین فیصد شرح پر قرضے دینے کا اعلان ہوا۔ اصل میں یہ ہواکہ سب کمپنیوں نے اس رعایتی سکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنے نارمل شرح سود کے قرضے واپس کیے اور رعایتی قرضے لے کر کورونا کے دنوں میں بھی اچھے پیسے بنا لیے۔ جس ادارے کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہو اور اس کا سربراہ لایعنی دعوے کررہا ہو تو سوچیے کہ اس کو اس عہدے پر لانے والوں کے دل میں کیا کیا خیال نہ آتے ہوں گے۔ اگر شوکت ترین کہہ رہے ہیں کہ واقعی عام آدمی اور چھوٹے کسان تک بینک خود پہنچے گا تو پھر ترقی کا خواب بھی پورا ہوجائے گا اور نوجوانوں کو نوکریاں بھی مل جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ سٹیٹ بینک یہ کام کر سکے گا؟
ڈاکٹر عشرت حسین کی ایک کتاب ہے جس کے عنوان کا اردو ترجمہ ہے ''پاکستان:خواص کی معیشت‘‘۔ لب لباب اس کتاب کا یہ ہے کہ بڑے کاروباری اور بڑے زمیندار حکومت سے اپنی مرضی کی پالیسیاں بنوا لیتے ہیں اوربغیر کچھ کیے کروڑوں اربوں لے اڑتے ہیں۔ اگر آج شوکت ترین جیسا بڑا آدمی کہہ رہا ہے کہ اب پالیسی کا مرکز و محور چھوٹے اور عام لوگ ہوں گے تو یقین مانیے، یقین نہیں آتا۔ اگر ایک بار ایسا ہوگیا توپاکستان میں بڑے بڑے کاروبار کے نام پر جو فراڈ ہوتا ہے وہ ختم ہوجائے گا‘ اور صحیح معنوں میں وہ چھوٹے چھوٹے کارخانے ترقی کریں گے جہاں اس کا مالک اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہوتا ہے۔ یہی اصل پاکستانی ہیں اور یہ کارخانے ہی اصل پاکستان ہیں۔ یہ ترقی کریں گے تو سب کچھ بہتر ہوتا ہوا ہفتوں میں نظر آنے لگے گا۔
پاکستان کواب تک کسی ادارے نے معاشی طور پر پنپنے نہیں دیا تو وہ ایف بی آر ہے اور اگر پاکستان کو ترقی کے راستے پر لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی ادارہ ہے تو وہ بھی یہی ایف بی آر ہے۔ بدقسمتی سے اتنے اہم ادارے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سرکاری ٹیکس نہیں جگا ٹیکس وصول کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں جدید کاروبار کا پتا ہے نہ ٹیکسیشن کا۔ کاروباری لوگوں کو چور ڈاکو تصور کرکے اس ادارے کے بیشتر اہلکار ان کے مال سے اپنا حصہ وصول کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ادارے کو اگر ختم کردیا جائے تو پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد دو گنا ہو جائے۔ اگر اس ادارے کا خاتمہ فی الحال ممکن نہیں تو اس کے معاملات کو بہتر بنا کر ٹیکس دینے والے کا اعتماد بحال کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ شوکت ترین صاحب یہی کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ آئندہ مالی سال میں حکومت کے پاس اپنے ہدف سے بھی زائد ٹیکس جمع ہو جائیں۔
واضح رہے کہ ہمارے تازہ وارد وزیرِ خزانہ جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل بھی نیا نہیں۔ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی‘ اس نے اس کیلئے یہی راستہ اپنایا۔ مزید تفصیل اگر کسی کو چاہیے تو وہ گوگل پر ایک گھنٹہ لگا لے سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ فی الوقت پاکستان کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اندرونی طور پر کٹی پھٹی حکومت میں کوئی واقعی کچھ بہتر کرسکتا ہے؟ جہاں وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کررہے ہوں، جہاں اپنے مخالفیں کو پھنسانے کیلئے سرکاری انکوائریاں کھول دی جائیں، جہاں تین کا ٹولا وزیراعظم تک حقائق نہ پہنچنے دے، وہاں کچھ اچھا ہو جانا کرشمہ ہی ہوگا۔ اب یہ امتحان عمران خان صاحب کا ہے کہ وہ اپنے وزیرخزانہ کے پیچھے کتنی مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں۔