افغانستان سے امریکہ نکل چکا۔ شکست کھا کر نکلا یا فاتح بن کر نکلا‘ اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ افغانستان خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے اور ہمارے سارے مدبر وہیں کھڑے ہیں جہاں انیس سو نواسی میں سوویت یونین کے افغانستان سے جانے کے بعد کھڑے تھے۔ چونتیس برس پہلے ان کے پاس ٹامک ٹوئیوں کے سوا کوئی حکمت عملی نہیں تھی اور آج بھی ان کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔ جس کسی سے بات کرو وہ امریکہ کے یکلخت نکل جانے کے شکوے کے سوا کچھ نہیں کہہ پاتا۔ مبلغ سفارتکاری ہماری اڈے نہیں دیں گے، امن میں شریک ہوں گے، جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے جیسے بیانات ہیں جو سوچے سمجھے بغیر جاری کیے جارہے ہیں۔ کون سمجھائے کہ یہ تین سطری بیان تو دنیا کا ہر ملک افغانستان کے بارے میں دے سکتا ہے، سوائے پاکستان کے۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ دنیا کا ہر ملک افغانستان کا پڑوسی نہیں اور افغانستان کے ہر پڑوسی کا افغانوں سے وہ رشتہ بھی نہیں جو پاکستان کا ہے۔ اس لیے پاکستان کو افغانستان پر محض بیان بازی نہیں کرنی بلکہ ایک ایسی حکمت عملی طے کرنی ہے جس پر احتیاط سے کام کرکے افغانستان میں ایک وسیع البنیاد قابل قبول حکومت بنوائی جاسکے۔ بیان بازی کوئی اور کرے تو کرے ہم نہیں کرسکتے۔
سوال یہ ہے کہ بیان بازی کے سواراستہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اگر تاریخ سے ڈھونڈنا ہے تو اس میں سوائے ناکامیوں کے کچھ نہیں ملے گا۔ جب سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا اور امریکہ نے بھی منہ پھیر لیا تو افغانستان میں سوائے پاکستان کے کوئی بھی ملک مؤثرانداز میں موجود نہیں تھا۔ ہمارا خیال تھاکہ سوویت یونین کو مزا چکھا دیا ہے لہٰذا افغانستان کی مکمل فوجی فتح مجاہدین کی حکومت قائم کرنے کیلئے ضروری ہے۔ اس وقت کے حالات کا ہمارا تجزیہ اتنا ناقص تھاکہ جلال آباد میں گوریلا مجاہدین سے ایک باقاعدہ فوج کے طور پر کام لینے کی ٹھان لی گئی۔ افغان فوج نے صف بندی سے ان کو پسپائی پر مجبور کردیا۔ نتیجہ‘رسوائی۔ وہ تو بھلا ہو سوویت یونین کا کہ اس نے تین سال بعد کابل میں نجیب حکومت کی مدد بند کردی اور نجیب نے استعفا دے کر کابل کو کھلا چھوڑ دیا۔ تبھی جلال آباد میں مولوی یونس خالص کا داخلہ ممکن ہوا اور باقی دھڑے کابل پر قبضے کیلئے آپس میں لڑپڑے۔ ان دنوں ہمارا سب کچھ گلبدین حکمت یار ہوا کرتے تھے۔ انہی کی وجہ سے کابل میں مشترکہ حکومت بنانے کیلئے انیس سو بانوے کا معاہدہ پشاور ناکام ہوا۔ انہی کے اصرار پر ہم نے انیس سو ترانوے کے معاہدہ اسلام آباد میں افغان مجاہدین سے منوایا کہ احمد شاہ مسعود افغان حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود مشترکہ حکومت ایک دن نہیں چل سکی۔ ااس وقت ہم بین الافغان مذاکرات کے میزبان ہونے کے باوجود کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے تھے اور اس وقت بھی دنیا کے حقائق کو اسی طرح نظرانداز کررہے تھے جیسے آج کررہے ہیں۔
افغانستان شدید ترین خانہ جنگی کا شکار ہوگیا اور ہم بھی کچھ نہ کرپائے تو اس فضا میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان اٹھے۔ اگر وہ بھی دیگر وارلارڈز کی طرح عوام سے بھتے وصول کرنے لگتے تو شاید انہی میں سے ہوجاتے لیکن طالبا ن نے امن کے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص سے کوئی سمجھوتہ کیے بغیر اتنی بڑی تحریک برپا کردی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انہیں ہماری طرف سے جو حمایت ملی وہ بعد کی بات ہے، جب ملا عمر مانگے ہوئے موٹرسائیکل پر قندھار کے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا رہے تھے، کوئی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ ابتدائی معرکے انہوں نے اپنے زور بازو پر سر کیے۔ ان کی بڑھتی ہوئی قوت ہی تھی جس نے ہمیں ان کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا اور وقت نے ثابت کیاکہ گلبدین حکمت یار جو ہمارے خیال میں کوہ گراں تھا، ان کے سامنے ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گیا۔
معلوم نہیں، ہمارے سرکاری لوگ کیوں خود کو عقلِ کل وغیرہ ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں کچھ پتا ہونہ ہو لیکن تاثر یہی دیتے ہیں کہ انہیں سب پتا ہے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ یہ لوگ طالبان کے ساتھ بہے تو یوں کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کا مقصد ہی نظرانداز کردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ انہیں کابل پہنچنے سے پہلے ڈاکٹر نجیب سمیت سبھی افغان فریقوں کے ساتھ بٹھایا جاتا مگر ہم نے ان کیلئے سبھی کچھ قربان کردیا۔ جب طالبان کابل پہنچ گئے تو انہیں ہماری مدد بھی بوجھ لگنے لگی۔ انہوں نے ڈاکٹر نجیب کو اقوا م متحدہ کے کمپاؤنڈ سے نکال کر قتل کیا اور ان کی لاش افغان صدارتی محل پر لٹکا دی۔ اس کے بعد ہم دنیا کو تاویلیں دیتے رہے اور دنیا ہمیں وہی سمجھنے لگی جو طالبان کو سمجھ رہی تھی۔ طالبان اپنی دنیا میں مگن اسامہ بن لادن کو بھی اپنا مہمان قرار دے رہے تھے اور ہمیں کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ جنگ جو ہم نے بیس برس تک لڑی تھی، اس میں طالبان جیت گئے۔
نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد یکلخت دنیا بدل گئی کیونکہ امریکہ بدل گیا تھا۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھاکہ جو کچھ امریکہ کہہ رہا ہے، کرتے چلے جائیں۔ پہلے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نے پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کے عفریت کھول دیے تھے اور اب طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نے انہی کو ایک بار پھر ملک کے اندر بلا لیا۔ ان سے لڑتے ہوئے ہم نے ستر ہزار پاکستانیوں کا خون ہوتے دیکھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو سڑک پر شہید ہوتے دیکھا، اپنے فوجیوں کے لاشے اٹھائے، اپنے بچوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا۔ اب امریکہ چلا گیا تو ہم پھر وہیں کھڑے ہیں جہاں سوویت یونین کے جانے بعد تھے۔ افغانستان میں جنگ کی بھٹی بھڑکنے کو ہے اور ہمارے پاس اسے بجھانے کا کوئی راستہ نہیں۔ بغیر کسی منصوبے کے ہم بالکل اسی طرح بے فائدہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں جیسے اس وقت مار رہے تھے۔ کیاہم جو پچھلے چالیس برس سے اس چکر میں پھنسے ہیں، اگلے چالیس برس بھی پھنسے رہیں گے؟
ذرا سا کوئی غور کرلیں تو سمجھ جائے گی کہ پچھلے چالیس برس اس بھڑکتی ہوئی آگ میں ہمارے جلنے کی بنیادی وجہ افغان پالیسی کا مخصوص ہاتھوں تک محدود رہنا تھا۔ پروپیگنڈے کے سوا کبھی قوم کو نہیں بتایا گیا کہ افغانستان میں ہمارا کردار کیا ہے۔ کبھی امت کے نام پر ہماری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور کبھی قومی سلامتی کے نام پر خاموش کرادیا گیا۔ اب پھر وہی چلن ہے کہ بندکمروں میں بیٹھ کر کی جانے والی گپ شپ کو پالیسی سازی کا نام دیا جارہا ہے۔ جو لوگ چالیس برس میں افغانستان پر ایک سرکاری بیان کا مسودہ تیار نہیں کرسکے، تو کوئی کیوں مانے کہ انہیں افغانستان کا کچھ پتا ہے۔ سب کچھ جاننے کے دعویداروں کی اصل حالت یہ ہے کہ طالبان بھی انہیں بڑے آرام سے ٹہلا دیتے ہیں۔ افغانستان سے ہمارا کل حاصل حصول یہ ہے کہ اب کابل میں خود کو پاکستانی ظاہر کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بڑے کسی لائق ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی کہ چالیس سال افغانوں کے ساتھ چلنے کے بعد بھی کابل میں پاکستانی ہونا جرم بن جائے۔ پاکستان بالکل بھی اس کیلئے تیار نہیں کہ اگلی نسل کے چالیس برس بھی افغانستان میں اپنے بڑوں کی غلطیاں بھگتنے میں ضائع کردے۔ ہمارے وہ نااہل مدبر ہیں‘ جو امریکہ کے اچانک نکل جانے کا پیشگی اندازہ تک لگانے میں ناکام رہے، اچانک اتنے عقلمند نہیں ہوسکتے کہ بندکمروں میں بیٹھ کر پالیسی بنا لیں۔ اس لیے افغانستان کے مسئلے کو سلجھانے کیلئے کھلا مکالمہ ہونا ضروری ہے۔ اور یہ مکالمہ صرف ملک کے اندر ہی نہیں افغانستان کے سبھی پڑوسیوں اور مسلمان ملکوں کے ساتھ بھی ضروری ہے۔ بند کمروں میں بنی پالیسی کے زور پر پچھلے چالیس برس میں ہم اکیلے کچھ نہیں کرپائے تو اب بھی کچھ نہیں کرپائیں گے۔ ہمیں اپنے اوسان بحال کرنے ہیں، خود پر اعتماد بھی رکھنا ہے اور اپنے دوستوں کو بھی اعتماد میں لینا ہے۔