"HAC" (space) message & send to 7575

کابل ایئرپورٹ

بھلا ایسے کوئی شکست خوردہ نکلتا ہے جیسے امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے؟ یعنی اس لمحے تک بھی کابل ایئرپورٹ پر فاتح قوم کے پڑھے لکھے لوگ شکست کھا کر نکلنے والوں کے ساتھ نکل جانا چاہتے ہیں۔ اپنے مستقبل سے مایوس افغانوں کی واحد امید ہے کہ انہیں چاہے کسی جہاز میں سامان کی طرح لاد لیا جائے لیکن وہ فاتحین کے افغانستان میں نہیں رہنا چاہتے۔ کوئی خود نہیں جا سکتا تو اپنے بیوی بچوں کو بھیج رہا ہے۔ کسی کو جہاز کیساتھ لٹکنے کی جگہ بھی مل جائے تو اپنے سارے خاندان کو چھوڑ کر نکل جاتا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں ٹھکانہ ملے گا وہاں بچوں کا بھی بندوبست کرکے انہیں بلا لے گا۔ کابل ایئرپورٹ پر بیٹھے ہزاروں خاندانوں اور افغانستان میں رہنے پر مر جانے کو ترجیح دینے والوں کی تصویروں نے صاف بتا دیا ہے کہ افغانستان میں ہارا کون اور جیت کس کے حصے میں آئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر امریکا اتنے جہاز مہیا کر لے جن میں افغانستان کی ساری آبادی سما سکے تو چند ہی دنوں میں آمو دریا سے طورخم تک انسان ڈھونڈے سے نہ ملے۔ تاریخ میں فاتحین کی اتنی بڑی شکست یا شکست کھا کر نکلنے والوں کی اتنی بڑی فتح کی مثال شاید ہی کوئی ملے۔ کون جیتا، کون ہارا اس کا فیصلہ جب ہو گا تب ہو گا‘ آج کی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان بس راکھ کا ڈھیر ہے جس میں سے ایک قوم دریافت ہونی ہے اور ایک ملک بھی۔
افغانستان کی بدقسمتی کہیے کہ اسے دنیا پرانی نظریاتی تقسیم کے بیچ بنایا گیا ایک بفرزون ہی سمجھتی رہی ہے، یعنی ایسا منطقہ جہاں متحارب قوتیں آپس میں لڑنے کیلئے آتی اور فتح یا شکست کے بعد اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔90کی دہائی میں جب دنیا میں نظریات کی لکیریں مدھم پڑگئیں تواس میدان جنگ کو نظرانداز کردیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ اس میدان میں صرف دس برسوں کے اندر اندر دہشتگردی کا ایسا جنگل اگ آیا جسے کاٹنے کیلئے دنیا کو بیس برس لگے۔ اب اگر اسے ایک بار پھر ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو یہاں دوبارہ وہی کچھ ہونے لگے گا جو پہلے ہوتا رہا ہے، یعنی دنیا بھر کے دہشتگرد یہاں آکر بیٹھ جائیں گے اور دنیا پر چاند ماری کرتے رہیں گے۔ ایسی کسی بھی صورت میں امریکا وہ آخری ملک ہوگا جو دہشتگردی کا نشانہ بنے گا‘ لیکن افغانستان کے پڑوسی اس طرح کی کارروائیوں کا پہلا ہدف ہوں گے‘ بلکہ ان پڑوسیوں میں بھی جس کا نقصان سب سے زیادہ ہوگا وہ پاکستان ہوگا۔ ہماری مشترکہ سرحد، منڈیاں، رسم و رواج، آبادیوں کے درمیان تعلق سبھی کچھ ایسا ہے کہ افغانستان کی اچھائی یا برائی بالکل اسی طرح پاکستان چلی آتی ہے جیسے وہاں کی بارشیں دریائے کابل میں بہتی ہوئی دریائے سندھ میں آگرتی ہیں۔ اس تعلق کی بنیاد پر افغانستان کی تعمیر نو کی ہر شکل میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں ماضی کی اس راکھ سے ملک بھی دریافت کرنا ہے اور قوم بھی۔ ہم پچھلی آدھی صدی سے افغانستان میں ابھرنے والی ہر برائی کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں، اب ہمیں خود کو دنیا کے سامنے افغانستان کی ترقی کے حصے دار کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ دنیا ہماری بات فوری طور پر نہیں مانے گی لیکن اگر ہم واقعی بدل چکے ہیں تو دنیا کی رائے بدلنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔
ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا افغانستان سے نکلنے کے بعد اگلے دو عشروں تک شاید اس خطے کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کو چین کے مقابلے میں اپنی صنعتیں بحال کرنی ہیں تاکہ چین کی معیشت کا حجم اس سے بڑھنے نہ پائے کیونکہ اس میدان میں اگر امریکا نے شکست کھا لی تو پھر اس کیلئے بہت کچھ بدل جائے گا۔ اتنے واضح اہداف کی موجودگی میں پاکستان یا افغانستان امریکی ترجیحات میں بہت نیچے چلے جائیں گے۔ یہ صورت جہاں کسی درجے میں اس خطے کیلئے نقصان دہ ہے وہاں اس کے اندر چھپے مواقع بھی بے پناہ ہیں۔ ہم سی پیک کی رفتار بڑھاکر اسے جلد مکمل کرسکتے ہیں۔ اس خطے کی تجارت پر نظر رکھنے والے معاشی ماہرین تو یہ بتاتے ہیں کہ اگرصرف چین کی تجارت کا ایک فیصد ہی پاکستان کے ذریعے ہونے لگے تو اس کا مطلب ہے سالانہ پچاس ارب ڈالر کے سامان کی آمدورفت ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہی ہوگی۔ اس آمدورفت سے پاکستان کو جو کچھ ملے گا اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے۔ اسی طرح وسطی ایشیا کی گیس اور بجلی افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان تک آئے گی تو افغانستان کو بہت جلد اتنے وسائل میسر آجائیں گے کہ اس کا شمار دنیا کی درمیانی آمدنی والے ملکوں میں ہونے لگے؛البتہ اس خواب کی تعبیر کیلئے کام افغانستان کا ملبہ اکٹھا کرنے سے ہی شروع ہوگا۔
افغانستان کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھاکہ اس کے ساتھ ہمارا تعلق پاکستان بننے سے بھی پہلے کا ہے، اس لیے دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے بعد مسلسل نالائقیوں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا اور دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ 70کی دہائی میں موقع آیا تو سوویت یونین کیخلاف جنگ پاکستان اور افغانستان نے مل کر لڑی۔ یہیں سے اس رشتے کی تجدید بھی ہو گئی جس کی طرف قائد اعظم نے اشارہ کیا تھا۔ اس جنگ میں ہماری غلطیاں اپنی جگہ لیکن نالائقی کی انتہا دیکھیے کہ ہم اسے جیت کر بھی دنیا کے نشانے پر آگئے۔ اس وقت بھی دنیا افغانستان سے نکل گئی اورہم کچھ نہ سمجھ پائے کہ افغانستان کی تعمیر میں ہمارا کردار کیا ہے۔ اب ایک بار پھر ویسا موقع پیدا ہوگیا ہے۔ دنیا پھر سے افغانستان کو چھوڑ کر جا رہی ہے اور مستقبل میں یہ ہماری ہی ذمہ داری بن جائے گا‘ لہٰذا اس کی معیشت سے لیکر سماجی تشکیل نو تک ہر چیز میں کردار ادا کرنا ہمارا انتخاب نہیں‘ مجبوری ہے۔ ہمیں افغانوں کو باہر بیٹھ کر صرف یہ مشورہ نہیں دینا کہ وسیع البنیاد حکومت بنائیں بلکہ اپنے دستوری تجربے کے بارے میں بھی انہیں بتانا ہے۔ اگرچہ ہمارے اپنے ادارے تباہ ہو چکے ہیں مگراتنا تو بتا سکتے ہیں کہ اداروں کی بنیادیں کیسے رکھی جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ہماری ناکامیوں سے کچھ سیکھ کرافغانستان درست راستہ اختیار کرلے۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا تاریخی رشتہ یہ بتاتا ہے کہ یہ ملک ہماری امیدوں کا مرکز بھی رہا ہے۔ افغانستان ہی ان حریت پسندوں کو پناہ دیا کرتا تھا جن پر ہندوستان کی زمین تنگ ہوجاتی تھی۔ افغانستان میں کوئی اس رشتے کا پاس نہ کرنا چاہے یا پاکستان میں بیٹھے کچھ لوگوں کو یہ سمجھ نہ آئے تو کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن دنیا دونوں ملکوں کو ایک ہی سمجھتی ہے۔ اسی پس منظر میں امریکہ نے ایف پاک کی اصطلاح وضع کی یعنی ہم دونوں ملکوں میں اتنی زیادہ یکسانیت ہے کہ ان کیلئے ایک ہی پالیسی ہونی چاہیے۔ جب یہ اصطلاح پہلی بار استعمال ہوئی تو اس نے ہمارے لیے تازیانے کا کام کیا تھا اور آج بھی پالیسی ساز یہ اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں‘ لیکن جو حالات بن چکے ہیں انکی روشنی میں ہمیں کچھ غور کرلینا چاہیے کہ اگر یہ اصطلاح بڑے ملکوں کی پالیسی میں ڈھل جاتی ہے تو اس سے دونوں ملکوں کو کتنے فوائد مل سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فوائد اتنے ہوں کہ کابل ایئرپورٹ جانے والوں کی وجہ سے نہیں بلکہ آنے والوں کی وجہ سے معروف ہوجائے۔
افغانستان کی تعمیرنو، خطے کی ضروریات جیسے موضوع تو ہمارے بڑوں کیلئے کچھ مشکل ہیں اس لیے انہیں سمجھنے میں شاید کچھ وقت لگے‘ لیکن انہیں کم ازکم یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ کابل ایئرپورٹ پر پڑا ہجوم صرف طالبان کے خوف کا مظہر نہیں۔ یہ ہجوم ہمیں بھی سمجھا رہا ہے کہ اگر حکومتیں بدعنوان ہو جائیں، سیاستدان اپنے مفاد سے آگے نہ سوچ سکیں، معاشی ترقی کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہ ہو، ریاست صرف طاقتور کی محافظ ہوجائے اور نوجوانوں کو اپنا مستقبل ملک سے باہر نظر آنے لگے توپھر ملک سے محبت وغیرہ جیسے الفاظ بھی اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔ تباہی کے راستے پر پڑے ملک سے نکلتے ہوئے کسی کو اپنے آباؤاجداد کی قبریں روک پاتی ہیں نہ وطن کی شان میں بنائے گئے سرکاری نغمے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں