کابل پہنچے تو ستمبر کی آٹھ تاریخ تھی اوررات کے دس بج چکے تھے۔ جلال آباد کی طرف سے کابل میں داخل ہوں تو پل چرخی سے کچھ آگے ایک محلہ ہے پکتیا کوٹ‘ جہاں جنت گل ہمارا انتظار کررہا تھا۔ جنت گل کابل میں کاروبار کرتا ہے اور خوشحال شخص ہے۔ افغانستان میں وہ تیسرا شخص تھا جس سے میری بات چیت ہوئی اور پہلا شخص تھا جس نے میرے ہر سوال کا جواب تفصیل سے دیا۔ اس وقت تک طالبان کابل میں اپنی حکومت کا اعلان کرچکے تھے۔ میں نے پوچھا: سناؤ کیسی گزررہی ہے؟ بولا :میں سیدھا سا کاروباری آدمی ہوں‘ سیاست سے میرا لینا دینا کچھ نہیں لیکن آپ کو اتنا بتا دوں کہ پندرہ اگست سے پہلے کابل میں میرے تین قیمتی موبائل فون چھینے گئے تھے۔ بازار میں فون پر بات کرنا یا نقد پیسے رکھنا ایک عذاب بن چکا تھا۔ اب سڑک پرمیں اپنے موبائل پر بات بھی کرتا ہوں اور اچھے خاصے پیسے لے کر بغیر کسی فکر کے بازاروں میں گھومتا رہتا ہوں۔ جنت گل کے گھر سے مجھے ہوٹل جانا تھا۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ مجھے لگا کہ ایک ایسے ملک کے دارالحکومت میں جہاں چند دن پہلے ہی انقلاب آچکا ہے‘ اس وقت نکلنے کی خواہش ظاہر کرنا دراصل میزبان کو امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جنت گل سے یہ توقع تو نہ تھی کہ وہ ہیچ میچ کرتا مگر پھر بھی مہمان ہونے کے ناتے میں کچھ دباؤ میں تھا۔ میرے کہنے پراس نے خوشی خوشی گاڑی نکالی‘ پکتیا کوٹ سے باہر بڑی سڑک پر آئے ہی تھے کہ ایک ناکے پر رکنا پڑا۔ میں طورخم سے کابل تک آٹھ ناکے بھگتا کر یہاں تک آیا تھا لیکن ہر ناکے پر یہ خوف ہوتا کہ بغیر وردی کے بندوق لیے روکنے والے یہ لوگ طالبان ہی ہیں یا کوئی اور۔ جنت گل نے اس ناکے پر گاڑی روکی۔ ایک نوجوان گاڑی کے پاس آیا اور ایک ایک سے پشتو میں پوچھا: کہاں جارہے ہو؟ ہمارے بارے میں یہ جان کر کہ پاکستانی ہیں‘ اس نوجوان نے اُردو میں پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ ہم نے جواب دیا کہ لاہور سے آئے ہیں‘ ہوٹل جارہے ہیں۔ اس نے پاسپورٹ دیکھے۔ پہلے پشتو میں جنت گل سے اور پھر اُردو میں مجھ سے معذرت کی کہ اس کی وجہ سے ہمیں تاخیر ہوئی ۔
مجھے اس ناکے سے گزر کر لگا کہ اب مزید کوئی ناکہ نہیں ہوگا۔ میرا خیال اتنا غلط ثابت ہوا کہ ہمیں دس کلو میٹر دور ہوٹل تک پہنچنے کے لیے مزید آٹھ ناکوں سے گزرنا پڑا۔ تین پرجامہ تلاشی ہوئی اور پانچ پر محض پاسپورٹ دکھا کر آگے بڑھ گئے‘ طالبان کی طرف سے معذرت بہرحال ہر ایک ناکے پر کی گئی۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی اردو بولنے والا مل گیا۔ دو ناکوں پر کھڑے طالب سپاہیوں نے تو یہ بھی پوچھا کہ لاہور کے کس علاقے میں رہتے ہو۔ آخری تلاشی ہوٹل کے گیٹ پر کھڑے باوردی سپاہیوں نے لی۔ پہلے پشتو اور پھر اردو میں سوال جواب کیے۔ آخر دوبجے کے قریب ہم ہوٹل کے کمروں میں جا پہنچے۔
جس ہوٹل کا ہم نے انتخاب کیا تھا اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر پڑھا تھا کہ فائیو سٹار ہے‘ کسی درجے میں یہ بات درست تھی کہ کمروں کا کرایہ اتنا ہی تھا جتنا پاکستان میں کسی فائیو سٹار ہوٹل کا ہوسکتا ہے لیکن حالت ایسی کہ ان میں استعمال شدہ برتن رکھے تھے‘ بستر کی چادریں میلی تھیں اورجس کمرے میں میرا قیام تھا وہاں تو ایک عدد چارپائی بھی رکھی تھی۔ کمرہ قطعاً اس قابل نہیں تھا کہ اس کے لیے اتنا کرایہ بھرا جاتا مگررات اتنی ہوچکی تھی کہ کسی دوسرے ہوٹل کی تلاش میں صبح ہوجاتی جبکہ اگلے دن ہمیں کام بھی کرنا تھا۔ اس لیے صبر شکر کرکے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔
اچھے ہوٹلوں میں عام طور پر مہمانوں کے لیے ناشتے کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ میں صبح سویرے اٹھ کر ناشتے کے لیے مخصوص ہال میں پہنچا تو پہلا منظر جو دیکھا وہ یہ تھا کہ دروازے کے عین سامنے سیاہ پگڑیاں پہنے ایک ہی میز کے آر پار دو نوجوان بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے دونوں پاؤں اٹھا کر کرسی پر رکھے تھے اوردونوں نے اپنی اپنی بندوقیں میز کے ساتھ ٹکا رکھی تھیں۔ ان دونوں کے اطوار سے جھلکتی بے پروائی اور بندوقیں دیکھ کر خوف کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی۔ میں یہ منظر دیکھ کر ٹھٹکا لیکن اس خوف سے آگے بڑھ گیا کہ جانے کابل میں آج کل خوف کا اظہار بھی جرم ہی نہ بن چکا ہو۔ ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی میری طرف توجہ نہیں کی۔ ہال میں موجود ویٹر میرے پاس آیا اوراُردومیں ناشتے میں موجود چیزوں کی تفصیل بتانے لگا۔ اس کی بتائی ہوئی اشیا میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی جو مجھے پسند ہو مگر ویٹر کی خوش اطواری اچھی لگی۔ اتنی دیر میں کچھ اور لوگ آگئے جن میں ایک ایسے مولوی صاحب بھی تھے جنہیں استاذ کہہ کر پکارا جا رہا تھا۔ ان کے پاس بندوقیں تو نہیں تھیں مگر انداز میں خاص طرح کا تحکم ضرور تھا۔ میں نے اس مہربان ویٹر سے پوچھا کہ بندوقیں اور بندوقوں والے کیسے کھانے کے کمرے میں آرہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ ہوٹل سرکاری ملکیت میں ہونے کی وجہ سے پندرہ اگست سے طالبان کے قبضے میں جاچکا ہے اور یہاں ان کے کچھ جید اراکین اور ان کی سکیورٹی موجود ہے۔ اس کی بات سن کرمجھے مزید خوف محسوس ہونے لگا۔ ایمانداری کی بات ہے خود کو تھوڑا سا کوسا بھی کہ آخر کابل آنے کی ضرورت ہی کیا تھی‘ آخر اتنے سارے لوگ بغیر افغانستان آئے بھی تو تبصرے تجزیے کررہے ہیں‘ تم بھی کرتے رہتے تو کیا قیامت آجاتی۔
میں نے ابھی ناشتہ ختم بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ٹولی جس کا میں ذکرکررہا ہوں وہ ناشتے کے بغیر ہی نکل گئی اور ان کی جگہ بائیس تئیس برس کا ایک نوجوان آکر بیٹھ گیا۔ اس کے پاس بھی اپنی بندوق تھی جو اس نے کرسی کے ساتھ ٹکا رکھی تھی۔ میں نے ہمت کرکے اپنی میز چھوڑی اور اس کے پاس جاکر اردو اور انگریزی میں کچھ بات کرنے کی اجازت چاہی۔ بات شروع ہوئی تو اس کی اردو اور انگریزی دونوں ختم ہوگئیں مگر اتنی دیر میں علی شنواری آن پہنچا تھا۔ بات آگے بڑھی تو پتا چلا کہ اس کا نام نصرت ہے اور یہ کسی مدرسے کے بجائے کابل یونیورسٹی میں صحت عامہ کے شعبے میں آخری سال کا طالب علم ہے۔ میں نے پوچھا: طالبان میں کیسے چلے آئے اور کیا کرتے ہو؟ اس کا کہنا تھا کہ طالبان ہی افغانستان کے اصل وارث ہیں اس لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہر افغان کا فرض ہے۔ دوسرے سوال کا جواب اس نے دیا کہ میں سکیورٹی گارڈ سے لے کر اپنے اکابرین کے دفتری کاموں میں مدد تک سبھی کچھ کرتا ہوں۔ میں نے تفصیل چاہی تو اس نے بتایا کہ پندرہ اگست کو جب طالبان شہر میں داخل ہوئے تو اسے بزرگوں کی ایک فہرست دی گئی اور اس ہوٹل کا بتا دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ سرکاری ملکیتی ہوٹل پر قبضہ کرتا اور بزرگوں کے ٹھہرنے کا بندوبست کرتا۔ اس نے چند نوجوان ساتھ لیے اور ہوٹل آن پہنچا۔ یہاں کا ساراعملہ فرار ہوچکا تھا۔ اس نے ہوٹل کا استقبالیہ سنبھالا‘ فون ایکسچینج کے تار وغیرہ درست کیے اور اپنے ساتھیوں کو بزرگوں کو لینے کے لیے بھیج دیا۔ یہ بزرگ تشریف لے آئے تو انہیں لانے والے نوجوان ہی ویٹر بن گئے اور وہ خود ہوٹل کا منیجر۔ کئی دن ایسے ہی گزرے اور صرف تین دن پہلے کچھ لوگ کام پر واپس آئے ہیں۔ کابل شہر جانے کے لیے ہماری گاڑی آچکی تھی‘ میں نے اٹھنا چاہا تو اس نے مجھ سے پوچھا: پاکستان میں ہمارے بارے میں کیاسوچا جارہا ہے؟ میں نے کہا :اچھا ہی سوچا جارہا ہے۔ میری بات سن کروہ ہنس پڑا‘ بولا :ہمارے اکابرین کہتے ہیں کہ پاکستان والے بڑے چالاک ہیں۔ پھر اس نے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر کہا: اب ہم بھی بہت چالاک ہوچکے ہیں۔ میں چلنے لگا تو پوچھا:یہ طورخم والا بارڈر کب کھلے گا؟ میں اس سوال پر کچھ حیران ہوا‘ مگر میرے پاس اسے دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا۔(جاری )