کابل کا دل بڑا ہے۔ کتنا بڑا ہے اس کا پتا چلانے کے لیے آپ کو تیس برس پہلے کے واقعات یاد کرنا ہوں گے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہر کے ایک طرف سے احمد شاہ مسعود اس پر راکٹ داغا کرتے تھے اور دوسری طرف سے گلبدین حکمت یار۔ دونوں کی لڑائی نے شہر کو نشانہ بازی کے لیے استعمال ہونے والے مٹی کے ٹیلے کی طرح کر دیا تھا۔ بجلی کا نظام، پانی کا نظام یا کوئی بھی ایسی چیز جو کسی نظام کے تحت ہوسکتی تھی، برباد ہوگئی۔ ان دونوں کی باہمی لڑائیوں نے افغانستان کو راکھ بنا ڈالا اور انہی کے اختلافات سے طالبان کا ظہور ہوا۔ احمد شاہ مسعود خود تاریخ ہو کر اگلے جہان چلے گئے مگر گلبدین حکمت یار اپنی بنائی ہوئی تاریخ کا سامنا کرنے کے لیے کابل میں ہی موجود ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہوا کہ کابل کا دل کتنا بڑا ہے! ان دو میں سے ایک‘ جنہوں نے اس شہر پر اندھا دھند بمباری کی، وہیں رہتا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ جس سڑک پر رہتا ہے اس کا نام دارالامان روڈ ہے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی یہ کہ جس نے امریکی صدرریگن سے وائٹ ہاؤس میں ملنے سے انکار کردیا تھا، اس کا گھر امریکی یونیورسٹی کے عین سامنے ہے۔ جب میں نے گلبدین حکمت یار سے ملنے کی درخواست کی تو ان کے معاون اور داماد ڈاکٹر غیرت بہیر کی طرف سے مجھے جو پتا بھیجا گیا تھا، وہ یوں تھا ''دفتر حزب اسلامی، دارالامان روڈ، امریکن یونیورسٹی کے سامنے‘‘۔
میں تو مؤرخ نہیں صحافی ہوں۔ میرے سوال ماضی سے کم، حال اور مستقبل سے زیادہ متعلق ہوتے ہیں۔ میں افغانستان کے مستقبل کے سوالات لے کر ہی ان کے وسیع و عریض دفتر میں پہنچا تھا۔ یہ دفتر دراصل ایک کمپاؤنڈ ہے۔ اس میں مسجد بھی ہے اور کئی طرح کے تربیتی مراکز بھی۔ وہاں لوگوں کی تعداد کافی کم تھی، اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ یہ عمارتیں اب کسی استعمال میں نہیں۔ جیسے ہی ہمارے آنے کی اطلاع ہوئی تو ڈاکٹر غیرت بہیر اور ان کا بیٹا عبیداللہ بہیر ہمارے استقبال کے لیے آگئے۔ عبیداللہ بہیر پچیس چھبیس برس کا نوجوان ہے۔ آسٹریلیا سے عالمی تعلقات میں ڈگری حاصل کرچکا ہے اور امریکی یونیورسٹی میں لیکچردیتا ہے۔ اس سے چند باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اس کی رائے اپنے نانا گلبدین حکمت یارکی سوچ سے کافی مختلف ہے۔ میں نے طالبان کی حکومت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا ''یہ لوگ عملیت پسند نہیں، ان سے غربت کی بات کرو یا معاشی مشکل کی تو کوئی مذہبی دلیل لے آتے ہیں‘‘۔ اتنی ہی بات ہوئی کہ ایک ملازم نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ عبیداللہ بہیر نے مجھے انگریزی میں مخاطب کرکے کہا ''آپ کیمرے وغیرہ لگا لیجیے، عزت مآب تشریف لا رہے ہیں‘‘۔ ایک نواسے کے منہ سے اپنے نانا کے بارے میں 'ہزایکسی لینسی‘ کی ترکیب مجھے کچھ عجیب سی لگی۔ وہ ابھی تشریف نہیں لائے تھے کہ دو کیمرہ مین بھی آگئے جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ ان کے بارے میں دریافت کیا تو پتا چلا کہ گلبدین حکمت یار تمام انٹرویوز کا ریکارڈ اپنے پاس بھی رکھتے ہیں‘ مبادا ان کی بات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر چلا دیا جائے۔ افغانستان کے سابق وزیراعظم کے لیے کرسی کی نشاندہی پہلے سے ہی کردی گئی تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھے تو اپنے کیمرہ مینوں کے زاویے خود ہی درست کرائے اور پھر سٹینڈ پر لگی لائٹوں کی جگہ تبدیل کرائی تاکہ روشنی ان پر ٹھیک رخ سے پڑے۔ کیمروں سے مطمئن ہوگئے تو انہوں نے مجھ سے سوالات کے بارے میں بات کی۔ سوالات پر اطمینان ہوا تو اپنے نواسے کو انٹرویو کیلئے ترجمان مقرر کیا۔ یہ طے پایا کہ میں سوالات اردو میں کروں گا، جن کے ترجمے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اردو سمجھ سکتے ہیں‘ البتہ وہ پشتو میں جواب دیں گے اور عبیداللہ انگریزی میں ترجمہ ریکارڈ کرائے گا۔ پھر اسی ترجمے کو بنیاد بنا کر اردو میں ڈبنگ کی جائے گی۔
انٹرویو شروع ہوا تو میرے ہرسوال کا جواب دینے کے بعد وہ رک جاتے، عبیداللہ ترجمہ کرتا جس میں وہ جگہ جگہ تصحیح کراتے اور پھر میں اگلا سوال کرتا۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ گلبدین وہ بات کررہے تھے جو طالبان بھی کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کو تین مشورے دیے، اوّل یہ کہ امریکا سمیت جن ملکوں نے افغانستان پر حملہ کیا تھا ان سے امداد کے بجائے تاوان طلب کیا جائے، دوم یہ کہ جو لوگ افغانستان کا پیسہ لوٹ کر لے گئے ہیں انہیں واپس لایا جائے اور تیسرے یہ کہ اس وقت تک کسی بھی ملک کو افغانستان میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ افغان حکومت کی طے کردہ حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کا عہد نہ کرے۔ جب وہ یہ سب فرما رہے تھے تو میرے ذہن میں 1989ء سے لے کر 1994ء تک کی افغان تاریخ پھرنے لگی۔ ان پانچ برسوں میں افغانستان میں جتنا بھی خون بہا اس کا معتدبہ حصہ محض اس لیے بہا کہ گلبدین حکمت یار سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد کسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اب وہ یہی مشورہ طالبان کو دے رہے تھے۔
میں ان کا انٹرویو کرکے اپنی گاڑی کی طرف آیا تو نظر حزب اسلامی کے اسی کمپاؤنڈ میں کتابوں کی ایک دکان پر پڑی جو میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکا تھا۔ اندر جاکر دیکھا تو سبھی کتابوں پر مصنف کے نام کی جگہ 'حکمت یار‘ لکھ رکھا تھا۔ دکان کے اندر ایک پینافلیکس پر گلبدین حکمت یار کی تصویر کے ساتھ ان کتابوں کی فہرست تھی جو ان کے قلم سے نکلی تھیں۔ میں نے گنیں تو ان کی کل تعداد ایک سو سترہ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر اسلامی موضوعات پر تھیں مگر کچھ افغان سیاسیات پر بھی لکھی گئی تھیں۔ بیشتر کتابیں پشتو میں تھیں، میں نے دکان دار سے کہا کہ ان کی سیاسی کتابیں اگر فارسی یا انگریزی میں ہیں تو دے دیں۔ سوئے اتفاق میرے مطلب کی سبھی کتابوں کے فارسی ایڈیشن ختم ہوچکے تھے۔ اسلامی موضوعات پر جو کتابیں فارسی میں دستیاب تھیں کھڑے کھڑے الٹ پلٹ کر دیکھیں تو اندازہ ہوا کہ گلبدین حکمت یار سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد اپنی توجہ علمی کاموں کی طرف مرکوز کرلیتے تو شاید آج ان سے بڑا عالم کوئی اور نہ ہوتا۔
مجھے گلبدین حکمت یار کی شخصیت کے اس علمی پہلو کا بالکل اندازہ نہیں تھا‘ حالانکہ میری نسل نے جب ہوش سنبھالا تو افغانستان اور گلبدین حکمت یار کے نام بیک وقت ہمارے کانوں میں پڑے۔ جب اس کا ذکرافغان سرحدیں پھلانگ کر دنیا بھر میں ہورہا تھا تو ان کی عمر صرف تیس برس تھی۔ چالیس برس کی عمر میں وہ سوویت یونین کو شکست دینے والی مجاہدین تنظیموں میں سب سے بڑی تنظیم کے امیر تھے۔ تینتالیس برس کی عمر میں وہ افغانستان کے وزیراعظم بن گئے مگراکیلے حکومت کے شوق میں اسے ٹھوکر ماردی۔ چوالیس سال کی عمر میں ایسا موقع پھرآیا اور صرف ایک دن حکومت میں گزار کر اگلے دن سے اپنے ہی دارالحکومت پر راکٹ باری شروع کردی۔ وہ پینتالیس برس کے تھے کہ ان کی فوج انہیں چھوڑ کر طالبان سے جا ملی اور وہ ایک ایسا سپہ سالاربن گئے جو فوج کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ وہ اپنے ملک میں جس کے بھی دوست بنے، اس سے ناراض ہوگئے اور جس سے ناراض ہوئے اسے کبھی معاف نہیں کیا۔ عجیب بات ہے کہ ان کی زندگی کی ہر بڑی کامیابی کے ساتھ ہی اتنی ہی بڑی ناکامی رونما ہوجاتی ہے۔ انہوں نے زندگی کے بہترین سال افغانستان کو غیرملکی فوجوں سے پاک کرنے میں گزار دیے۔ جلا وطنی کاٹ کر واپس آئے تواس وقت بھی افغانستان پر غیرملکی فوجوں کا قبضہ تھا اور اب یہ قبضہ ختم ہوا تووہ تاریخ کی دھند میں گم ہورہے ہیں۔ میں نے ایک بڑے طالبان لیڈر کے سامنے یونہی گلبدین حکمت یار کا ذکر چھیڑا تو وہ ہنس کر بولے ''ہماری ایک مصیبت تو یہ ہے کہ تم پاکستانیوں کی اس کیلئے محبت نہیں جاتی، وہ جہاں ہے ٹھیک ہے‘‘۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ طالبان کے افغانستان میں گلبدین کے نصیب میں اب اور کچھ بھی نہیں۔ بیالیس برس کی عمر میں جو گرہیں انہوں نے لگائی تھیں، بہتّر سال کی عمر میں انہیں وہ کھول نہیں سکتے۔ (جاری)