بہت خوب کہ معاہدہ ہو گیا۔ سنا ہے کہ اس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم قانونی حیثیت حاصل کر لے گی، اور اس کے کارکنوں کے خلاف غالباً قانون شکنی کا کوئی مقدمہ بھی درج نہیں ہو گا۔ اس جماعت کے متوصلین جو پہلے سے جیلوں میں ہیں‘ ان کے لیے الگ سے ایک کمیٹی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کمیٹی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مذکورہ تنظیم کے زعما بھی موجود ہیں تاکہ اپنے ہی کارکنوں کے بارے میں عین قانون اور عین انصاف کے مطابق فیصلہ کر سکیں۔ جہاں تک دھرنے کا معاملہ ہے تو تادم تحریر اس کے شرکا وزیر آباد میں ہی جی ٹی روڈ کے قریب مقیم ہے تاکہ بوقت ضرورت سڑک ایک بار پھر بند کرنی پڑے تو یہ کام بہ سہولت ہو سکے۔ اس معاہدے کے ضمنی نتیجے کی صورت میں بعض حضرات کو غالباً مفروضہ 'لبرلز‘سے بدلے چکانے کا موقع بھی مل گیا اور انہوں نے ایک سوال کے جواب میں ان کے بارے میں برسرِ عوام کھڑے ہو کر جو کچھ فرمایا وہ سب نے سنا۔ یہ تسلیم کہ کچھ ثالثوں نے صلح صفائی کراتے ہوئے ہی ایک ایسی جنگ جیت لی جس کے وہ سپاہی تھے نہ سالار، لیکن ریاست پاکستان میں ستائیس ہزار ایک سو گیارہ دن سے جاری ستم ظریفی کی وجہ سے اب شاید انہیں یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں لبرل کہہ کر ظلمت کی اتھاہ گہرائی میں پھینک دیں اور جسے ان کا سخن کرشمہ ساز چاہے عظمت کی لامتناہی بلندی پر فائز کر دے۔ یہ بھی اعتراف کہ اس معاہدے کے بعد ایک آدھ میں تو سیاسی امامت کے جوہر بھی پیدا ہو گئے ہیں اور قانونی و دستوری قرار پانے والی ایک جماعت کے بنے بنائے پیروکار بھی میسر آ گئے ہیں۔ ان حضرات کی علمی و عملی وجاہت کے تسلیم و اعتراف کے ساتھ اس خاکسار کو اپنی کوتاہ قامتی کا احساس بھی ہے اورکم علمی کا ادراک بھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس عاجز شہری کے پاس اپنے عقائد کا کوئی سرٹیفکیٹ بھی نہیں کہ جسے دکھا کر جان بخشی کرا سکے۔ اپنی ان تمام محرومیوں کے بارے اچھی طرح علم ہونے کے باوجود کچھ سوال ایسے ہیں جو صاحبان اقتدار و اختیار کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔ اگر ہمت ہوتی تو یہ طالب علم 'لبرلز‘ وغیرہ کی پھبتی کس لیتا لیکن سوالات کا مقصد وحید یہ ہے کہ ان اشکالات و اوہام کا ازالہ ہو سکے جو اس ناقص الفہم صحافی کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو رہے ہیں۔
پہلا سوال جو میرے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ اس معاہدے کی شقوں کے بارے میں ہے۔ اس معاہدے کی 'خوشخبری‘ تو سنائی گئی لیکن اس کی ایک بھی شق سے ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس خفیہ کاری سے یہ بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ کہیں ریاست کی کسی ایسی طاقت پر تو کسی نے معاملہ نہیں کر لیا جس کا اختیار اسے حاصل نہیں تھا۔ ہم ایک تحریری دستور کے پابند ہیں اور صرف وہی قانون ماننے کے مجاز ہیں جو پہلے سے ضبطِ تحریر میں آ چکا ہو۔ کسی خفیہ معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت پاکستان کے دستوری نظام میں تو موجود نہیں۔ لہٰذا ایسا معاہدہ جس کی شقیں ہم پر واضح نہیں اس کے بارے میں ہر طرح کی بدظنی جائز تصور ہو گی‘ اور پھر بالخصوص علمائے کرام سے سوال ہے کہ اس طرح کے خفیہ معاہدوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ طالب علم تو آج تک سمجھتا ہے کہ آنجنابﷺ نے اپنی دنیاوی زندگی میں تو نکاح سے لے کر صلح حدیبیہ تک ایک ایک معاہدہ قوم کے سامنے کیا، تو کچھ لوگوں کو یہ حق کیونکر حاصل ہوا کہ وہ قوم سے چھپا کر معاہدے کریں یا ان کے ضامن بنیں؟
دوسرا سوال اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر طرح کے اکابرین سے ہے کہ ان کے نزدیک ریاست کی رٹ کے معنی کیا ہیں؟ وزیر آباد کے اسی مقامِ معروف پر جہاں بیٹھ جانے سے مطالبات معاہدے کے نکات میں ڈھل جاتے ہیں، اگر کل کلاں ایک نیا جلوس آ بیٹھے اور سعودی عرب یا ایران کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں ریاست کا ردعمل کیا ہو گا اور کیا جو اعزازِ صلح آج ان حضرات کے حصے میں آیا ہے وہ کل کسی اور کو بھی ملے گا؟ نیز یہ بھی فرما دیں کہ ریاست میں کتنے ایسے مزید جتھوں کی گنجائش ہے جو کچھ بھی کر لیں تو کچھ نہیں ہو گا اور کتنے ایسے ہیں جو آہ بھی کریں گے تو انہیں سولی پر کھینچ دیا جائے گا؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ یہی جتھہ مستقبل میں کسی مناسب وقت پر وزیر آباد کے اسی مقامِ مسعود پر آئے اور ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کے عزل و نصب کا مطالبہ کرے، یعنی کسی کے بارے کہے کہ اس کو عہدے سے ہٹا دیا جائے یا کسی کے بارے میں حکم دے کہ اسے لگا دیا جائے تو کیا ایسی صورتحال میں بھی ریاست کی رٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا؟ یا پھر اس قوم کو یہ بتا دیں کہ مطالبات کی کون سی ایسی اقسام ہیں جو جتھوں کے ذریعے منوائی جا سکتی ہیں اور کون سی ایسی ہیں جن کا زبان پر لانا ہی متکلم کو کشتنی قرار دینے کے لیے کافی ہے؟
چوتھا سوال اس عاجز کا اس ریاست کے رئیسوں سے یہ ہے کہ کل کو مجھے قتل کرکے کوئی جتھہ قاتل اور پولیس کے راستے میں دیوار بن جائے تو ایسی صورت میں میرا خون کس کی گردن پر ہوگا؟ یہ سوال اس لیے پوچھا ہے کہ خاکسار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ پولیس والے جو اس جتھے کی قوت کے بھینٹ چڑھ گئے، ان کا خون کس کے ہاتھوں پر تلاش کرنا ہے؟ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ تادم تحریرچونکہ سرکاری کاغذوں میں راقم کا اندراج ان شہریوں کی فہرست میں شامل ہے جو باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں اور قانون کی پابندی عادتاً کرتے ہیں‘ اور بایں سبب اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان پولیس والوں کی زندگیاں رائیگاں جاتی دیکھیں تو آواز اٹھائیں۔ اس فقیرکو حضرت مفتی منیب الرحمن دامت برکاتہ العالیہ کی انابت پر پورا بھروسہ ہے کہ جان سے جانے والے پولیس والوں کے حق میں ان کی دعائیں قبول ہوں گی‘ لیکن دنیاوی قانون ہو یا شریعت میں ان مرنے والوں کے ذمہ داروں کا تعین بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
پانچواں سوال اس رعایا کے مسئول راعیوں سے ہے کہ جب اس ملک تباہ حال میں انواع و اقسام کے جتھوں کو راستوں کی بندش، پولیس والوں کے قتل اور عامۃ الناس کا نقصان کرنے کی کھلی چھوٹ ہے تو ایسا قانون کیوں نہیں بنا دیا جاتا جس کے تحت ان جتھوں کے راستے میں آنے والے، یا ان کے مقابلے میں ریاست کی رٹ کا راگ الاپنے والوں کو'لبرل‘ قرار دے کر کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے۔
چھٹا سوال ہر طرح کے قائدین پاکستان سے ہے۔ وہ یہ کہ کیا آپ نے یہ ملک خفیہ طور پر طے پانے والے معاہدوں کے زور پر ہی چلانا ہے؟ ویسے تو ہزاروں سال کی ریاستی تاریخ آپ کے اس طرز عمل کی نفی کرتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام ہونے کے ناتے ہماری کوئی اوقات نہیں کہ آپ کو اپنا طرز عمل بدلنے پر مجبور کر سکیں۔ بس نہایت ادب کے ساتھ وضاحت اس لیے طلب کر رہے ہیں کہ اگر آپ نے اپنا چلن نہیں بدلنا تو پھر ہم ہی اپنا بندوبست کرلیں۔ وما علینا الاالبلاغ