"HAC" (space) message & send to 7575

رانا محمد شمیم کا مقدمہ

جو کچھ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بارے میں کہا ہے اگر وہ سچ ہے تو پھر یہ سمجھ لیجیے کہ اپنا ریاستی نظام کنارے آلگا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ثاقب نثارمبینہ طورپرجولائی 2018ء میں کسی جج کے لیے پیغام دے رہے تھے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے جیل سے باہر نہیں آنا چاہیے۔یہ کہانی عدالتی معیار پر کتنی سچی ہے‘ اس کا فیصلہ تو عدالتیں ہی کرسکتی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ ثاقب نثاربطور چیف جسٹس جو کچھ کرتے رہے ہیں‘ وہ عام ذہن کے لیے کافی ثبوت ہے۔ البتہ اس کہانی سے خود رانا محمد شمیم پربھی کئی سوال اٹھتے ہیں۔ فرض کرلیں ایسا ہوا ہے تو جج صاحب کے اپنے بیان کے مطابق ان کا ضمیر پہلی بار 2019 ء میں یعنی واقعے کے ایک سال بعد جاگا جب انہوں نے نوازشریف کے صاحبزادے کو اعتماد میں لیا اور پھر مورخہ 10 نومبر 2021ء کو تو ضمیر جاگنے کی تصدیق لندن کے نوٹری پبلک نے بھی کردی۔ چلئے دیرآید درست آید لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ ایک جج کے سامنے دوسرا جج ایک غیر قانونی کام کررہا ہے اور وہ تین سال تک خاموش ہے؟ کیا یہ تین سالہ خاموشی کافی نہیں تباہی کے ثبوت کے لیے؟ ایسے شخص کا منصف ہو جانا‘ جو انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے بجائے خاموش ہوجائے‘ فی نفسہٖ ایسا المیہ ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔
رانا محمد شمیم کے انکشاف کو درست مانیں یا جھوٹ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رانا صاحب موصوف یا میاں ثاقب نثاروہ پہلے اشخاص نہیں جن کی وجہ سے عدلیہ کے اجلے دامن پر داغ لگے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد 1954ء میں اس نوزائیدہ ملک کے چیف جسٹس محمد منیر کے اس منصب پر آنے کے بعد عدلیہ مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ ہروہ فیصلہ جو ہماری محترم عدلیہ نے سیاستدانوں یا جمہوری اداروں کے حوالے سے کیا جیسے ہی تاریخ کا حصہ بنا‘ اپنا استدلال کھو بیٹھا۔ جسٹس محمد منیر 29 جون کو چیف جسٹس بنے اور 24 اکتوبر کو گورنرجنرل نے اسمبلی توڑدی۔ قاضی القضاۃ کے سامنے یہ کیس اپیل میں گیا اور سازشوں میں لتھڑے ہوئے گورنرجنرل غلام محمد کے لیے چیف جسٹس عالی مقام نے دستور میں نقب لگا کرقانون کا چور دروازہ تخلیق کیا۔ پھر جنرل ایوب خان تشریف لے آئے تو ان کے لیے اسی دروازے کو اتنا وسیع کردیا گیاکہ اس میں سے جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف بآسانی گزر کر ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے۔
پھر ذوالفقارعلی بھٹو کو موت کی سزا دینے والے منصفوں کو کون بھلا سکتا ہے۔ انہوں نے پہلے ضیاالحق کے مارشل لا کو نصرت بھٹو کیس میں جواز بخشا اور بعد میں بھٹو کا کیس سنا۔ اس زمانے کے چیف جسٹس انوارالحق نے 895 صفحات یہ ثابت کرنے کے لیے لکھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق بھٹو کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے۔ ان کا ساتھ دینے والے تین دیگر ججوں میں سے ایک جناب جسٹس نسیم حسن شاہ بھی تھے‘ جو بعد میں چیف جسٹس بنے۔ ان کا ضمیر بھی بھٹو کی پھانسی کے طویل عرصے بعد جاگا اور انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ضیاالحق کے دباؤ سے ان کا ضمیر سو چکا تھا۔ جب انہیں زندگی میں مزید کسی عہدے کی آس نہیں رہی اور جنرل ضیا بھی اپنے خالق سے جاملے تو ضمیر انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔ واضح رہے کہ بھٹو کیس کی سماعت کے دوران کسی منصف کے ضمیر نے چوں تک نہیں کی۔ کسی کے ضمیر نے یہ نہیں کہا کہ جس شخص کو وہ پھانسی کی سزاسنا رہے ہیں‘ وہ دستور کا خالق ہے اور اس کے بدترین مخالف دستورشکن کے جاری کردہ پی سی او کے تحت ہی انہوں نے حلف لیا ہے۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کون نہیں جانتا‘ آنجناب اس عہدے پر غالباً اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے آئے۔ ان کے زمانے میں اگر آج کی طرح الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا ہوتا تو وہ اپنی حرکتوں سے جناب ثاقب نثار کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے ہوتے۔ جسٹس شاہ کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے میرٹ نظرانداز کرکے چیف جسٹس بنایا تھا۔ پھر یہی جناب ایک بار وزیر اعظم سے ملنے گئے تو مناسب پروٹوکول نہ ملنے کے باعث ایسی کدورت دل میں لے آئے کہ بے نظیربھٹو کو اقتدار سے نکالنے والوں کا آلۂ کار بننے سے بھی گریز نہ کیا۔ نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں تو جناب نے دستور میں کی گئی ترمیم کو بھی تختۂ مشق بنا کرسب کچھ اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہا۔ پھرجنرل پرویز مشرف کی دستور شکنی کو جواز بخشنے والے جسٹس ارشاد حسن خاں کو تو کتاب لکھنا پڑی جس میں وہ بڑے رسان سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ان کے ضمیر کا ہی تو فیصلہ تھا جس کے مطابق انہوں نے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھا لیاور دستور میں پہلے سے پڑے رخنوں کو تھوڑا سا درست کردیا تاکہ یہ پرویز مشرف کی ضرورت کے عین مطابق ہوجائیں۔
اس ملک میں ایک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی تو تھے۔ یہ وہی تھے کہ انہیں جب جنرل پرویز مشرف نے معزول کیا تو ہم میں سے اکثران کی بحالی کو ریاست کی بحالی سے جوڑا کرتے تھے۔ جب وہ معزول ہوئے تھے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ طوفان آگیا ہے۔ وہ بحال ہوئے تو پتا چلا ملک پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ انہوں نے عہدے پر واپس آنے کے بعد سبھی کچھ اپنی انا کے بھینٹ چڑھا دیا۔ انہی صاحب نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی تیار کردہ سان پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوتوہین عدالت کا مرتکب قرار دے کررگڑ ڈالااورپھراسی سے ملتے جلتے راستے سے نوازشریف نکالے گئے۔ یہی وہ 'افتخارِعدلیہ‘ تھے جنہوں نے بحالی سے پہلے سٹیل مل کی نجکاری روک کرملکی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اوربحالی کے بعد ریکو ڈک میں تانبے کی کانوں کے کیس میں اپنے ملک کا عالمی مذاق بنا دیا۔
قوموں کی تباہی ایک واقعہ نہیں ہوتی‘ مسلسل عمل ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات رونما ہوتے چلے جاتے ہیں اور آخر ایک دن بہت بڑا واقعہ آخری سبب بن کر تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہو جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات جو سیاست میں تھوڑا بہت تموج پیدا کرتے ہیں اور بھلا دیے جاتے ہیں لیکن ایک تسلسل سے دیکھا جائے تو یہ سبھی واقعات اس ہمہ گیرتباہی کا پیغام ہیں جو اس ملک میں اپنے پنجے گاڑتی چلی جارہی ہے۔ ہماری تاریخ یہ بتا رہی ہے کہ ہمارے ریاستی نظام کی چھلنی نے کبھی اپنا کام نہیں کیا۔ اس کے چھید اتنے بڑے ہیں کہ اس میں سے جسٹس منیر قسم کا آدمی سارے مرحلے پار کرکے ملک کا قاضی القضاۃ بن کر ریٹائر بھی ہو جاتا ہے اور رانا شمیم جیسا گلگت بلتستان پہنچ کر چیف جج بن جاتا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ذرا غور فرمائیے کہ ابھی جن شخصیات کا ذکرہوا ہے‘ کسی دوسرے نے ہی تو انہیں عہدے پر فائز کیا ہوگا‘ پھر انہوں نے اپنے اپنے دور میں نئے لوگوں کی تقرریاں بھی کی ہوں گے۔ پھران کے مقرر کردہ لوگوں نے بھی مختلف منصب لوگوں کو دیے ہوں گے۔ ریاستی مناصب پر تقرریوں کہ اس زنجیر کی حالیہ کڑی سے ماضی میں جائیں تو زیادہ سے زیادہ آپ کو کچھ کراہت محسوس ہوگی کہ وہ لوگ جن کے ناموں کے ساتھ درسی کتابوں میں طرح طرح کے سابقے لگائے جاتے ہیں‘ کتنے چھوٹے اور نالائق تھے۔ اسی زنجیر کو پکڑ کر مستقبل کی طرف چلیں تو خوف آتا ہے کہ اسی طرح کے لوگ اس ریاست کوچلاتے رہیں گے؟ خیر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ رانا محمد شمیم اور ثاقب نثار کا مقدمہ آج کا نہیں‘ یہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں