"HAC" (space) message & send to 7575

ایک بار پھر

مجھے چند ایک بار کچھ منصفوں کو عدالت میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ عدالت میں ان کا رویہ اور طرز عمل دیکھ کر ججوں کا ضابطۂ اخلاق مجھے محض بے فائدہ سی دستاویز لگا۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام 'پیامِ صبح‘ کے میزبان انیق احمد کہتے ہیں ''عزت کی سب سے گھٹیا قسم وہ ہے جو کسی کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے کی جائے‘‘۔ اس لیے اکثر اوقات کسی کا نام لے کر کھلی تنقید کرنے کی ہمت نہیں پڑی کہ ہمارے ہاں اکثر اعلیٰ عہدے دار میرے جیسے غریبوں کی کمزوری سے ہی عزت کشید کرتے ہیں‘ ورنہ طاقت کے سامنے یہ عام طور پر حالت رکوع میں ہی رہتے ہیں۔ سو، میں خود کو مجبور ہی سمجھتا رہا۔ پھر بھی دھیمے سروں میں جو کچھ ہو سکا ٹی وی پر کہا اور بچ بچا کر تھوڑا بہت لکھ بھی دیا۔ کئی بار خیال آتا کہ کم از کم اس شخص پر مقدمہ تو ضرور چلنا چاہیے جس کی سفارش پر کچھ لوگ وکیل سے ہائیکورٹ کے جج‘ پھر سپریم کورٹ کے جج اور آخرکار چیف جسٹس بنے۔ تھوڑی سی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں اپنے وفاداروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے والے قدرت کی پکڑ میں آ چکے ہیں اور ان پر مقدمے بھی چل رہے ہیں۔
جسٹس (ر) ثاقب نثار کی مثال ہی لے لیجئے۔ آج ان پر الزام ہے کہ وہ نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کے لیے استعمال ہوئے حالانکہ ان کو نواز شریف نے ہی اپنے دوسرے دور حکومت میں پہلے بڑے چاؤ سے سیکرٹری قانون لگایا اور پھر ایک سال بعد انہیں لاہور ہائیکورٹ کا جج لگا دیا۔ ان کے جج بننے کی سمری بطور وزیر اعظم خود نواز شریف نے اس وقت کے صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ کو بھیجی‘ جنہوں نے اس پر اپنے تصدیقی دستخط ثبت کرکے انہیں اس عہدے کے لیے موزوں قرار دیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ثاقب نثار صاحب سیکرٹری قانون تھے تو اسی دوران پاکستان کی سپریم کورٹ پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے حملہ بھی کیا تھا۔ ان کے سیکرٹری قانون بننے اور سپریم کورٹ پر حملے میں کوئی تعلق تھا یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ تو معلوم ہے کہ اس زمانے کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی وزیر اعظم نواز شریف سے ٹھنی ہوئی تھی۔ ان حالات میں اگر وزیر اعظم کسی کو سیکرٹری قانون لگاتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معاملات کیا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کچھ تو ایسی خدمت کی ہو گی نواز شریف نے جس پر خوش ہو کر انہیں جج بنا دیا۔ یاد آیا پھر آپ برضا و رغبت جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف لے کر بھی جج ہی رہے۔
سیاسی جانبداری کا الزام معمولی بات نہیں۔ یہ کسی عام افسر کی بات نہیں ہو رہی کہ چند دن اس پر گفتگو ہو اور پھر بھلا دی جائے۔ متعین طور پر کہا گیا ہے کہ ایک دوسرے جج کو فون پر انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کا کہا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ الزام پہلی بار سن کر عوام کی اکثریت کو درست لگا تھا۔ اگر عدالت یہ کیس نہ اٹھا لیتی اور کچھ حقائق سامنے نہ آتے تو ممکن ہے ملک کی بہت بڑی اکثریت کو یہ الزام درست ہی لگتا رہتا۔ اب ان کی آواز یا ان جیسی آواز پر مبنی ایک آڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ کسی کو بتا رہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل بھیجنا ہے۔ آواز ان کی ہے یا نہیں یا انہی کی آواز کے ٹکڑے جوڑ کر ایک خاص مطلب پیدا کیا گیا ہے، وہ شخص کون ہے جس سے وہ مخاطب ہیں، یہ سبھی سوال جواب طلب ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے ملک کی ایک معتبر کرسی پر بیٹھنے والے شخص پر اس طرح کے الزام کو لغو ہی قرار دے سکیں۔ تردید ان کا حق ہے‘ عین ممکن ہے کچھ لوگ اس تردید کو مان بھی لیں، لیکن یہ معاملہ صرف ذاتی تردید سے ختم ہونے والا نہیں۔ موصوف کیا کچھ کرتے اور کراتے رہے ہیں اس سے کسی کو مسئلہ نہیں۔ وہ جج کی حیثیت میں کیا کرتے رہے یہ صرف ماضی نہیں بلکہ حال اور مستقبل سے بھی جڑا ہوا سوال ہے۔ اس لیے اب جو کوئی صاحب اختیار یہ کہتا ہے کہ 'اداروں پر سے لوگوں کا اعتماد مت اٹھائیے‘ تو اسے کم از کم اس معاملے میں تو کچھ کرنا چاہیے۔
جب مذکورہ آڈیو سامنے آئی تو مجھے خیبر پختونخوا کے سابق مشیر اطلاعات اجمل وزیر کا فون آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آڈیو سن کر ان کا پہلا تاثر یہ ہے کہ اسے مخصوص معنی پہنانے کے لیے ایڈٹ کیا گیا ہے۔ ان کی یہ بات اس لیے اہم ہے کہ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے انہی کے ادا کردہ فقرے سیاق و سباق سے ہٹاکر یوں ایڈٹ کیے گئے جن سے یہ تاثر بنا کہ وہ کسی اشتہاری ایجنسی کے مالک سے رشوت کا تقاضا کررہے ہیں۔ یہ آڈیو وزیراعظم عمران خان تک پہنچی تو انہوں نے اجمل وزیر کو عہدے سے ہٹا کر ان کی انکوائری کرائی جس میں آڈیو اور الزام‘ دونوں غلط ثابت ہوئے۔ میں نے ان دنوں اجمل وزیر کو بڑے قریب سے دیکھا۔ ان کی حالت ایسی تھی جیسے کسی نے ان کے نرخرے پر چھری چلا دی ہو۔ وہ تڑپتے تھے، روتے تھے لیکن ہر طرح اپنی صفائی دینے کے لیے تیار تھے۔ اگر ایک سیاستدان کا یہ طرز عمل ہو سکتا ہے تو پھر ایک سابق چیف جسٹس کا رویہ بدرجہ اولیٰ یہی ہونا چاہیے۔ اگر ان سے منسوب آڈیو جھوٹی ہے تو بہترین جواب صرف یہی ہے کہ وہ خود یہ آڈیو لے کر عدالت پہنچ جائیں اور خود کو ہر طرح کی تفتیش کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ ان کی آواز جعلی ہے یا انہی کے فقرے جوڑ کر کوئی خاص مطلب بنایا گیا ہے، اس کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیں۔ اسی طرح اور صرف اسی طرح ان کے اور عدلیہ کے دامن پر لگا داغ دھل سکتا ہے۔ اگر اس معاملے کو محض نواز شریف اور مریم نواز کی وجہ سے سیاست میں ہی رکھنا ہے تو بھی خوب۔ ہمارے بڑوں نے کون سی درخشندہ روایات قائم کی ہیں جو اب ہمارے اکابر میں سے کوئی حق و صداقت کی بات کرنے پر تُل جائے گا۔ اس لیے کسی کو اپنی عزت، اپنے ادارے کی ساکھ یا اپنے ملک کی تکریم کی کوئی پروا نہیں تو تاریخی تسلسل میں یہ معمول کا طرز عمل ہی سمجھا جائے گا۔
ثاقب نثار صاحب پر لگے الزام کی سیاسی حیثیت تو مسلمہ ہے کہ یہ الزام اگر درست ثابت ہو جائے تو مسلم لیگ (ن) کا یہ دعویٰ بھی ثابت ہو جائے گا کہ اس کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے نکالا گیا۔ اپنے اس نقطۂ نظر کی تائید میں مریم نواز نے سب سے پہلے جج ارشد ملک کی ویڈیو پریس کانفرنس میں پیش کی جس نے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی تھی۔ اس ویڈیو میں مرحوم جج صاحب اپنے بلیک میل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بعد رانا محمد شمیم کا بیان حلفی آیا، جس کی سچائی کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہے۔ اب ثاقب نثار صاحب کی آڈیو ہمارے سامنے ہے۔ ان میں سے صرف ایک ثبوت مریم نواز نے خود پریس کانفرنس میں پیش کیا اور باقی کے دو صحافتی ذرائع سے سامنے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) ان تینوں شواہد کو اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر عدالتوں میں پیش کرے گی؟ یا ان سے سیاسی فائدہ اٹھانا ہی مطلوب ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں