"HAC" (space) message & send to 7575

انکوئزیشن

انگریزی کا لفظ انکوئزیشن (Inquisition) ایک لفظ ہی نہیں، تاریخ ہے۔ کوئی ہزار برس پہلے پوپ کے حکم پر یورپ میں پادریوں نے مل کر ایک محکمہ بنایا تھا جو ریاست کے ساتھ مل کر ان لوگوں کا سراغ لگاتا جو پادریوں کے کہے ہوئے پر ایمان لانے میں تامل کرتے تھے۔ اس محکمے کے لوگوں کو جس فرد یا آبادی پر شک ہوتا کہ یہ ابھی تک پوپ کے فرمودات پر دل سے ایمان نہیں لائی، تو وہ اس علاقے میں جاتے اور لوگوں کو اپنی گمراہی کا اعتراف کرنے کی دعوت دیتے۔ جو ان کے سامنے اعتراف کر لیتے ان کے لیے تعزیرات اور کوڑوں کی سزائیں تھیں۔ جو اعتراف نہیں کرتے تھے، ان کا علاج دوسرے طریقوں سے کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ان میں سے ہر طریقے کا انجام موت تھا لیکن علاج کرنے والوں کی کوشش ہوتی تھی کہ موت نہ آنے پائے البتہ اذیت کی مثال قائم ہو جائے۔ اس کے لیے اصحاب کلیسا نے کئی طریقے ایجاد کیے تھے جیسے پاؤں کے ساتھ وزن باندھ کر ملزم کو ہوا میں لٹکا دینا تاکہ اس کے کندھوں کے جوڑ اکھڑ جائیں، منہ میں کپڑا ٹھونس کر اس پر وقفے وقفے سے پانی ڈالتے رہنا تاکہ ملزم کا سانس بند ہو، دونوں بازوؤں کو رسے سے باندھ کر مخالف سمت میں چلتے ہوئے پہیے میں دینا تاکہ بازوئوں اکھڑ جائیں، ڈنڈوں سے اس طرح مارنا کہ سبھی ہڈیاں ٹوٹ جائیں لیکن موت نہ آنے پائے، صلیب پر باندھ کر ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھونک دینا اور زندہ جلا دینا۔ یہ طریقے دراصل سزا نہیں تھے بلکہ ان کے ذریعے صرف ملزم سے اس کی گمراہی کا اعتراف کرانا مقصود ہوا کرتا تھا۔ اگر ملزم اس تفتیش سے زندہ بچ بھی جاتا تو وہ محض سانس لیتا گوشت کا ایک لوتھڑا رہ جاتا تھا، جس کی توبہ اہالیان کلیسا اگر چاہتے تو قبول کر لیتے بصورت دیگر سزا کے طور پر اسے قتل کر دیا جاتا۔ عام طور پر خود ملزم کے لواحقین ہی درخواست کرتے کہ اسے مار دیا جائے۔ یاد رہے کہ دوربین ایجاد کرنے والے اور سورج کو اس کہکشاں کا مرکز ماننے والے گلیلیو کو اسی انکوئزیشن عدالت میں بلا کر پوچھا گیا تھا، 'کیا تم کلیسا کی تعلیمات کے خلاف زمین کو کائنات کا مرکز نہیں مانتے؟‘۔ گلیلیو کو اچھی طرح علم تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے اس لیے اس نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا کہ 'میں تہہ دل سے کلیسا کی تعلیمات پر یقین رکھتا ہوں‘۔
سپین کے یہودی اور مسلمان انکوئزیشن کا اہم شکار تھے۔ وہاں جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو جن مسلمانوں نے مسیحیت قبول نہ کی انہیں اسی طرح اذیتیں دے دے کر ختم کیا گیا۔ جنہوں نے مسیحیت قبول کرلی کچھ عرصے بعد ان پر یہ الزام لگا کر انکوئزیشن میں جھونک دیا گیا کہ ان کا ایمان پختہ نہیں۔ وہ یہودی جو کئی نسل پہلے مسیحی ہو چکے تھے، ان کو اس شبہے میں دردناک موت کا حقدار سمجھا گیا کہ یہ چھپ چھپ کر اپنی مذہبی رسوم بجالاتے ہوں گے۔ وہ تو بھلا ہو نپولین بونا پارٹ کا جس نے یورپ میں انکوئزیشن پر پابندی لگائی اور دنیا انسانوں کی بنائی ہوئی مذہبی جکڑبندیوں سے آزاد ہوئی۔
آج کل بھارت میں گاؤ رکھشا کے نام پر انکوئزیشن چلتی ہے۔ وہاں حکومت نے قوانین ایسے بنا دیے ہیں، جن کے تحت گائے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والا ٹرک ڈرائیور بھی سزا پا جائے۔ ان قوانین کی زبان ایسی رکھی گئی ہے کہ محض یہ بتانا کافی ہے کہ فلاں شخص چونکہ عقیدے کے اعتبار سے گائے کی پوجا نہیں کرتا اس لیے اس کے پاس گائے کا موجود ہونا ہی سزا کیلئے کافی ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت بلکہ ریاست کی سرپرستی میں اب گائے کی حفاظت کے نام پر جتھے خود ہی 'مجرم‘کو کیفر کردار تک پہنچا دیتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار بھی بالکل وہی ہے جوتین چار سو برس پہلے تک یورپ میں رائج تھا۔ یعنی پہلے گمراہی، بے دینی یا تقدس کو پامال کرنے کا الزام لگانا اور ایک آدمی پر درجنوں کا ٹوٹ پڑنا۔ اس طریق کار میں ملزم کو فوری طور پرختم نہیں کیا جاتا بلکہ عام طور پر ڈنڈوں سے، ٹھڈوں سے مارا جاتا ہے۔ اینٹیں یا پتھر مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑی جاتی ہیں، وہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے تھوڑی دور تک بھاگنے دیا جاتا ہے اور پھر سے پکڑ کر مارا جاتا ہے۔ جب اس کی جان نکل جائے تو عام طور پر اس کی لاش کو آگ لگا دی جاتی ہے۔
یورپ کی انکوئزیشن ہو یا بھارت کی گاؤ رکھشا، یہ سب کچھ ریاست اور حکومت کی ضرورت کے تحت ہوتا رہا ہے۔ آج بھی ہندوستان میں یہ ریاست اور حکومت کی سیاسی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو دبا کے رکھا جائے تاکہ ہندو ووٹر کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا آسان ہوجائے۔ وہاں ریاستی اداروں کا طرز عمل یہ ہے کہ پہلے مارنے والوں کو پکڑا جاتا ہے، پھر گواہوں کو ڈرا کر گواہی دینے سے روکا جاتا ہے اور عدالت سے بے گناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کرا لیا جاتا ہے۔ اب تو وہاں نچلی عدالتوں میں جج بھی ایسے ہیں جو حیلے بہانے سے گاؤ رکھشکوں کو رہا کردیتے ہیں۔ گویا پورا ایک نظام جڑ پکڑ چکا ہے جو خود ہی اقلیتوں کا قلع قمع کیے چلا جا رہا ہے۔
قانونی طور پر پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی ہے۔ ہمارا ماضی قدرے داغدار سہی لیکن یہاں کوئی ایسا کوئی بڑا گٹھ جوڑ نہیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پرانے یورپ یا نئے بھارت کی طرح سڑکوں پر نشانہ بنائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو؛ تاہم اس یقین کے باوجود کچھ شکوک اس وقت سر ابھارتے ہیں جب اہلِ اقتدار کچھ معاملات در پردہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہاں بھی انتہا پسندی موجود ہے اور اس طرز فکر کے نتائج کبھی کوٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی صورت میں سامنے آئے‘ کبھی سانحہ گوجرہ کی صورت میں ظہور پذیر ہوئے۔ اسی طرح چار سدہ کا واقعہ ہے کہ ایک مخبوط الحواس کی حرکت پر شہر بھڑکنے لگا تھا۔ پریانتھا کمارا کے واقعے کے بعد یہ سوچ کر خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا کہ یہ اکا دکا ہونے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر وہ شخص جو ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا، وہ کہیں اور مارا گیا تھا‘ اس لیے پاکستان میں پریشانی کی کوئی بات نہیں‘ انکوئزیشن یورپ میں تھی اور گاؤ رکھشا ہندوستان میں ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت نے بڑی حد تک ان جتھوں پر قابو پا لیا ہے جو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں یا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور اعلیٰ عہدیداروں کی بے چینی بتا رہی ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے پریانتھا کمارا کو مارنے والے سزا یاب ہوں گے۔ اس واقعے سے اگر کچھ سیکھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بعض غلط فہمیوں سے پیدا ہونے والی بے چینی محض سیاسی نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو اگر انکوئزیشن جیسی انتہا پر جانے سے روکنا ہے تو پہلی کوشش سیاستدانوں کو کرنی ہے۔ اگر عمران خان جیسا لبرل لیڈر بھی سیاسی فوائد کے لیے اپنے کچھ تصورات کا بار بار ابلاغ کرنے لگے تو اس کا مطلب ہے ہم اس کوشش میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو کچھ عرصے بعد جتھوں کو سزا دینا تو دور کی بات، ان پر بات کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں