دو ہزار دو میں الیکشن کے نتائج آچکے تھے اور یہ واضح تھاکہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔ انہی دنوں ایک تقریب میں چودھری صاحب مدعو تھے جہاں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا، ''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم صرف ان منصوبوں پر کام کریں گے جو تین سال کے اندر اندر مکمل ہوجائیں کیونکہ پاکستان میں حکومتوں کی عمر اصل میں تین سال ہی ہوتی ہے‘۔ ان کی یہ بات پاکستان کی تاریخ کا نچوڑ تھی۔ ہمارا اجتماعی تجربہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنے چوتھے سال کسی نہ کسی ایسی مصیبت میں پھنس جاتی ہے جو آخرکار اس کی جان لے کر ٹلتی ہے اور اس کی واپسی کا فوری امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں اپنی مرضی سے اور نواز شریف نے 1993 میں مجبور ہوکر اس امید میں اسمبلی توڑی تھی کہ وہ الیکشن جیت کر واپس آئیں گے۔ بھٹو واپس آئے مگر رہ نہ پائے اور نواز شریف واپس ہی نہ آسکے۔ ان واقعات کے علاوہ بھی دیکھ لیں پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیراعظم ایسا نہیں جس نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ہو۔ ضرور یہ کوئی آسیب ہے جو ہماری تاریخ پر چھایا ہوا ہے۔ ہم نے تو کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے اس لیے خبردار ہوجائیے کہ وہ آسیب ایک بار پھرحکومت کے درپے ہے۔
عمران خان صاحب کی حکومت چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اپنی بے مثال نالائقی کی وجہ سے دومہینے بعد ہی اپنے سپورٹرز اور ووٹرز کے دل سے اترنے لگی تھی‘ لیکن پہلی بار اس کے وجود کو حقیقی خطرہ 2019 کے موسمِ خزاں میں لاحق ہوا تھا، جب اس کے سپورٹرز نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اسے خدا حافظ کہنے کا سوچنا شروع کردیا تھا۔ وہ توکورونا کی آفت آگئی جس نے ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی ورنہ معاملات کہیں اور پہنچ چکے ہوتے۔ انہی دنوں کی بات ہے‘ مجھے وزیراعظم کے ایک مشیر نے بڑی خوشی سے بتایاکہ اس مرض کی موجودگی میں کوئی جلسہ ہوسکتا ہے نہ الیکشن اس لیے 'ہم تو یہیں ہیں‘۔ اب کورونا بھی بڑی حد تک قابو میں ہے، نالائقی کا عدیم النظیر سہ سالہ ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور تاریخ کا تین سالہ چکر بھی مکمل ہوچکا ہے اس لیے اب پاکستانی سیاسیات کا ادنیٰ ترین مبصربھی صاف لفظوں میں بتا سکتا ہے کہ اس حکومت کے مخلص ترین دوست اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھاتے جا رہے ہیں۔ اس کی اپنی صفیں تتر بتر ہیں، ہمتیں اتنی پست ہیں کہ لاہور کے ضمنی الیکشن سے تحریک انصاف کا امیدوار بغیر لڑے ہی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
بند کمروں میں بلند آوازوں کے ساتھ ہونے والے مشوروں میں جو راستہ اب تک بہترین سمجھا جارہا ہے، وہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ہے۔ اس کیلئے ممکنہ طورپر حالات ایسے پیدا کیے جائیں گے کہ یکایک تحریک انصاف کے اتحادی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس سے الگ ہوجائیں گے اور تحریک انصاف کے بعض اراکین اسمبلی اس دن پہنچ ہی نہ سکیں جب ان کی ضرورت ہوگی۔ اس راستے کی ایک منزل وہ ہے جو پیپلزپارٹی تجویز کرتی ہے اور دوسری وہ جو نواز شریف کے پیش نظر ہے۔ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ عدم اعتماد کے بعد اسے عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے، اورنواز شریف خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کواس شرط پروزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اسمبلیاں توڑکر نئے انتخابات کرائیں گے۔ میری معلومات کے مطابق شہباز شریف ایک درمیانی حل نکالنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے مطابق خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والا وفاقی وزیر ہی وزیراعظم بنے لیکن الیکشن 2023 میں اپنے وقت پر ہی کرائے جائیں۔ وہ یہ تجویز لے کر مولانا فضل الرحمن کے پاس بھی گئے لیکن مولانا پہلے تو اس کے لیے تیار نہ ہوئے، پھر اس شرط پر راضی ہوئے کہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم اعلانیہ طور پر حکومت چھوڑیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر حکومت ہی گرانی ہے تو پھر نئے الیکشن بھی فوری طور پرکرائے جائیں۔ ظاہر ہے پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) یہ دونوں جمہوریت پسند پارٹیاں کہیں خلا میں تو فیصلہ کر نہیں رہیں اس لیے انہوں نے اپنی دانست میں وہ انتظام بھی کرلیا ہے جو پاکستان میں اس طرح کی حرکتوں کیلئے ضروری ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان صاحب اپنے منشور کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ ملکی معیشت کے بارے میں وہ آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں حکومت سنبھالنے والے دن کھڑے تھے۔ ان کی حکومت کو کورونا اور عالمی منڈیوں میں اجناس کی قیمتیں بڑھنے کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان دو عوامل کے باوجود بہت کچھ کیا جاسکتا تھاجو ان سے نہیں ہوا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان اپنے وعدے کے مطابق سیاسی ڈھانچے میں عوام کی شمولیت کیلئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ایک نئے بلدیاتی نظام کے تحت الیکشن ہورہا ہے اور پنجاب میں ہونے والا ہے۔ اس نظام میں جتنے بھی نقائص ہوں یہ اس نظام سے بدرجہا بہتر ہے جو 2016 میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور سندھ میں پیپلزپارٹی نے نافذ کیا تھا۔ اسی طرح معاشی ڈھانچے میں سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے جیسے کچھ بنیادی کام بھی انہیں کرنا پڑے ہیں۔ اب یہ ان کا حق ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی پچھلے ساڑھے تین سالوں میں کیا ہے اسے باقی ماندہ ڈیڑھ سال میں آخری شکل دے کر عوام کے سامنے جائیں۔ اگر انہیں اس موقع پر سازش کے انداز میں نکالا جاتا ہے تو عمران خان وہاں جا کھڑے ہوں گے جہاں آج نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کھڑے ہیں۔ تیسرے یہ کہ موجودہ اسمبلی کی ترکیب ایسی ہے کہ اس میں عمران خان کے سوا کوئی دوسرا وزارت عظمٰی کا اہل شخص موجود نہیں۔ اگر اینٹیں روڑے اکٹھے کرکے ایسی کوئی کوشش کی گئی تو وہ چند دن بھی نہیں چل پائے گی اور انجام مزید عدم استحکام ہوگا۔ اب ان حالات میں جبکہ پاکستان کے مسائل کا فوری حل کسی کے پاس بھی نہیں تو ایسا کوئی بحران پیدا کرنے سے گریز ہی بہتر ہے، بالخصوص جب الیکشن میں وقت بھی کچھ زیادہ نہیں رہا۔
اپنی سیاسی زندگی کے اس موقع پر خان صاحب کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔ جب وہ اداروں پر افراد کو اور فرض پر خواہش کو ترجیح دینے لگیں گے تو سوال بھی اٹھیں گے اور غلط فہمیاں بھی جنم لیں گی۔ ان کے بارے میں تاثر زور پکڑتا جارہا ہے کہ ان کے فیصلوں کی بنیادیں دلائل کے بجائے من کی موج پرہوتی ہیں۔ انہیں اگر کوئی اچھا لگے تو وہ جو چاہے کرتا پھرے وہ اسے ہر رعایت دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی نظروں سے گرے تو پھر اسے ان کی بارگاہ میں باریابی نصیب نہیں ہوتی۔ سیاست کے میدان میں ان کے پاس یہ آزادی ہے کہ وہ جسے چاہیں اپنا پسندیدہ رکھیں لیکن ریاست کے معاملات میں انہیں یہ سہولت میسر نہیں۔ سیاست شخصیات کے ساتھ بدل جاتی ہے، ریاست کے کام اپنے قاعدے اور طریقے کے تابع ہی رہتے ہیں۔ حکمران کو انہی قاعدوں کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ بیشک وزیراعظم ریاست کا طاقتور ترین دفتر ہوتا ہے لیکن یہ تنہا طاقتور نہیں ہوتا۔ جمہوری نظام میں طاقت ہمیشہ تقسیم رہتی ہے کیونکہ اس کا ارتکاز مسائل پیدا کرتا ہے۔ وزیراعظم کی طاقت اسی میں ہے کہ وہ کسی ایک شخص کیلئے کسی بھی ادارے کو داؤ پر نہ لگا دیں۔ اپنے آدمی کے لیے قانون، قاعدے یا روایت کی پروا نہ کرنے کا تاثر بھی دور کرنا ضروری ہے۔