عبداللہ میرا چوتھا بچہ تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تو گھر میں خوشی کا وہی سماں تھا جو عام طور پر متوسط طبقے کے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس کے بہن بھائی پھولے نہیں سما رہے تھے اور ماں بستر پر لیٹی اپنے بچوں کو خوش ہوتا دیکھ رہی تھی۔ ہماری یہ خوشی چند دن بعد تھوڑی سی پریشانی میں ڈھل گئی جب عبداللہ نے اپنے کمبل میں بے وجہ کانپنا شروع کردیا۔ ہم اسے لے کر ڈاکٹر کی طرف بھاگے اور پھر بھاگے ہی چلے گئے۔
ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ عبداللہ دراصل جس بیماری کا شکار ہے اسے سیریبرل پالسی کہا جاتا ہے۔ اس مرض کی وجہ دماغ تک آکسیجن کم پہنچنا ہے اور اس کا نتیجہ دماغ اور دیگر جسمانی اعضا کے درمیان رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہمیں یہ پتا چلا تو حیرت انگیز طور پر اس کی ماں اور مجھ پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ عبداللہ جو خوشیاں ہماری زندگی میں لایا تھا ان میں کوئی کمی نہیں آئی؛ البتہ ہم دونوں کا سونا جاگنا، باہر جانا، اٹھنا بیٹھنا سبھی کچھ غیرمحسوس انداز میں بدل گیا۔ ہمارے جو دوست اور رشتے دار کچھ عرصے بعد ہمارے ہاں آتے انہیں تو ہماری زندگیوں کا فرق نظر آتا مگر ہمیں اپنے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوتی۔
ہماری طرح ہمارے بچوں کیلئے بھی یہ تسلیم شدہ حقیقت تھی کہ عبداللہ ہمیشہ بچہ ہی رہے گا اور ہم سب کو اس کا خیال رکھنا ہے۔ لوگ ہم سے ہمدردی کرتے مگر ہمیں کبھی اس ہمدردی کی ضرورت کا احساس نہیں ہوا تھا۔ بچوں کے دوست جب ان سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی باتیں کرتے تو ہمارے بچے عبداللہ کا ذکر بالکل ایسے ہی کرتے جیسے شرارتی بچوں کا کیا جاتا ہے۔ ہم سب نے اس کے ہر انداز کوایک نام دے رکھا تھا۔ اس کا ایک طرح سے دیکھنا شرارت تھی تو دوسری طرح دیکھنا غصے کا اظہار۔ وہ ہونٹوں کو ایک شکل دے کا کھانا مانگتا تو دوسری شکل بنا کر ہمارے دل میں اتر جاتا۔ اس کی ماں اسے بالکل ایسے ہی ڈانٹتی جیسے دوسرے بچوں کو اور اس کی بہن اسے ایسے ہی تنگ کرتی جیسے بچپن میں بڑی بہنیں چھوٹے بھائیوں کو ستاتی ہیں۔ میں گھر پہنچ کر اسے گود میں لیتا تو وہ ماں کو داد طلب نظروں سے دیکھنا شروع کردیتا اور ماں کی گود میں جاکر مجھے فاتحانہ نگاہوں سے دیکھنے لگتا۔
اس کی آمد کے ساتھ ہی ہمارا طرز زندگی بدلنے لگا مثلاً ایک دن وہ بیمار ہوا تو ڈاکٹر نے کہا: اسے گرمی زیادہ لگتی ہے، ہم نے پہلی بار اس کے لیے گھر کے ایک کمرے میں ایئرکنڈیشنر لگوایا، ورنہ اس سے پہلے ہم سبھی گرمیوں میں صرف پنکھے سے ہی گزارہ کیا کرتے تھے۔ اس نے بستر پر لوٹنا شروع کیا تو گھر میں قالین بچھائے گئے کہ اگر یہ بستر سے گر بھی جائے تو اسے چوٹ نہ لگے۔ کچھ بڑا ہوا تو گھر میں اس کیلئے طرح طرح کی کرسیاں بھری رہتیں۔ کبھی میں اس کیلئے کوئی کرسی خرید لیتا تو کبھی اس کی ماں۔ دو بار تو ایسا ہوا کہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے اس کیلئے کرسیاں بنائیں۔ ہر کرسی چند دن یا زیادہ سے زیادہ چند ہفتے استعمال ہوتی اور پھر کسی کو دے دی جاتی یا سٹور میں پھینک دی جاتی۔
اس کو ٹی وی پر چلتی ہوئی کوئی موسیقی پسند آ جاتی تو ہم سب وہی گنگنانے لگتے۔ کسی حرکت پر وہ مسکراتا تو ہم اس حرکت کی مشق کرتے رہتے کہ عبداللہ کو کرکے دکھائیں گے۔ اس نے ایک لفظ بولا 'انگا‘۔ ہم نے اس لفظ کے ہزاروں معنی بنا لیے۔ ایک بار کہا، 'اغا‘ پھر یہ لفظ اپنے اندر لاکھوں لفظوں کی معنویت لیے ہماری زبانوں پر چڑھ گیا۔ اس نے ایک بار سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑے تو سارا گھر ہماری سیٹیوں سے گونجنے لگا۔ بطور خاندان اگر ہمیں کسی شادی بیاہ پر جانا ہوتا تو عبداللہ ہمارے ساتھ جاتا اور ہم سب گھر والے شادی میں بھی اس کے ساتھ ساتھ رہتے۔ ہمارے ملنے والے ہمارے پاس آکر بیٹھ جاتے اور وہ خود ہی کسی بات پر مسکراتا اور کسی پر چھوٹا سا قہقہہ لگا دیتا۔ ہم میں سے کوئی بھی اسے ہنستا دیکھتا تو بات ادھوری چھوڑ کر اسے چومنے لگتا۔ لوگ حیرت سے اس کا اور ہمارا تعلق دیکھتے رہتے۔
ایک بار اوکاڑہ کے کسی گاؤں سے ایک خاتون چند دن کے لیے گھر کے کام کاج میں میری بیگم کی مدد کے لیے آگئی۔ عبداللہ کے ساتھ اس خاتون کا ایسا تعلق بناکہ ہم خود بھی حیران رہ گئے۔ وہ اسے دیکھتے ہی خوشی سے نہال ہوجاتا اور کی آواز سن کر بیتاب ہوجاتا۔ بدقسمتی سے اس خاتون کو اپنے خاندانی معاملات کی وجہ سے اپنے گاؤں جانا پڑا۔ ہم نے اس کے خاندان کی منت سماجت کی کہ اسے ہمارے ہاں ہی رہنے دیا جائے مگر وہ نہ مانے۔ ایئرکنڈیشنر سے لے کر گھر میں ملازم رکھنے تک، فرش پر قالین بچھانے سے لے کر گاڑی کے انتخاب تک ہر چیز میں عبداللہ کی ضرورت و سہولت کو فوقیت مل جاتی اور عملی طور پر ہم سب کی ضرورتیں اس کے لیے کیے گئے انتظامات سے ہی ضمنی طور پر پوری ہو جاتیں۔ ہماری دنیا میں اپنی آمد کے ساتھ ہی وہ اس کا محور بن گیا اور ہم اس کے گرد گھومنے لگے۔ وہ روح بن گیا، ہم جسم، وہ معنی ہوگیا اور ہم لفظ۔ کسی کا بھی دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں تھا۔
ہم چند دوست ہر سال گرمیوں میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ نتھیا گلی جاتے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے کورونا کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ چند دن پہلے پروگرام بنا کہ اس بار برفباری میں بچوں کو لے جایا جائے۔ جب گھروں میں یہ خبر پہنچی تو ظاہر ہے سبھی پرجوش ہوگئے اور کئی دن کی منصوبہ بندی کے بعد ہم ایک رات اسلام آباد گزارنے کے بعد نتھیا گلی پہنچ گئے۔ راستے میں برف دیکھتے ہی بچوں پر تو گویا مستی چھا گئی۔ ایک دوسرے کو برف کے گولے بنا بنا کر مارتے رہے اور عبداللہ گاڑی میں ہی بیٹھا سب کچھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔
نتھیا گلی میں ہم نے صرف ایک رات قیام کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ رات تقریباً دو بجے تک سب جاگتے رہے اور عبداللہ اپنے بستر میں آرام سے سوتا رہا۔ اس کی ماں نے مجھے اسی شام بتایا کہ اس نے کھانا پینا کم کردیا ہے‘ مگر یہ کوئی تشویش کی بات نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھار ایک دن کچھ بھی نہیں کھاتا تھا۔ ہم اطمینان سے اپنے بستروں میں لیٹ گئے۔ صبح آٹھ بجے ہوں گے کہ اس کی ماں نے مجھے اٹھایا کہ عبداللہ کی سانس درست نہیں چل رہی۔ میں نے اپنے دوسرے بیٹے کو کہا کہ وہ اسے گاڑی تک لے جائے۔ وہ ابھی چند قدم ہی چلا ہوگا کہ اس نے چیخ کر کہا 'اسے دیکھیں کیا ہوگیا ہے‘۔ میں نے اسے حوصلہ دیا مگر عبداللہ کی شکل دیکھ کر ہی سمجھ گیا کہ کیا ہوچکا ہے۔ ایک موہوم سی امید میں اس کی ماں اور میں ریسکیو والوں کی مدد سے نتھیاگلی کے چھوٹے سے سول ہسپتال میں پہنچے۔ وہاں موجود ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ ہم سمجھ گئے کہ عبداللہ اب نہیں رہا۔ اس کی ماں میرے سامنے ہی بکھر گئی۔ اس کے بھائی چیختے ہوئے برف میں گر پڑے، اس کی بہن روتی جاتی اور کانپتی جاتی۔ ایک باپ اپنے ساتھ ایک مٹے ہوئے نقش، ایک بکھری ہوئی ماں، چیختے ہوئے بھائی اور روتی کانپتی بہن کو لیے لاہور کی طرف چل پڑا۔