میری درخواست ہے ، ذرا سوچ کر بتائیے کہ اگرپچھلے ایک مہینے سے مری کا انتظام آپ کے‘ میرے جیسے کسی عام آدمی کے سپرد ہوتا توکیا ہوتا؟ ظاہر ہے ، وہ یہ ذمہ داری لینے کے بعد فوری طور پر دیکھتا کہ اس چھوٹے سے شہرمیں سیاحوں کی آمدورفت غیر معمولی ہوتی ہے اور برفباری کے موسم میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لوگ بال بچوں سمیت آسمان سے گرتی برف کا نظارہ کرنے کے لیے مری چلے آتے ہیں۔ اسے یہ بھی پتا چل جاتا کہ نتھیا گلی اور ایوبیہ جانے کے لیے بھی مری کا ہی راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا پہلا کام یہ ہوتا کہ یہ راستہ ہرصورت کھلا رہے تاکہ رش کی صورت میں لوگ خود ہی مری سے واپس ہو جائیں یا آگے نکل جائیں۔ اسے یہ معلوم ہوتا کہ مری کی حدود میں کسی بھی سڑک پرگاڑی پھنس جائے تو اس کا انتظام بھی فوری طور پر کیا جانا چاہیے ۔ اس کے لیے وہ چند جگہوں پریہ بندوبست کرلیتا کہ پھنسی ہوئی گاڑی کو فوری طورنکالا جاسکے ۔ وہ نتھیا گلی کے منتظم سے بھی رابطہ کرتا اور اسے بتاتا کہ بڑی تعداد میں سیاح مری پہنچ چکے ہیں اور نتھیا گلی بھی جا سکتے ہیں اس لیے سڑک کی صفائی کا بندوبست کیا جائے۔ اسے مری کی طرف آنے والی گاڑیوں کے اعدادوشمار ایکسپریس وے پر قائم ٹول پلازہ سے بہ آسانی مل جاتے ۔ جب وہ دیکھتا کہ آنے والی گاڑیوں کی تعداد غیرمعمولی ہے تو انہیں مختلف انتظامی اقدامات کے لیے مری میں داخلے سے پہلے ہی روکتا۔ حتمی فیصلے کے لیے وہ اپنے باس یعنی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو صورتحال سے آگاہ کرکے مزید سیاحوں کی آمد مکمل طور پر روک سکتا تھا۔ فرض کرلیجیے کہ ایک عام آدمی ہی راولپنڈی کا ڈپٹی کمشنر ہے اور تحصیل مری اس کے ضلع کا حصہ ہے ۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ اس نے بھی مری کی انتظامیہ کووقت سے پہلے متحرک کرنا تھا، وہاں داخل ہونے والی گاڑیوں اور برفباری کے بارے میں رپورٹ لینی تھی۔ تین چار دن پہلے محکمہ موسمیات نے برفباری کی رپورٹ دے دی تھی اس لیے اس نے سڑکوں سے برف صاف کرنے کے لیے اضافی مشینری کا بندوبست کرلینا تھا۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کے لیے کسی کو افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں تھی بس ہرشخص اپنی سوجھ بوجھ سے یہ سب کچھ کرلیتا۔ اگروہ یہ کام نہ کرسکتا تو ایسے شخص پرنالائقی کا حکم لگا کراسے آئندہ کسی بھی ذمہ داری کے لیے نااہل سمجھ لیتے ۔ یہ توایک عام آدمی کی بات تھی اب ذرا بتائیے کہ یہی انتظامات اپنے تئیں لائق فائق اورتجربہ کار لوگوں کے سپرد کیے جائیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ برفباری سے سڑکیں بند ہوجائیں، نقل و حرکت ممکن نہ رہے ، مزید گاڑیاں روکی نہ جائیں یا بہت تاخیر سے روکی جائیں، برف ہٹانے والی مشینیں موجود ہوں مگر ان کو چلانے والے گھروں میں بیٹھے ہوں، رات بھرصفر سے بھی کم درجہ حرارت میں سینکڑوں لوگ بغیر کسی مدد کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گاڑیوں میں بیٹھے رہے ہوں، صبح ہو تو ان میں سے بائیس افراد سردی کے بھینٹ چڑھ چکے ہوں تو پھر ان تجربہ کاروں کو آپ کیا کہیں گے ؟ ظاہر ہے انہیں نکما، نااہل، سست، بدنیت، فرض ناشناس جو کچھ بھی کہیں کم ہے ۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا ایسے لوگوں کو اپنی نوکریوں پر قائم رہنا چاہیے ؟ آپ کا یقینی جواب ہوگا نہیں، لیکن یقین رکھیے ایسا نہیں ہوگا۔ یہ نالائق نہ صرف اپنی نوکریوں پر قائم رہیں گے بلکہ ان کے اوپر بیٹھے نالائق انہیں ترقی بھی دیں گے اور ترقی پاکریہی لوگ اپنے جیسے مزید نالائقوں کو ترقی دیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی ریاست کے سول انتظامی ڈھانچے میں کارکردگی، دوراندیشی یا فرض شناسی بے معنی لفظوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں باہمی مفادات، آپس کے تعلقات اور ایک دوسرے کی پشت پناہی اصل میرٹ ہیں جن کی بنیاد پر نالائق ترین لوگ ترقی پاتے چلے جاتے ہیں۔ ڈھنگ کے لوگ وقت پر ہی ملازمت اور پاکستان چھوڑ کر اپنی دنیا کہیں اور بسالیتے ہیں۔
اگر ہم سمجھنے والے ہوں تو مری کا اندوہناک واقعہ یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں بد انتظامی بذات خود موت کی وجہ بن چکی ہے ۔ تصور کیجیے کہ مرنے والے کسی جرم کا شکار نہیں ہوئے ۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ مری میں قحط پڑ گیا تھا۔ وہ اپنے شہروں سے اپنی گاڑیوں میں مری تک پہنچے تھے۔ ان کے پاس پیسے کم نہیں تھے کہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں خرید نہ سکتے ۔ ان کے ساتھ صرف ہوا یہ کہ جس ریاست کو یہ دن رات جاگتا ہوا سمجھ رہے تھے وہ اپنے دفتروں میں سو رہی تھی۔ اسی دوران چند گھنٹوں کے لیے ریاست کا کنٹرول ختم ہوگیا اور ان کی ضرورت کی ہر چیز اصل قیمت سے دوسو گنا اوپر چلی گئی۔ یہ وہ صورت ہے جس میں بڑے سے بڑا دولتمند مسافر بھی فوری طور پر پیسوں کا بندوبست نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ دوسرا عذاب یہ نازل ہوا کہ انتظامیہ راستے کھلے رکھنے کا اپنا بنیادی کام بھی نہیں کرسکی یعنی وہ لوگ جو اپنے بچوں کے ساتھ خوشی منانے گئے تھے ، اس قابل بھی نہ رہے کہ اپنے گھر لوٹ سکیں۔ راستے بند ہونے سے ان کی حالت تاوان کے لیے اغوا ہونے والوں جیسی ہوگئی اورجس کا بس چلا اس نے ان سے تاوان وصول کیا۔ کسی نے بستر کا کرایہ بیس ہزار مانگ لیا توکسی نے ابلا ہوا انڈاآٹھ سو روپے میں بیچ کر ان مجبوروں سے بھتہ وصول کیا۔
کئی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں مری میں جو کچھ ہوا اس کا ایک سماجی پہلو بھی ہے کہ وہاں کے کچھ رہنے والوں نے مجبوری فائدہ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کچھ یہ خبر لائے ہیں کہ گاڑیوں میں ہیٹر چلتا رہنے سے کاربن مونو آکسائیڈ جیسی جان لیوا گیس نے تباہی پھیلائی۔ اس واقعے کے یہ دونوں پہلو حقیقی ہونے کے باوجود اصل واقعہ سے متعلق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ شوق سے گاڑیوں میں نہیں بیٹھے تھے بلکہ اس لیے بیٹھے تھے کہ انتظامیہ کی نااہلی نے حالات ایسے پیدا کردیے تھے ۔ اگر راستے کھلے ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ دوسرے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب نالائقی کسی معاشرے میں پنجے گاڑ چکتی ہے تو پھردلائل اسی طرح کے ہوتے ہیں کہ فلاں کو فلاں جگہ جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اسے یہ کرنا چاہیے تھا، یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سیالکوٹ موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی تو پولیس والوں نے کہا: وہ رات کے وقت وہاں کیوں گئی تھی، اگر وہ نہ جاتی تو یہ حادثہ ہی نہ ہوتا۔ سانحہ ساہیوال میں ماں باپ کو بچوں کے سامنے مار دیا گیا اور پوچھا گیا کہ وہ ایک مشکوک آدمی کی گاڑی میں کیوں تھے ۔
مری واقعے پر ایک ردعمل حکومت بھی دے رہی ہے ۔ یعنی مرنے والوں کے لواحقین کی تالیف قلب کے لیے انہیں کچھ پیسے ادا کیے جائیں گے اور مری کو ضلع بنا دیا جائے گا۔ جہاں تک پیسوں کا تعلق ہے تو حکومت کو ادا کرنے چاہئیں کیونکہ یہ اموات خالصتاً حکومتی نااہلی کے باعث ہوئیں لیکن بہتر ہو کہ قومی خزانے کے بجائے اس واقعے کے ذمہ داروں کی تنخواہوں سے کاٹ کر ادا ہوں تاکہ آئندہ سرکاری ملازم کم ازکم اپنے فرائض تو ادا کریں۔ جہاں تک مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ ہے تو اس سے کیا ہوجائے گا۔ آخر ایسا کون سا کام ہے جس کے لیے ضلع بناکر وسائل برباد کرنا ضروری ہے ۔ اگر ہماری سول انتظامیہ کسی قابل ہوتی تواس کے لیے تحصیل کا ہونا بھی کافی ہے ، نالائقوں کو ضلع کیا صوبہ یا پورا ملک بھی دے دیں وہ اسے بدانتظامی کا جہنم ہی بنا دیں گے ۔