"HAC" (space) message & send to 7575

کیا عمران خان واقعی خطرناک ہیں؟

یہ انیس سو ستانوے کی بات ہے کہ عمران خان سرگودھا آئے۔ اس وقت تک تحریک انصاف اسی سال ہونے والا الیکشن نہایت بھونڈے طریقے سے لڑ کر ہار بھی چکی تھی۔ عمران خان اس پارٹی کے سربراہ تھے لیکن ان کا اصل تعارف کرکٹ ہی تھا، جو الیکشن میں عبرتناک شکست کے باوجود اپنی جگہ اہم تھا۔ انہوں نے اپنے کسی جاننے والے کو فرمائش کی کہ شہر کے سرگرم نوجوانوں سے ان کی ملاقات کرائی جائے۔ ان کے میزبان نے اپنے چند واقف کاروں سے رابطہ کیا اور ہوتے ہوتے مجھے بھی اس ملاقات کا دعوت نامہ مل گیا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ان سے ملنے کے لیے پہنچ گیا۔ جس گھر میں عمران خان ٹھہرے ہوئے تھے، اس کا ڈرائنگ روم کافی بڑا تھا لیکن ان سے ملنے کے شائق نوجوانوں کی تعداد وہاں پڑی کرسیوں سے بڑھ گئی‘ اس لیے کچھ لوگ فرش پر ہی بیٹھ گئے۔ جب میں اس کمرے میں پہنچا تو کرسیاں بھر چکی تھیں، مجھے کسی طرح اس صوفے کے بازو پر بیٹھنے کی جگہ مل گئی جس پر عمران خان بیٹھے تھے۔ کچھ نوجوان تو محض انہیں دیکھ کر ہی خوش تھے اور ہم جیسے چند‘ جو سیاسی خیالات بھی رکھتے تھے‘ ان سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس وقت عمران خان جو کچھ کہہ رہے تھے وہ کم و بیش وہی تھا جوآج کہتے ہیں، یعنی پاکستان کو بدلنا ہے، یہاں بے پناہ وسائل موجود ہیں، ہم سب مل کر اسے عظیم بنا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میرے دوست اور میں ان سے بار بار یہی پوچھتے کہ آخر آگے بڑھنے کا نقشہ کیا ہوگا۔ ہر بار ان کا ایک ہی جواب ہوتا 'اگر نوجوان میرے ساتھ مل جائیں تو یہ سب ہوجائے گا‘۔ اس ملاقات کے بعد ہم دوست باہر نکلے تو کچھ نے عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا اور میں ان لوگوں میں سے تھا جوان کی سیاسی بلوغت پر سوال اٹھا کر ایک طرف ہوگئے۔
کچھ عرصے بعد صحافت میرا پیشہ بن گئی اور اب عمران خان کو میں نے بطور صحافی دیکھنا شروع کردیا۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو ان کی شکل ٹی وی پر بھی دیکھنے کو ملی۔ میں اس وقت ایک رپورٹر تھا اور میرا زیادہ وقت سکرین کے پیچھے گزرتا تھا۔ اس لیے یہ میرے براہ راست علم میں ہے کہ ان کی میڈیا میں اہمیت بس اتنی تھی کہ جب بھی کسی پروگرام اینکر کو اپنے پروگرام کیلئے کوئی مہمان نہیں ملتا تھا تو وہ خان صاحب کو بلا لیتا۔ میں جب بھی انہیں ٹی وی پر دیکھتا توان کی زبان پر وہی تقریر ہوتی جومیں ان سے پہلی ملاقات میں سن چکا تھا۔ دوہزار پانچ میں تو ایسا لگتا تھا کہ عمران خان پاکستانی سیاست میں ایئرمارشل اصغرخان کا دوسرا روپ ہیں اور آخرکار گوشہ نشین ہوجائیں گے۔ سنجیدہ مبصرین کے لیے ان کی باتیں وزن سے خالی ہوتی جارہی تھیں۔ میں نے کئی بار لوگوں کو ان کا مذاق اڑاتے سنا اور کسی حد ٹھیک ہی اڑایا جاتا تھاکہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں ایک سیٹ تھی لیکن وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اسے عمل میں لانے کیلئے جو کچھ چاہیے تھا وہ ان کے پاس نہیں تھا۔ بس ایک ہارون الرشید تھے اس زمانے میں جو اپنے کالموں میں ان کا ذکر مبالغہ آمیز تعریف کے لیے ساتھ کیا کرتے تھے۔ انہیں کچھ اہمیت چیف جسٹس (سابق) افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک میں ملی۔ وہ نوازشریف کے ساتھ ایک اتحاد کا حصہ بھی بنے مگر دو ہزار آٹھ کے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے انہوں نے خود کو ملی اہمیت سے بھی ہاتھ دھو لیے۔ یہ ان کی سیاسی زندگی میں زوال کی حد تھی۔ میں اسے خان صاحب کی سب سے بڑی سیاسی غلطی سمجھتا تھا۔ وہ سیاست کی آگ میں جل کر کندن نہیں بنے تھے بلکہ راکھ ہوگئے تھے۔
یونانی اساطیرمیں فینکس نامی پرندے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جل کر راکھ ہوجاتا ہے اور پھر اسی راکھ سے نیا جنم لیتا ہے۔ خان صاحب بھی سیاست کی راکھ سے دوبارہ اٹھے ہیں۔ دوہزار دس کے موسم خزاں میں ان سے لاہور میں چند صحافیوں کے ہمراہ ان کے گھر پر ہی ایک کھانے پر ملاقات ہوئی۔ ان کے چہرے پرگردِ ملال کے بجائے غیرمعمولی اعتماد تھا۔ وہ مستقبل کے بارے میں اتنے قطعی انداز میں بات کررہے تھے جیسے ان کے سامنے آنے والے زمانے کا پورا نقشہ ہو۔ وہ بڑے یقین سے کہہ رہے تھے کہ میں خیبرپختونخوا سے اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن کا صفایا کرچکا ہوں، اب پنجاب میں کام کروں گا۔ کھانے کے بعد جب ہم لوگ ان کے گھر سے نکل رہے تھے تو ہم سب یکسو تھے کہ عمران خان سیاست سے فارغ ہوچکے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے لگا‘ عمران خان وہیں کھڑے ہیں جہاں انیس سو ستانوے میں تھے اور میں اس بچگانہ مقام سے آگے نکل آیا ہوں۔ میرے لیے ان کی کہانی ختم ہوچکی تھی اور وہ کہہ رہے تھے کہانی ابھی شروع ہوئی ہے۔
اس وقت میں غلط سوچ رہا تھا۔ اس کے بعد اکتوبر دوہزار گیارہ میں سب کچھ بدل گیا۔ اس دن کے بعد پاکستان میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب عمران خان کا نام اخبار، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر نہ لیا گیا ہو۔ سیاست میں کوئی فیصلہ اب ان کو نظر انداز کرکے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا اور عمران خان نے جو کیا، اس پر ہزاروں لاکھوں اعتراض ہوسکتے ہیں مگر اکتوبر دوہزار گیارہ تک یہ صرف اور صرف ایک شخص کی جدوجہد تھی۔ وہ مذاق کا نشانہ بنا، اس نے لوگوں کی باتیں سنیں، اس نے جو منصوبہ بنایا وہ الٹا پڑا۔ ناکامی، ناکامی اور مسلسل ناکامی اسی نے سہی تھی۔ اب کامیابی بھی اسی کی تھی۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو اتنے ہی اچھے یا برے حکمران ثابت ہوئے جتنے ان سے پہلے والے تھے۔ ان کے چاہنے والے انہیں دوسروں سے زیادہ پرخلوص اور دیانتدار قرار دیتے ہیں مگر یہ حیثیت ہر سیاستدان کو اپنے حامیوں کی نظر میں حاصل ہوتی ہے۔ خان صاحب کی اصل طاقت مشکل وقت میں بھی اپنے ہدف پر نظر رکھنا ہے۔ انہیں سخت ترین حالات میں بھی اپنے موقف سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم کے طور پر کورونا کے دنوں میں لاک ڈاؤن نہ کرنا تنہا ان کا فیصلہ تھا جس پر وہ ہر دباؤ کے باوجود ڈٹے رہے ۔ ان کے بیشتر ساتھی انہیں بلدیاتی انتخابات سے روکتے رہے، انہوں نے اپنی شکست گوارا کرلی مگر انتخابات کا آغاز کرا کے دم لیا۔ سٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کا فیصلہ آج تک کوئی وزیراعظم نہیں کرپایا لیکن انہوں نے بدنامی مول لے کر یہ بھی کردیا۔ ظاہر ہے ان سب اقدامات سے ان کی مقبولیت کو نقصان پہنچا ہے، پھر بھی یہ کسی کو نہیں بھولنا چاہیے یہ وہی عمران خان ہیں جن کی زندگی شکست سے بھری پڑی ہے اور جنہوں نے شکست میں سے ہی فتح کشیدکی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے آدمی کو کسی چیز کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کے لیے جدوجہد ہی کھیل کا اصل نام ہے۔ اس لیے جو بھی سیاسی اور غیرسیاسی صاحبان عمران خان کو اگست دو ہزار تئیس سے پہلے اقتدار سے نکالنے کا سوچ رہے ہیں وہ یہ بھی سمجھ لیں کہ جو آدمی بے سروسامانی سے وزارت عظمیٰ تک پہنچ گیا ہے، وہ جب نکالا جائے گا تو کیا ہوگا؟ نکالنے والوں سے تو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نہیں سنبھالے گئے تھے، عمران خان کی تو کہانی ہی اور طرح کی ہے۔ یہ تو حکومت میں آنے سے پہلے کسی سے نہیں سنبھالے گئے، زبردستی نکالے جانے کے بعد انہیں کون سنبھالے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں