عمران خان صاحب کی حکومت اپنی بے مثال نالائقی کے باوجود تین سال اور پانچ ماہ پورے کر چکی ہے۔ اس حکومت کے پشتیبانوں نے پہلی بار اکتوبر دو ہزار انیس میں تقریباً فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اسے گھر چلے جانا چاہیے۔ وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو بدلنا تو دور کی بات ان کی ظاہر و باہر نااہلی کے بارے میں سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ دوسری طرف ملک کے مالی معاملات بگڑتے چلے جا رہے تھے اور تیسری جانب اپوزیشن اکٹھی ہو رہی تھی۔ ان حالات میں جب اتحادی آخری سگنل کا انتظار کر رہے تھے‘ کسی نے آئندہ الیکشن مہم کے ممکنہ نعروں اور تقریروں کی طرف توجہ دلائی تو ہوا کے گھوڑوں پر سوار اس لشکر کو کچھ خیال آیا اور تبدیلی کے بعد ایک اور تبدیلی کے مورچوں کی کھدائی بند ہوئی۔ پھر تبدیلی کے اوپر تبدیلی لانے کے بجائے تبدیلی کے اندر تبدیلی کا فیصلہ ہوا اور یہ سوچ لیا گیا کہ نشان منزل دینے کے ساتھ ساتھ اب اس حکومت کی مسلسل رہبری و نگرانی بھی کی جائے گی۔ اسی جھونک میں پنجاب کو بڑے پیمانے پر ایسے افسران مہیا کیے گئے جو وزیر اعلیٰ کو بھی انکار کر سکتے تھے۔ یہ نظام ابھی چلا ہی تھا کہ کورونا کی موذی وبا آ گئی، یوں تبدیلی کے اندر تبدیلی کا موضوع بھی کہیں پیچھے رہ گیا۔ اس وبا سے نمٹنے کیلئے ہر ادارہ حرکت میں آ گیا اور وبا سے پیدا ہونے والے مسائل کیلئے اسد عمر کی قیادت میں جو ڈھانچہ بنا، اس کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں بھی رفع ہوئیں۔ کچھ پشتیبانوں کو نالائقوں کے ساتھ جینا آ گیا اور کچھ حالات بھی بدل گئے۔ ڈیڑھ سال مزید خیر خیریت کے ساتھ گزر گیا۔
پچھلے سال اکتوبر میں ہونے والے کچھ واقعات کے تسلسل میں خان صاحب کے دوست اب غالباً ان کے مخالفین سے بھی اپنے پرانے رشتوں میں پڑی الجھنیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاست کی بے رحم دنیا میں تجدید تعلقات کی ان خواہشات کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت ایک بار پھر نشانے پر ہے۔ عدم اعتماد کی باتیں، اسمبلی توڑنے کی تجویز پر غوروخوض، تحریک انصاف کے اندر سے نئی قیادت پیدا ہونے کے امکانات وغیرہ محض افواہیں نہیں بلکہ وہ شرائط ہیں جو میرے خیال میں لندن اور پاکستان میں بیٹھے کچھ لوگ دوبارہ بہتر تعلقات کیلئے ایک دوسرے کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔ حالات یکدم پلٹا کھانے والے نظر آنا شروع ہو جائیں تو سوچیے کہ آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟ غالباً یہی کیفیت خان صاحب پر بھی گزر رہی ہے، اسی لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ 'اقتدار سے نکل کر میں آپ کیلئے اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا‘۔ ظاہر ہے یہ پیغام ہر اس شخص کیلئے ہے جو جمہوریت کی آڑ میں غیر جمہوری اور غیر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سازش اگر آشکار ہو جائے تو پھر دم توڑ جاتی ہے مگر پاکستان میں سازش اگر کھل جائے تو قومی مفاد کی شکل اختیار کر لیتی ہے‘ یعنی اب یہ کہا جائے گا کہ 'خان صاحب کی وجہ سے ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس لیے انہیں جانا چاہیے‘ اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں!
پاکستان میں عمران خان پہلے وزیر اعظم نہیں جنہیں اپنے خلاف ہونے والی محلاتی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری تاریخ ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد سے لے کر آج تک یہ سلسلہ رکا نہیں۔ ہاں اتنی بلوغت پچھلے کچھ عرصے میں آئی ہے کہ پارلیمنٹ کو مدت پوری کرنے دی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یکے بعد دیگرے تین قومی اسمبلیاں اپنی اپنی مدت پوری کر چکی ہیں اور چوتھی اپنی مدت کا دو تہائی گزار چکی ہے؛ البتہ وزیر اعظم کے عہدے کی خطا ابھی معاف نہیں ہوئی۔ یہ درست ہے کہ ہمارے وزرائے اعظم کی اپنی وابستگی جمہوریت کے ساتھ واجبی سی ہوتی ہے‘ پھر بھی دستورکے مطابق اس سب سے بڑے انتظامی عہدے کا کچھ تقدس ہمیں بھی سیکھ لینا چاہیے۔ برسوں کی جدوجہد اور لاکھوں لوگوں کے ووٹ لے کر آنے والا ہر شخص ہی کبھی سولی پر لٹکا دیا جائے، کبھی نااہلی کی ٹکٹکی پر کس دیا جائے اور کبھی بلا وجہ ہی نکال دیا جائے تو دنیا پاکستان کے سیاسی نظام کو کبھی اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم پر ہونے والے وار اگر اپنی اصل میں جمہوری اور سیاسی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن سیاسی میدان سے باہر جو کچھ بھی ہو اسے سازش کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہم جیسے محتاط صحافیوں نے اس طرح کی سازشوں کیلئے 'ڈیل‘ کا لفظ تراش کر ایک غلطی یہ کی کہ سازش کی گندگی اس لفظ کے قالین کے نیچے دھکیل دی ہے اور سازش بھی سیاست کا حصہ ہی سمجھی جاتی ہے۔
اس مملکت خداداد میں حکومتیں گرانے کی آزمودہ وجہ، جو حکومت گرانے کے بعد تراشی جاتی ہے‘ کرپشن ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ تاثر کی حد تک یہ کچھ غلط بھی نہیں ہوتی۔ عام طور پروہ کرپشن جو حکومت گرنے کی وجہ ہوتی ہے، جب مقدمے کی صورت میں عدالت کے سامنے آتی ہے تو نتائج سیاستدانوں کے حق میں ہی آتے ہیں۔ اب یہ کیسے ہوتا ہے، اس پر بے شمار سازشی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں لیکن سادہ ترین وجہ یعنی کمزور شواہد پر کوئی غور نہیں کرتا۔ خیر، اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ پاکستان میں کرپشن کے اضافے کی خبر دے رہی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری تاریخ کی روشنی میں تو حکومت کے خاتمے کی قابل اعتماد وجہ بھی میسر آ گئی ہے۔ بہت خوب، لیکن انٹرنیٹ کی برکات کی وجہ سے اب اس طرح کی رپورٹیں پوری تفصیلات کے ساتھ عام آدمی تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس رپورٹ میں کرپشن کا جو بنیادی سبب قرار دیا گیا ہے، وہ دراصل ریاست کا کاروبار میں ملوث ہونا ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہم ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں تو کر سکتے ہیں، کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ ہمارے کچھ دانشور چاہے ان کاموں کو کاروبار قرار دیں، ملکی معاشی ترقی میں بھی اپنے کردار کی اہمیت بتائیں اور عین کاروباری اصولوں کے مطابق ہی منافع کمائیں لیکن مہذب دنیا اسے کرپشن ہی قرار دے گی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ دراصل ہمیں یہی بتا رہی ہے۔ اس لیے، اس رپورٹ کی بنیاد پر کسی نے کچھ کرنا ہے تو اس کیلئے خاموشی اختیار کرنے کے مشورے سے زیادہ مفید کچھ نہیں ہو سکتا۔
حکومت گرانے کے اس کھیل کے سارے کھلاڑیوں کو یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ طاقت اب اپنی بھدی شکل بدل کر تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ پاکستان میں بہت سوں کو پتا ہے کہ لندن سے آنے والوں میں کون مسافر ہے اور کون قاصد۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری جب اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے اور عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے۔ جملۂ معترضہ کے طور پراس بیان کی تفسیر یہ ہے کہ اپنے منصوبے کے مطابق پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کے اندر تبدیلی کے بعد ایک ڈیڑھ سال کیلئے وزارت عظمیٰ کی خواہش مند ہے۔ اس لیے استعفے نہ دینے کی حکمت عملی میں چھپا ہوا تقاضا یہ ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے تین مہینے بعد الیکشن کا مطالبہ نہ کریں۔ اس کھیل کے اہم ترین فریق نوازشریف کو بھی یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انہوں نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے جو اندازِ سیاست اختیار کیا تھا اس میں انتہا پسندی جھلکتی تھی، ان سے توقع یہ تھی کہ وہ اعتدال پیدا کریں گے۔ اعتدال کا مطلب آلۂ کار بننا نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ آلۂ کار کو کبھی عزت نہیں ملتی۔