کراچی کے رہنے والوں پر سرکاری نوکری حرام ہوچکی ہے‘ پوش علاقوں کو چھوڑ کر شہرکی گلیاں گٹر بن چکی ہیں‘ پینے کا پانی یہاں نہیں ملتا‘ سرکاری تعلیمی ادارے محض اس لیے قائم ہیں کہ حکمران جماعت کے کارکنوں کو ان میں نوکریاں دی جاسکیں۔ تین کروڑ کی آبادی کے لیے کوئی مناسب ہسپتال تک نہیں‘ ٹرانسپورٹ تباہ ہوچکی ہے‘ امن وامان کا عالم یہ ہے کہ روزانہ شہری اپنے گھروں کے سامنے لٹ جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے لوگ جس اذیت میں رہ رہے ہیں‘ اس کا تصور بھی لاہور‘ اسلام آباد یا فیصل آباد کے لوگ نہیں کرسکتے۔ پیپلزپارٹی سے پوچھو تو رٹے رٹائے جواب ملیں گے کہ ہم نے یہ کردیا‘ وہ کردیا‘ ہم یہ کرنے والے ہیں‘ وہ کردیں گے۔ عملی طور پر حالت یہ ہے کہ صوبائی حکومت میں شامل چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے کبھی ڈیفنس‘ کلفٹن یا صدر کے علاوہ کوئی علاقہ دیکھ رکھا ہو۔ زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب جیسے کراچی والے بھی اپنی جماعتی مجبوریوں کی وجہ سے اس شہر کا مقدمہ نہیں لڑ پاتے‘ بلکہ اس تعصب کے وکیل بن جاتے ہیں جو حکمرانوں نے اس شہر کے ساتھ گزشتہ تیرہ سال سے روارکھا ہے۔
یہ وہ شہر ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو‘آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی جنم بھومی ہے۔ زرداری صاحب تو خود بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچپن میں اسی شہر کی سڑکوں پر سائیکل دوڑائی ہے۔ اب ان کے دورِحکومت میں اس شہرکا عالم یہ ہے کہ بچوں کا سڑک پر سائیکل چلانا تو دور کی بات انہیں اسی وقت تک محفوظ سمجھا جاتا ہے جب تک وہ گھر کی چاردیواری میں رہیں۔ مختلف علاقوں کے وہ پارک جوبچوں کے کھیلنے کے لیے بنائے گئے تھے‘ کچھ ایم کیوایم کی چائنا کٹنگ میں آگئے ‘کچھ صوبائی حکومت کے دوستوں نے ہتھیا لیے اور کچھ روحانی حوالوں سے قبضے میں آگئے۔ جو تھوڑے بہت باقی رہ گئے وہ کسی قابل نہیں۔ عمارتوں کی تعمیرکی حالت یہ ہے کہ جہاں جس کے دل میں جوآئے بنا لے‘ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس کا جی چاہے چند مربع گز زمین پرکئی کئی منزلہ عمارت بنا کراپنی خودکشی کا سامان تو کرے سو کرے‘ اردگرد والوں کے قتل کا بندوبست بھی کردے۔ اگر کسی کا مزاج سڑک کواپنی عمارت میں لینا ہے توبھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اندازہ کریں کہ نسلہ ٹاور سپریم کورٹ نے گرانے کا حکم دیا تو اس پر مرثیے کہنے والوں کے لیے معمولی بات تھی کہ اس کا کچھ حصہ سڑک پر یعنی باقاعدہ سڑک پر بنایا گیا تھا۔ اسی طرح طارق روڈ پر باقاعدہ زمین غصب کرکے بنی عبادت گاہ کو ہٹانے کی بات ہوئی تو یکا یک غیرتِ ایمانی حرکت میں آگئی۔ ایک صاحب نے تو پارک اور نماز کا فرق واضح کرکے غصب کردہ زمین پرمسجد کے باقی رہنے کو جواز دے دیا۔ ہاں یہ خیال رکھا کہ اس کے لیے کوئی فقہی دلیل نہیں دی۔ وہ توخدا بھلا کرے مولانا زاہدالراشدی کے فرزند مولاناعمار ناصرکا جنہوں نے مجلہ 'الشریعت‘ میں سابقہ فتاویٰ کی روشنی میں ثابت کردیا کہ اس طرح بنائی گئی مسجد کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
کراچی کی جس تباہی کی بات ہورہی ہے وہ ایک دن میں نہیں ہوئی۔ پہلے ایم کیوایم نے اس پر ہاتھ صاف کئے‘ پھر پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم نے مل کر تباہی پھیلائی اوراب پچھلے آٹھ دس برس سے پیپلزپارٹی بلاشرکتِ غیرے یہ کام کررہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شہر میں آبادی کے تناسب کوسرکاری سرپرستی میں بدلنے کی کوششوں سے لے کر گینگ وار تک‘ تباہی کی ہر داستان میں حکمران جماعت کا ہاتھ دکھائی دے گا۔ شہرمیں اداروں کی حالت یہ ہے کہ ایک مجرم جسے جیل میں ہونا تھا وہ ایک نجی ہسپتال کے ہوٹل جیسے کمرے میں رہ کر عیاشی کرتا ہے اورایک سال تک پولیس اس کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ دوسرے کو یہ سہولت حاصل رہی کہ وہ جب چاہے شاپنگ کے لیے چلا جاتا اورآخر ایک دن غائب ہوگیا۔ تصور کیجیے کہ پولیس ان دونوں معاملات میں مکمل طور پر ملوث ہے۔ وجہ صرف یہ کہ پچھلے تیرہ سال سے سندھ کی صوبائی حکومت میں ہر نوکری صرف اور صرف ایک لسانی گروہ کو پیسوں کے عوض دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے جب نوکری کا میرٹ یہ ہوجائے تو سرکاری اہلکار جوکچھ بھی کریں کم ہو گا۔
کراچی کی بربادی میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے علاوہ بھی کچھ نام آتے ہیں جو سپریم کورٹ کی کارروائی کا حصہ بن چکے ہیں‘ چونکہ یہ اخبارعدالت ہے‘ نہ یہ اخبار نویس کوئی عدالتی اہلکاراس لیے تھوڑے لکھے کو کافی سمجھا جائے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ بات ان کی ہورہی ہے جنہیں شاہراہ فیصل پر ایک کمرشل عمارت گرانے کا حکم ملتا ہے تو راتوں رات وہ عمارت ایک تعلیمی ادارے کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی یہ کہے کہ کراچی کے لیے اس نے اپنا کردار مثبت طور پر ادا کیا ہے تو یقین مانیے یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بھی وہ جسے سفید جھوٹ کہتے ہیں۔ اب تک اس شہر کی مکمل تباہی میں صرف دو رکاوٹیں ہیں‘ پہلی عدالت کا قلم اوردوسری لوگوں کے ہاتھ میں موبائل فون کا کیمرا۔ اگر یہ نہ ہوں تو ہماری مکمل تباہی سالوں کی نہیں مہینوں کی بات ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ اس غریب پرور اور کبھی عروس البلاد کہلانے والے شہر کے مسائل کا حل کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ شہر کو وہ دے دیا جائے جس کا تقاضا جماعت اسلامی‘ ایم کیوایم‘ پاک سرزمین پارٹی اور تحریک انصاف کررہی ہیں‘ یعنی ایک بااختیار بلدیاتی نظام جس کے تحت کراچی کا ناظم یا مئیر براہ راست انتخاب کے ذریعے چنا جائے۔ ان جماعتوں کے اس مطالبے میں پیپلزپارٹی کو اگر سیاست نظرآتی ہے تو ٹھیک ہی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا قطعی مطلب نہیں کہ یہ مطالبہ غلط ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وزیراعلیٰ یا صوبائی حکومت اتنے بڑے شہرمیں رہنے والوں کے لیے سیوریج کا نظام تک تو درست نہ کرسکیں لیکن اپنے اختیار پر اصرار یوں کریں جیسے یہ شہر انہیں وراثت میں ملا ہے۔ جمہوری ملکوں میں اتنے بڑے شہر کا انتظام مقامی آبادی کے نمائندہ ادارے ہی چلاتے ہیں۔ پھر کراچی میں آبادی کی ساخت بھی کچھ ایسی ہے کہ اسے آمرانہ انداز میں گورننس کے معاملات سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تین کروڑ کی آبادی کی حکومت میں صرف اس لیے نمائندگی نہ ہو کہ اس نے کسی خاص جماعت کو ووٹ نہیں دیا۔ اسی لیے جمہوریت میں وفاقی‘ صوبائی اور مقامی حکومتیں تشکیل دی جاتیں ہیں تاکہ کسی ایک اکائی کو اوپر کی سطح پر حکومت نہ بھی ملے تو نچلی سطح پر اسے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کا موقع مل جائے۔ اس کی ایک مثال ہم اپنی آنکھوں سے خیبرپختونخوا میں دیکھ چکے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کو برتری حاصل رہی۔ حتیٰ کہ پیپلزپارٹی بھی ایک تحصیل میں اپنا میئر منتخب کرا چکی ہے۔ اگرخیبرپختونخوا میں یہ الیکشن براہ راست نہ ہوتا تو تحریک انصاف پیپلزپارٹی کی طرح صوبائی حکومت کے زور پر ان ساری نشستوں پر بآسانی قبضہ جماسکتی تھی۔
پیپلزپارٹی کو یہ نکتہ نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ عوام کی بے اختیاری سے ہی صوبوں کے مطالبے جنم لیتے ہیں۔ کراچی اورحیدرآباد میں عوام کو بے اختیار رکھنے سے ہی الگ صوبے کی آواز ابھرتی ہے۔ اس آواز سے پیپلزپارٹی کو چاہے کتنی ہی چڑ کیوں نہ ہو‘ اگرعوام کا اختیار نہ ملا تو یہ آواز توانا ہوتی چلی جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ کراچی کی آواز میں لاہوراور پشاور کی آواز بھی مل جائے‘کیونکہ کراچی سب کو اتنا ہی عزیز ہے جتنے اپنے اپنے شہر۔ بہتریہی ہے کہ آج طاقتور بلدیاتی نظام دے دیا جائے‘ ورنہ کل کہیں صوبہ نہ دینا پڑجائے۔