عمران خان کا دورۂ چین کامیاب ہوا یا ناکام لیکن یہ طے ہوگیا کہ وہ لوگ جن پر قوم کی رہنمائی کا بوجھ لادا جاتا ہے وہ قطعاً اپنا کام کرنے کے اہل نہیں۔ ان میں ہم جیسے صحافی بھی شامل ہیں اور سیاستدان بھی۔ ذرا تصور فرمائیے کہ ملک کا وزیراعظم چین جیسے عظیم دوست ملک کے دورے پر ہے اور ہمارے جید صحافی اس بات پر شرطیں لگا رہے ہیں کہ میزبان ملک کا صدر وزیراعظم سے نہیں ملے گا۔ اپنے وزیراعظم کی بھد اڑا رہے ہیں کہ اس کا استقبال کسی نچلے درجے کے اہلکار نے کیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ واقعی خبریں تھیں یا محض کسی دوسرے سیاسی گروہ کی محبت میں وارفتگی کی وجہ سے بنائی ہوئی رائے؟ افسوس‘ ہزار بار افسوس کہ یہ سب شور شرابہ سوائے نفرت کی بنیاد پرکی گئی دریدہ دہنی کے اور کچھ نہ تھا۔ جب خبرآگئی کہ چین کے صدر شی ہمارے وزیراعظم سے مل لیے تو شکوک و شبہات کے جھکڑ چلائے گئے‘ جن کا سوائے اس کے کوئی مطلب نہیں تھا کہ ایک عالمی طاقت سے تعلقات کے حوالے سے حکومت پرباقاعدہ جھوٹ بولنے کا الزام دھرا جائے۔ پھر ملاقات کی تصویر آئی تو کوئی بولا ''ابھی تک چینی حکومت نے جاری نہیں کی‘‘۔ جب وہاں سے باتصویرخبر بھی جاری ہوگئی تو کسی نے سر اٹھایا‘ ''پریس ریلیز میں وہ نکات نہیں جو ہماری حکومت کہتی ہے‘‘۔ پھر وہ نکات بھی آگئے تو خاموشی چھا گئی۔ یہ خاموشی سوال چھوڑ گئی کہ کیا ہم صحافیوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے وزیراعظم کی دوست ملک میں سبکی کے خواہشمند ہیں اوراس کے لیے ہر حد سے گزر جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ صحافت کی کونسی قسم ہے کہ اپنے ہی ملک کے سب سے بڑے حکومتی عہدے پر فائز شخص کی توہین کی خواہش ہماری خبر بن جائے؟ حکومت اور صحافت کے درمیان دوستی تو خیر کبھی نہیں ہوسکتی لیکن اس قدرنفرت کے بھی کیا معنی؟اہلِ صحافت کو خبر ہو کہ ہم جنوں میں اپنا ہی گریباں چاک کر بیٹھے ہیں۔
اب آجائیے ذرا اہلِ سیاست کی طرف۔ کوئی اٹھتا ہے تو نوازشریف کے دورۂ چین کی تصویر کے ساتھ عمران خان کے دورے کی تصویرلگا کر کہتا ہے کہ سابق وزیراعظم کی عزت موجودہ وزیراعظم سے کہیں زیادہ کی گئی۔ اس سے زیادہ لایعنی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک وزیراعظم کی دوسرے ملک میں زیادہ پذیرائی کو میں قومی عزت قرار دوں اور دوسرے کی بظاہر کم کو اپنی بے عزتی نہ سمجھوں۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہمارے وزرائے اعظم بھی آتے جاتے رہے ہیں اور چین کے سربراہان بھی بدلتے رہے ہیں۔ یہ معاملات افراد تک محدود ہوتے تودونوں ملکوں کی دوستی کبھی گہری نہ ہوتی۔ یہ سیدھا سا مفادات اور علاقائی حقیقتوں کا کھیل ہے۔ چین کے وزیراعظم چو این لائی ایوب خان سے بھی اتنی ہی دوستی رکھتے تھے جتنی ان کے بعد والوں سے۔ چیئرمین ماؤزے تنگ نے اپنی موت سے کچھ پہلے جن چند عالمی رہنماؤں سے ملاقات کی ان میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ ان کے بعد چین کے ہر سربراہ نے یکے بعد دیگرے پاکستان کے حکمرانوں سے معاملات آگے بڑھائے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ پاکستان میں کون حکمران ہے۔ یہی حال ہمارا بھی ہے کہ چین میں کون حکمران ہے‘ اس سے کوئی دلچسپی ہمیں نہیں رہی۔ وہاں کے نظام کے مطابق جو اوپر آگیا‘ وہی ہمارے لیے عزت و تکریم کا مستحق ہوگیا۔ دوسری حرکت جو پاکستان مسلم لیگ( ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے فرمائی وہ یہ تھی کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے اجلاس عین اس وقت رکھا جب وہ چین میں پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے۔ اصولی طور پر اس اجلاس میں کوئی قباحت نہیں کہ پاکستان تھوڑا بہت ہی سہی‘ ایک جمہوری ملک تو ہے لیکن ملک کی دو سابق حکمران جماعتیں ایسے وقت میں حکومت گرانے کے لیے اکٹھی ہوں جب موجودہ حکمران کسی اہم غیر ملکی دورے پر ہو تو یہ کم ازکم بدذوقی تو ضرور ہے۔ اس طرح شاید یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ چین معاملات طے کرتے ہوئے اس حکومت کی کمزوری کو پیش نظر رکھے۔ اگرایسا ہے توپھر معاملہ بدذوقی سے آگے نکل جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے ایک دوسرے سے اختلافات اپنی جگہ مگر یہ ملکی مفاد سے بھی زیادہ اہم ہوجائیں‘ اسے سوائے قومی بدقسمتی کے اور کچھ نہیں قرار دیا جاسکتا۔
صحافت اور سیاست میں نفرت کی حد کو چھوتی ہوئی مخالفت‘ ہمیں کتنا کمزور کئے دے رہی ہے‘ اس کا احساس اپنے اس دورۂ چین کے بعد شاید وزیراعظم صاحب کو بھی ہو چکا ہو۔ اپنی سیاست میں ملکی مفاد کو جھونک دینے کا طرزِعمل ان کے لیے نیا نہیں کیونکہ وہ خود بھی ماضی میں ایسا ہی کر چکے ہیں۔ ستمبر2014ء میں عمران خان صاحب کا دھرنا کس کو یاد نہیں۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں کنٹینر کھڑا کرکے انہوں نے عملی طور پر حکومت کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ انہی دنوں چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان آنا تھا‘ جس کے لیے اسلام آباد اور بیجنگ میں تیاریاں جاری تھیں۔ اس دورے کی تفصیلات طے ہوچکیں تو سوال اٹھا کہ عمران خان کا کنٹینر کس طرح ڈی چوک سے ہٹایا جائے۔ یہ مناسب نہیں تھا کہ جس علاقے میں معزز مہمان کی نقل و حرکت ہورہی ہو‘ وہیں بینڈ باجے کے ساتھ حکومت کوجعلی اور دھاندلی کی پیداوار قرار دیا جارہا ہو۔ چینی صدر کی موجودگی میں اس طرح کی سیاسی سرگرمی سے یہ پیغام بھی جاتا کہ شاید عمران خان جیسی بڑی سیاسی قوت چین کے ساتھ سی پیک جیسے معاہدے کے خلاف ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے اہم رہنما خورشید محمود قصوری سے رابطہ کیا تاکہ انہیں صورتحال کی نزاکت سمجھائی جاسکے۔ خورشید محمود قصوری خود بھی وزیرخارجہ رہ چکے تھے۔ انہیں سیاسی معاملات میں چینی حساسیت کا اندازہ تھا۔ وہ خاص طور پر تنہائی میں عمران خان سے ملے اور انہیں ان حالات میں دھرنے کا کنٹینر ڈی چوک سے ہٹانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مشورہ سنا لیکن کچھ کہا نہیں۔ تھوڑی دیر بعد تحریک انصاف کا ہجومِ طفلاں اور گروہِ نابالغاں جب کنٹینر پر آیا تو عمران خان نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی۔ ابھی سنجیدہ لوگ کچھ کہنے بھی نہ پائے تھے کہ اس ہجوم نے عقل و منطق کی ہربات کو روند ڈالا۔ عمران خان کا کنٹینر وہیں کھڑا رہا البتہ صدر شی جن پنگ کا دورہ ملتوی ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کا بڑا نقصان ہوا مگرہماری روایت کے مطابق اپنے فائدے کے لیے قوم کے نقصان کی کیا اہمیت ہے۔ سو بات آئی گئی ہوگئی۔ اس کے بعد صدر شی اسی وقت پاکستان آئے جب دھرنا ختم ہوا۔
کمزور‘ نالائق اور پسماندہ قوموں کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان رائے کا اختلاف بہت تیزی سے لڑائی میں بدل جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کے نزدیک ہر واقعہ حالات کی پیداوار نہیں بلکہ کسی نہ کسی سازش کا نتیجہ قرار پاتا ہے۔ ان لوگوں کواپنی ذلت پر اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنی اپنے مخالف کی بے عزتی پر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ خبر اور خواہش کا فرق اس حد تک مدھم پڑ جاتا ہے کہ بڑے بڑے لوگ بھی افواہوں پر کان دھرنے لگتے ہیں۔ ان کا ہر فرد خود کو عوام کا ترجمان قرار دے کردوسرے کی دستار پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم کے دورۂ چین کے موقع پر جو کچھ پاکستان میں صحافت اور سیاست کے نام پر ہوا‘ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ بالغ نظری تو دور کی بات ہے‘ ہم بلوغت کی الف ب تک بھی نہیں پہنچے۔ ہم اپنے ذاتی‘ سیاسی‘ مسلکی یا مذہبی اختلافات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہم اتنے کمزور‘ نالائق اور پسماندہ ہیں کہ خود ہی اپنی تباہی کے لیے کافی ہیں۔