2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو آصف علی زرداری نے اپنے لیے دو اہداف طے کیے تھے۔ پہلا ہدف: پاکستان میں قومی اسمبلی اور حکومت دستور کے مطابق اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے۔ دوسرا ہدف: اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات منتقل کرنا۔ ان دو مقاصد کے لئے انہوں نے بہت کچھ برداشت کیا۔ اپنی مرضی کے بالکل خلاف افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس کے طور پر بحال کیا‘ اور اسامہ بن لادن کی پاکستان میں دریافت کے باوجود خاموشی اختیار کی گئی‘ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا مگر انہوں نے عدلیہ پر زبانی حملے سے بھی گریز کیا۔ ان کے خلاف میڈیا پر شاید پاکستان کی تاریخ کی تلخ ترین مہم چلی مگر وہ ٹی وی کے صحافیوں پر زیادہ سے زیادہ 'سیاسی اداکار‘ کی پھبتی کس کر لمبے عرصے کیلئے خاموش ہو جاتے تھے۔ امریکی سیاست میں سرگرم ایک پاکستانی نژاد امریکی نے ان سے پوچھا‘ آپ معاملات کو درست کرنے کے لئے کچھ کرتے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا ''اگر یہ پارلیمنٹ اور حکومت پانچ سال پورے کر گئی تو پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑ جائے گی‘ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے میں سب کچھ برداشت کر لوں گا‘‘۔ وہ اپنے ان لفظوں پر کھرے اترے اور وزیر اعظم نے نہ سہی‘ قومی اسمبلی نے پہلی بار خالص جمہوری انداز میں اپنے پانچ سال پورے کیے۔ 2013 میں الیکشن ہوئے اور پاکستان میں پُرامن انتقالِ اقتدار کی ایک مثال قائم ہو گئی۔
میاں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے صرف ایک سال بعد عمران خان اور طاہرالقادری اپنے دھرنے لے کر اسلام آباد آن پہنچے تو ایک بار پھر زرداری صاحب نظام کی حفاظت کیلئے میدان میں آگئے۔ جب شاہراہ دستور کی ہر عمارت پر دھرنے کے شرکا کے گندے کپڑے لٹک رہے تھے تو پیپلزپارٹی کی مدد سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے دھرنے والوں کا ہرمنصوبہ ناکام بنا دیا۔ وہ طاقتیں جو پاکستان کے جمہوری نظام کو بچوں کا کھیل بنانا چاہتی تھیں‘ اپنا سا منہ لے کررہ گئیں۔ دھرنا ایک لشکر میں تبدیل ہوکر پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر حملہ آورہوا مگر نوازشریف کوآصف علی زرداری کی طرف سے ملنے والی کمک نے اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیا۔
2018 میں عمران خان حکومت میں آئے تو مولانا فضل الرحمن نے پہلے دن سے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس وقت بھی آصف علی زرداری ہی تھے جو متحرک ہوئے اور اپوزیشن کی سبھی جماعتوں کو اسمبلیوں میں بیٹھنے پر تیار کیا۔ 2020 میں نواز شریف نے اسمبلیوں سے استعفوں کی بات کی تو ایک بار پھر پیپلزپارٹی کھل کر سامنے آئی اور نظام کی محافظ بن کرکھڑی ہوگئی۔ استعفوں کی بات پیچھے چلی گئی اورسیاست نظام کے دائرے میں ہی گھومتی رہی۔ جیسے ہی 2022 کا آغاز ہوا آصف علی زرداری نے پینترا بدلا اورانہیں عمران خان کی حکومت میں دنیا جہان کی خرابیاں دکھائی دینے لگیں۔ یکایک پارلیمنٹ کا وقت پورا کرنا ان کے نزدیک بے معنی ہوگیا۔ ان کی آواز میں نواز شریف کی آواز بھی ملی اور ہرطرف عدم اعتماد اور اسمبلی توڑنے کا شور اٹھ کھڑا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ آخرایسا کیا ہوا ہے جو ماضی میں پارلیمنٹ کے محافظ‘ باہمی مخالفت کے باوجود ایک دوسرے کی حکومتوں کو بچانے والے اسی اسمبلی کے خلاف ڈٹ گئے ہیں جس میں یہ خود پچھلے ساڑھے تین سال سے بیٹھے ہیں؟
یہ درست ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوئے اور ہمیں خارجی محاذ پربھی کئی پریشانیوں کا سامنا ہے‘ لیکن ملک کے حالات تو الا ماشااللہ ہر دور میں یہی رہے ہیں۔ ہم نے من حیث القوم اپنی معیشت کو کشکول سے جوڑ رکھا ہے۔ آصف علی زرداری حکومت میں آئے تو انہوں نے دنیا بھر سے مانگنے کیلئے فرینڈز آف پاکستان کا فورم تشکیل دیا۔ نواز شریف آئے تو سعودی عرب سے ایک ارب ڈالرمانگا اور پھر چین آگیا۔ عمران خان آئے توپھر وہی سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور اب چین۔ اپنے اپنے دور میں سبھی آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا جس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس دور میں بھی عالمی سطح پرہر چیزکی قیمتیں بڑھی ہیں اور ظاہر ہے ان قیمتوں کی ذمہ داری بھی خان صاحب پر نہیں ڈالی جاسکتی؛ البتہ نواز شریف کے دور حکومت میں قیمتیں مناسب رہیں اور ان کے لیے معیشت چلانا نسبتاً آسان رہا‘ لیکن انہوں نے تجارتی خسارے کو اتنا بڑھا دیاکہ اب یہ آنے والے کئی سالوں تک پاکستان کیلئے مصیبت بنا رہے گا۔ ہاں تحریک انصاف کو کورونا وبا کا سامنا ضرور کرنا پڑا جواس سے پہلے پاکستان میں کسی حکومت نے نہیں کیا۔ اس وبا کے دوران پاکستان کی کارکردگی مناسب رہی بلکہ دنیا میں کئی جگہ تواس کارکردگی کی باقاعدہ تعریف بھی ہو رہی ہے۔ گویا معاشی حوالے سے عمران خان چاہے وہ کچھ نہ کر سکے ہوں جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا‘ پھر بھی کورونا اور تیل کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ وہ جو کچھ کرسکتے تھے‘ انہوں نے کیا۔ اپنے سے پہلے والوں سے اچھا نہیں کیا توبرا بھی نہیں کیا؛ اگرچہ معیشت کی ترقی یا تنزلی کسی بھی حکومت کو جانچنے کا بنیادی پیمانہ ہوا کرتی ہے؛ تاہم اس کے علاوہ دیگر پیمانوں پربھی اس حکومت کو جانچا جائے تو یہ ویسی ہی حکومت ہے جیسی اس سے پہلے آتی رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی طورپر کارکردگی کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت نہیں گرائی جارہی بلکہ اس کے علاوہ کوئی سبب ہے جو نواز شریف اور آصف علی زرداری کو عمران خان کے خلاف متحد ہونے پرمجبور کررہا ہے۔ ہاں‘ حکومت گرانے کیلئے بہانہ کارکردگی کوضرور بنایا جارہا ہے۔
اچانک اس سیاسی ہلچل کا بنیادی سبب یہ ہے پاکستانی سیاست ہمیشہ ہیئت مقتدرہ کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی ہوتو سیاست میں جواربھاٹا آجاتا ہے۔ کسی تبدیلی کا امکان ہوتو بھی طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ 2019 میں مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ہو یا 2022 میں عدم اعتماد کی باتیں‘ دراصل اسی ٹائم ٹیبل کے تحت ہوتی ہیں۔ چونکہ آئندہ موسم خزاں میں بھی ہماری ہیئت مقتدرہ میں تبدیلی یا تسلسل کا فیصلہ ہونا ہے اس لیے وہ سب اکٹھے ہوچکے ہیں جو پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کے فضائل و برکات درست طور پر ہمیں سمجھاتے رہے ہیں۔ دوسری چیز جواپوزیشن میں اتحاد وہ اتفاق کا باعث ہے‘ وہ تحریک انصاف کا نیا پن ہے۔ سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو یہ گوارا ہی نہیں کہ آنے والے وقت میں مستقل طورپر اقتدار کا ایک نیا دعویدار ان کیلئے مصیبت بنا رہے۔ ہماری تاریخ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو نیا جان کران کے خلاف تمام رجعت پسند قوتیں اکٹھی ہوئیں‘ پھر یہی سلوک نواز شریف کے ساتھ ہوا‘ اب عمران خان نئے ہونے کی وجہ سے نشانے پرہیں۔ ان کو گرانے کی کوشش کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ نئی سیاسی قوت خلا میں نہیں بنتی‘ اس کی تشکیل میں بے شمار سیاسی اور معاشی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی تو چلیے خیر ہے‘ حیرت اس بات پر ہے کہ آصف علی زرداری جیسا لیڈر بھی یہ نکتہ نہیں سمجھ رہاکہ اگر سیاسی قوتیں ایسے ہی مٹ سکتیں توبھٹو بھی مٹ چکا ہوتا اور نوازشریف بھی۔ عمران خان بھی ایک سیاسی قوت ہیں۔ یہ قوت عدم اعتماد یا اسمبلی ٹوٹنے سے ختم نہیں ہوگی۔ اب اسے برداشت ہی کرنا پڑے گا۔