2014 میں نواز شریف کی حکومت دھرنوں کے نشانے پر آئی تو میرا شماران لوگوں میں تھا جو اس حکومت کو گرانے کی مخالفت کرتے تھے۔ انہی دنوں دنیا ٹی وی پر ایک پروگرام کے دوران تحریک انصاف کے جید کارکن، وکیل اور پنجاب کے موجودہ ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس بھی موجود تھے۔ میں حکومت گرانے کے خلاف پرجوش گفتگو کرچکا تو احمد اویس نے اپنے دھیمے انداز میں کہا 'نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے ورنہ دھرنے میں بیٹھے لوگ پارلیمنٹ کے اندر گھس جائیں گے‘۔ ان کی بات سن کر میری سٹی گم ہوگئی۔ میں یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ ایک قانون دان بھی قانون ساز ادارے کے خلاف اتنی سخت بات کرسکتا ہے۔ میں نے ان کی بات پر احتجاج کیا تو انہوں نے عوام کے جمہوری حقوق پر تقریر کی‘ لیکن میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کا حق جمہوری حقوق کی کون سی فہرست میں شامل ہے۔
دھرنے کا معاملہ ختم ہوا تو کچھ عرصے بعد پاناما کا قصہ شروع ہوگیا۔ خان صاحب کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ معاملہ اتنا پھیلا کہ اس نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب یہ نظرآنے لگا کہ پاناما کا ملبہ حکومت گرا دے گا تو میں پھر انہی لوگوں میں شامل تھا جو وقت سے پہلے حکومت کے خاتمے کی مخالفت کر رہے تھے۔ دلیل یہ تھی کہ ایک منتخب وزیراعظم کو مصنوعی طریقے سے نکالنے کا نتیجہ ملک میں عدم استحکام ہوگا۔ اس وقت جو ماحول تھا اس میں یہ دلیل نہیں مانی گئی۔ ہم جیسوں پرلفافہ ہونے کا الزام لگا، برسرِ مجلس لوگ ہمارے اثاثے پوچھنے لگے مگرہم خاموش رہنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ تو انفرادی معاملہ ہے لیکن پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی جس کا بہرحال دکھ ہے۔ نواز شریف کو نکال تو دیا گیا مگر 2018 کے الیکشن میں ان کے نام پرپڑنے والے ایک کروڑ انتیس لاکھ ووٹوں نے بتا دیاکہ نواز شریف حکومت سے تو نکالے جاسکتے ہیں مگر سیاست سے نہیں۔
پاکستانی سیاست ایک ایسے دائرے میں گھومتی ہے جس کا چکر تین سال میں مکمل ہوتا ہے۔ پاناما کیس نے بھی ایک خاص شکل اسی تین سال کے چکر کے آخر میں دھاری۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور نواز شریف کی جیل سے لندن روانگی بھی اسی چکر کے آخر میں ہوئی۔ اب خان صاحب کے خلاف صف بندی بھی سہ سالہ سفر کے آخر میں ہورہی ہے۔ چونکہ دائرے کی اس سفرکو ہمارے سیاسی اکابرین عوامی سطح پر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں‘ اسی لیے اندرونی کشمکش سے پیدا ہونے والے حالات کو جمہوری جدوجہد کی کامیابی کی صورت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ دستور کے حوالے آرہے ہیں، حکومتی کارکردگی کے پول کھل رہے ہیں اور اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لینے والی تحریک انصاف اس وقت گھیرے میں ہے اور ہم جیسے ایک بار پھر وہیں کھڑے ہیں جہاں لفافے کی تہمت لگائی گئی تھی۔ اگلے روز مجیب الرحمن شامی صاحب سے اپنے ٹی وی پروگرام میں بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا: عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کوشش کا نتیجہ سوائے عدم استحکام پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ بہتر نہیں پھر اپوزیشن ایسے کھیل سے باز رہے۔ کہا: نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
2014 سے 2017 تک اس نقارخانے میں دلیل سے بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ مجیب الرحمن شامی صاحب نے بھگتا اور معمولی سا میں نے بھی۔ اب پھر وہی کچھ ہورہا ہے، یعنی حکومت مخالفین کو پیغام مل رہے ہیں کہ غیرجانبداری ہی نئی حکمت عملی ہے۔ گویا میرے دوست میرے دشمن کو شہ دے رہے ہیں کہ ہماری طرف سے مطمئن رہو اور جو سمجھ میں آتی ہے کرگزرو۔ یکایک حکومت کو سکیورٹی رسک قرار دیا جانے لگا ہے، گڑے مردے اکھاڑ اکھاڑ کر ان میں جان ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جس طرح نواز شریف کی خانگی زندگی کھنگالی جارہی تھی اب خان صاحب کی نجی زندگی کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ہاں یہ فرق ضرورپڑا ہے کہ اس وقت جس دلیل کی وجہ سے ہمیں نواز شریف سے لفافہ پانے والا کہا گیا، آج ہمارے دوست کہتے ہیں، تم عمران خان سے لفافے لیتے ہو۔ غالب کے ہمعصر مومن خان مومن کو شاید ایسی ہی کیفیت کا سامنا ہوگا کہ کہا:
پھر بہار آئی، وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
پاکستان میں حکومت گراتے ہوئے کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ اس حرکت کا ملک کو کتنا نقصان ہوگا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہم سب کے رویے ایسے ہیں جیسے ڈوبتے ہوئے جہاز کے مسافروں کے ہوا کرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنا سامان بچانے کے لیے دوسرے کی جان تک داؤ پرلگانے کیلئے تیار ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ کوئی فیصلہ ملک و قوم کے مفاد میں ہوسکتا ہے، خیال خام سے زیادہ کچھ نہیں۔ جو بھی ہونا ہے وہ انفرادی مفادات کے تابع ہونا ہے، اس لیے اس میں خیر تو کوئی نہیں ہوسکتی۔ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ ہم ایک بار پھر وہیں آن کھڑے ہوں گے جہاں سے آگے بڑھنے کی ہر کوشش پچھلے چوہتر سالوں سے ناکام رہی ہے۔ دودن پہلے ہی پاکستانی سیاست کے ایک رمز آشنا بتا رہے تھے کہ 1970 سے پہلے سیاست کا نقشہ کسی ڈرائنگ روم میں بنتا اور پھر مختلف علاقوں کے بااثر لوگوں سے رابطے کرکے اس میں رنگ بھر لیے جاتے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بار عوام کو ایک فریق بنا کر سیاست کی اور کامیاب رہے۔ ان کی بات سن کر رہ رہ کر خیال آتا ہے، اب بھی تو وہی حالت ہے۔ لندن، اسلام آباد اور گردونواح کے کسی دفتر یا ڈرائنگ روم میں ایک نقشہ ترتیب دیا گیا ہے، وٹس ایپ کے ذریعے مشاورت ہوئی ہے، چند لوگ جہاز پر بیٹھ کر ادھر ادھر گئے ہیں اور یکایک ایسا بھنور وجود میں آگیا جو حکومت کو نگلنے کیلئے تیار ہے۔ اس کھیل میں عوام کہاں ہیں؟ چلیے عوام سے پوچھے بغیر ہی فیصلے کر لیجیے لیکن یہ تو کوئی بتا دے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جان توڑ مہنگائی کا علاج کیا ہوگا؟ ملک میں معاش کا پہیہ گھمانے کا طریقہ کس کے پاس ہے؟ ہرلحظہ ملک میں پھیلتی جہالت کے راستے میں بند باندھنا کس کی ذمہ داری ہوگی؟ یہ نہیں بتانا تو اتنا ہی بتا دیجیے کہ آئندہ انتخابات میں صرف ڈیڑھ سال باقی ہے‘ آخر عمران خان کے وزیراعظم رہنے سے ایسا کون سا نقصان ہو جائے گا جس کا مداوا ممکن نہیں۔ کوئی تو بتائے، کچھ تو بتائے کہ آخر ملک کو ایک بار پھر عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کا فائدہ کیا ہے؟
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے‘ عمران خان کو ہٹانے کیلئے جونام نہاد دستوری طریقہ اختیار کیا جارہا ہے اس کے مطابق ضروری ہے کہ ان کے وہ اتحادی الگ ہوجائیں جو ان کے ساتھ پچھلے ساڑھے تین سال سے اقتدار میں بیٹھے ہیں یا تحریک انصاف کے اپنے اراکین اسمبلی ہی بغاوت کرکے اپوزیشن سے آن ملیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ ہمارے سامنے آکربتائیں کہ ہم نے پچھلے ساڑھے تین برس اپنی آنکھوں سے جوانہیں اقتدار کے جھولے جھولتے دیکھا، وہ سب جھوٹ تھا۔ جب سے انہیں غیرجانبداری کا پیغام پہنچا ہے، ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور ضمیر جاگ اٹھے ہیں‘ اس لیے اب وہ اندھیری رات میں چاند بن کر چمکنے کیلئے تیار ہیں۔ قوم اٹھے اور ہمارا ساتھ دے۔ قوم کا فیصلہ قوم کرے اس خاکسار کوتو غیرجانبداری کے پانی میں دھلی یہ غلاظت آج سے پانچ سال پہلے بھائی تھی نہ آج گوارا ہے‘ چاہے ایک بار پھر لفافوں کے الزام ہی کیوں نہ لگیں۔