"HAC" (space) message & send to 7575

ماسکو میں چار دن

میری نسل نے جب آنکھ کھولی تو ماسکو دنیا بھر کے مجبور مزدوروں کے خوابوں کی تعبیر سمجھا جاتا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد لکھے جانے والے روسی ادب کے زیر اثر اس شہر کے بارے میں تاثر یہ بناکہ یہاں کے گلی کوچوں میں لوگ بیٹھے کارل مارکس کے تصورات اور لینن کے اقدامات پر بحث کرتے ہوں گے۔ مزدور کارخانوں سے نکل کر لائبریریوں کا راستہ لیتے ہوں گے اور وہاں بیٹھ کر گھنٹوں ہیگل کی جدلیات اور اینگلز کی تشریحات پر تبادلہ خیال کرتے ہوں گے۔ ہر چوک میں سٹڈی سرکل قائم ہوگا جہاں کوئی اشتراکی کارکن پیش آمدہ حالات پر روشنی ڈال رہا ہوگا۔ ماسکو کا یہ تاثر شاید ہمیشہ کے لیے پختہ ہوجاتا کہ ہمارے ہوش سنبھالتے ہی سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد ماسکو ایک ظالمانہ نظام کا استعارہ معلوم ہونے لگا۔ اب اس شہرکے بارے میں ایسا لگنے لگا کہ جگہ جگہ کے جی بی (سابق سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی) کے جاسوس لمبے لمبے کوٹ پہنے اور آنکھوں کو ڈھانپ لینے والے ہیٹ پہن کر کھڑے ہوں گے کہ جیسے ہی کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اٹھا لیا جائے۔ اس زمانے میں ماسکو سے اس قدر نفرت محسوس ہوتی تھی کہ جب فیض احمد فیض کو لینن پرائز ملنے کے بارے میں پتا چلا تو ان کی شاعرانہ عظمت پہ بھی کلام ہونے لگا۔ اس شہر نادیدہ کی محبت اور نفرت میں یہ شدت شاید اس لیے بھی تھی کہ ہماری نسل کو ہوش سنبھالتے ہی ایک نظریاتی تصادم کا سامنا تھا۔ اس تصادم کے دو قطب تھے، ایک واشنگٹن اور دوسرا ماسکو۔ واشنگٹن جمہوریت اور فکری آزادی کا نشان تھا تو ماسکو مساوات اور خوش حالی کا سنگ میل۔ لطیفہ یہ ہے کہ ٹکراؤ کی اس فضا میں جمہوریت اور مساوات بھی ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتے تھے۔ جب سوویت یونین ٹوٹا تو ماسکو کی محبت یا نفرت بھی دم توڑ گئی۔ یہ شہر اور اس کے بارے میں سارے متضاد جذبے بچپن کی خطا کاریوں کی طرح دل ودماغ کے نہاں خانوں میں جا چھپے۔ یہ سارے خیالات اس دن انگڑائی لے کر اپنی خشک ہڈیاں کڑکڑاتے بیدار ہوئے جب دنیا ٹی وی کے ایم ڈی صاحب نے فون پر بڑے عام سے لہجے میں کہا، ''یار، تم ماسکو تو چلے جاؤ، وزیر اعظم کے دورے کی کوریج کے لیے‘‘۔ ایم ڈی صاحب کے انداز گفتگو کی خاصیت ہے کہ بات جتنی بڑی ہو اس کے لیے لہجہ اتنا ہی عام سا اختیار کر لیتے ہیں۔ عام سے لہجے میں کہی گئی یہ بات سنتے ہی میرے تصورات میں دفن ماسکو یکدم ایک زندہ حقیقت بن گیا۔
طے پایا کہ وزیر اعظم کے دورے سے ایک دن پہلے مجھے ماسکو پہنچنا چاہیے۔ چونکہ ماضی کے برعکس اس دورے کے لیے حکومت نے وسائل فراہم کرنے تھے نہ سواری کا انتظام کرنا تھا اس لیے کچھ آزادی میسر تھی کہ کام کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت شہر بھی دیکھا جا سکتا تھے۔ وہ گلی کوچے دیکھے جا سکتے تھے جن کے بارے میں پڑھتے ہوئے ہم بڑے ہوئے تھے۔ ریڈ اسکوائر کو دیکھنے کی خواہش بھی جاگ اٹھی کہ جہاں کارل مارکس کے خیالات کمیونسٹ مینی فیسٹو اور داس کیپیٹل سے نکل کر باقاعدہ ریاستی نظریے کی شکل میں ڈھلے تھے۔ کریملن کو دیکھنے کی ہوس نے بھی چھپ کر سینے میں جگہ بنا لی اور پچھلی صدی کے اہم ترین سیاسی رہنما لینن کے مقبرے کی زیارت تو یوں سمجھیے ایسی تھی کہ اس خواہش پر کئی آرزوئیں قربان کردی جائیں۔ کہنے کو یہ سفر صحافت کا حصہ تھا مگر یقین مانیے میرے لیے نظریات کے ایک گم شدہ جہان کی بازیافت بھی تھا۔
ایک زمانہ تھا‘ ماسکو کے لیے پاکستان سے پی آئی اے کی براہ راست پرواز چلا کرتی تھی۔ جیسے بہت کچھ ہماری اجتماعی نالائقی کے الاؤ میں جل کر خاکستر ہو چکا ہے، یہ ایئرلائن اور اس کی پروازیں بھی اسی کی نذر ہو چکی ہیں۔ اس لیے مجھے کسی غیرملکی جہاز کے ذریعے ہی ماسکو پہنچنا تھا۔ سو، ترکی کی ایئرلائن کا انتخاب ہوا جس نے مجھے لاہور سے پہلے استنبول پہنچانا تھا‘ اور وہاں سے ماسکو۔ پیر کی صبح آٹھ بجے لاہور سے یہ سفر شروع ہوکر روس کے مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے ماسکو میں ختم ہونا تھا۔ پاکستان کے حساب سے یہ چودہ گھنٹے کا سفر ہے لیکن وقت کے فرق کی وجہ سے اس میں دو گھنٹے کی کمی ہوگئی۔
استنبول سے ماسکو جانے والا جہاز اس جہاز سے کافی چھوٹا تھا جس کے ذریعے میں لاہور سے استنبول پہنچا تھا۔ پہلے والے میں تین سو مسافروں کی گنجائش تھی اوردوسرے میں ایک سو بیس کی۔ ایک فرق یہ بھی تھا کہ لاہور سے استنبول تک جانے والا جہاز پاکستانیوں سے بھرا ہوا تھا اور ماسکو جانے والے جہاز میں میرے سوا کوئی پاکستانی تو کیا جنوبی ایشیا کا بھی کوئی نہیں تھا۔ سبھی ترک اور روسی قومیت کے لوگ تھے، جن کے درمیان میری حیثیت 'کالی بھیڑ‘ کی سی تھی۔ رنگ و نسل کے امتیاز کو ہمیشہ سے شرف آدمیت کی توہین سمجھنے کے باوجود ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ جیسے جہاز میں بیٹھے سبھی گورے دراصل ایک قوم ہیں اور میں کسی دوسری قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔ دوسرے ہی لمحے ایک خیال کوندے کی طرح لپکا کہ میں نے کیوں بغیر کسی کے کہے رنگت کی بنیاد پر اپنی شناخت اپنے ساتھ بیٹھے انسانوں سے الگ کرلی؟ یعنی رنگ و نسل کے امتیاز کا کوئی احساس انہیں ہونہ ہو، میں نے اپنے طور پرہی خود کو الگ قوم کا تصور کرلیا! گویا رنگ، نسل یا دوسرے انسانوں سے کسی بھی بنیاد پر خود کو الگ سمجھنے کا خناس کسی دوسرے کے ذہن کی پیداوار نہیں، میری ہی ذہنیت کا فتور ہے، خواہ میں خود کو برتر سمجھ کراس کا اظہار کروں یا کم تر جان کے۔ خیر چھوڑیے اس بات کو۔ مجھے لگتا ہے شناخت اور تعصب کا یہ باریک معاملہ صحافی کے طے کرنے کا نہیں، اسے یاسر پیرزادہ، وجاہت مسعود یا خورشید ندیم جیسے دانشوروں کیلئے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
ماسکو میں دو ایئرپورٹ ہیں۔ جس ایئرپورٹ پر مجھے اترنا تھا اس کا نام ویکو ہے۔ مقامی وقت کے مطابق ٹھیک رات آٹھ بجے وہاں پہنچا تو ایئرپورٹ پر کوئی ایسی نشانی موجود نہیں تھی جو سوویت یونین کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتی یا جسے نئے روس کی علامت قرار دیا جا سکتا۔ سادہ سا ایئرپورٹ تھا۔ امیگریشن پر زیادہ تر نوجوان مقرر تھے۔ ویسے تو دنیا بھر میں کہیں بھی جائیں امیگریشن کا مرحلہ خواہ مخواہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کم ازکم مجھے تواس مرحلے کی تکمیل تک وسوسے ہی گھیرے رہتے ہیں۔ یہاں تو معاملہ کچھ گمبھیر تھا۔ میں قطار میں کھڑا دیکھ رہا تھاکہ امیگریشن افسر آنکھ کے ساتھ انڈے کے برابر کا ایک آلہ لگا کر ہر پاسپورٹ کا معائنہ کرتا۔ غالباً یہ خوردبین جیسی کوئی چیز تھی۔ اس معائنے کے پاسپورٹ والے سے نہایت سردمہری سے کچھ پوچھتا اور پھر جانے دیتا۔ خیر میری باری آئی تو کاؤنٹر پر بیٹھے نوجوان نے میرے پاسپورٹ کا بھی اسی طرح جائزہ لینا شروع کیا تو دل دھک سے رہ گیا۔ نجانے کیا کچھ دیکھا، اس کی بھنویں سکڑی ہوئی تھیں جیسے کچھ سوچ رہا ہو، پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا شروع کردیا۔ چند لمحے بعد اس نے پاسپورٹ پرمہر لگا دی۔ میری سانس میں سانس آئی اور میں ایئرپورٹ سے باہر چل پڑا۔ جیسے ہی ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلا‘ برفیلی ہوا کے تھپیڑے نے استقبال کیا۔ پاکستانی سفارتخانے کے پریس ڈیپارٹمنٹ کی بھیجی ہوئی گاڑی مجھے لینے کے لیے آئی تھی۔ گاڑی تک پہنچتے ہوئے سردی نے حالت غیر کردی۔ سڑک کے دونوں طرف برف کی پانچ پانچ فٹ اونچے پہاڑی نما ڈھیر پڑے تھے جو دراصل سڑکوں پر گری برف اکٹھی کرکے بنا دیے گئے تھے۔ ائیرپورٹ سے باہرنکلے تو شہر پر جو پہلی نظر پڑی اس نے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ دل کی بات تو یہ ہے کہ میں کچھ مایوس ہوگیا تھا۔ ماسکو تو بالکل عام سا شہر لگ رہا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں