ویکو ایئرپورٹ سے ماسکو شہر کافی دور ہے ۔ جب ہم شہر میں داخل ہوئے تو میرا تاثر یکلخت بدل گیا۔ اب ماسکو کی روشنیاں دِکھ رہی تھیں۔ سڑک کے کنارے برف سے بنی پہاڑیاں اتنی ترتیب سے بنائی گئی تھیں کہ ان کی موجودگی منظر کی خوبصورت میں اضافہ کررہی تھی۔ روشنیوں سے میری مراد سٹریٹ لائٹس نہیں بلکہ وہ اضافی روشنیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف نظر نوازی تھا۔ ہر بڑی سڑک پر یہ روشنیاں اتنی زیادہ تعداد میں تھیں کہ ان سے نظرہٹانا مشکل تھا۔ بالخصوص پارکوں کے اندر خزاں زدہ درختوں پرلگائی گئی روشنیاں سماں باندھ رہی تھیں۔ ساری لائیٹیں چونکہ پیلے رنگ گی تھیں اس لیے شدید سردی میں ان کو دیکھنے سے بھی حرارت کا احساس ہوتا تھا۔
ایئرپورٹ کے بعد ہماری پہلی منزل اربات سٹریٹ تھی۔ لفظ 'اربات‘ صوتی اعتبار سے عربی لگتا ہے اس لیے فوری طور پر دل میں یہ خیال آیا کہ شاید ہمارے مسلم آباؤاجداد کا یہاں پھیرا پڑا ہوگا کہ شہر کے بیچوں بیچ ایک عربی نام کی گلی موجود ہے۔ میری یادداشت میں موجود اسلامی تاریخ سے اپنے بزرگوں کی یہاں آمد کے بارے میں کوئی حوالہ موجود نہیں تھا پھر بھی اسلامی نشاۃ ثانیہ کا خیال ضرور آیا۔ نجانے کیوں جب بھی اس طرح کے خیالات ذہن میں آئیں تو تقریر کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یہ نکتہ اربات سٹریٹ میں ہی کھلا کہ دراصل نشاۃ ثانیہ کا خیال بھی تو دراصل اپنی گہرائی میں احساس کمتری ہی تو ہے۔ جہاں کوئی اچھی چیز نظر آئی اسے اگر حال میں حاصل کرنے کی سکت نہ ہو تو تاریخ کے ذریعے اپنا حق ملکیت ثابت کرنے کی کوشش کرو۔ خیر، اندرون شہر کی یہ گلی اتنی چوڑی تھی جتنی کوئی اچھی خاصی بڑی سڑک ہوتی ہے ۔ اس گلی میں چند ریستوران تھے جن میں سے ایک ترکی ریستوران میں پاکستان سے آئے ہوئے صحافیوں کے لیے رات کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں اجنبی کھانوں سے زیادہ رغبت نہیں ہوتی۔ مجھے اربات سٹریٹ میں پیدل چلنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ میں تیزی سے کھانا کھا کر ریستوران سے باہر نکل آیا۔ گلی کچھ خالی خالی لگ رہی تھی۔ میں نے پاکستانی سفارتخانے کے پریس اتاشی ظفریاب سے اس خالی پن کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ گلی دراصل نوجوانوں کی گلی کہلاتی ہے ۔ گرمیوں میں اور چھٹی کے دنوں میں یہاں نوجوان موسیقار، گلوکار، مصوراوراداکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ اگر پاکستان میں اس طرح کی کوئی گلی بنانی ہے تو یہ کام نشاۃ ثانیہ سے پہلے پہلے ہی کرنا ہوگا بعد میں تو اوریا صاحب ہی نہیں کرنے دیں گے۔
پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے ایک روسی خاتون صحافیوں کی معاونت کے لیے مقرر تھیں۔ میں چونکہ آخر میں پہنچنے والے صحافیوں میں سے ایک تھا اس لیے میرا کورونا ٹیسٹ ہونا تھا۔ اربات سٹریٹ سے مجھے ایک لیبارٹری میں لے جایا جارہا تھا تو میں نے اس خاتون سے پوچھا یہاں جمہوریت کی سناؤ۔ اس نے کہا سختی اتنی ہے کہ فون پر بھی کسی سے صدر پوتن کے خلاف بات کرو تو پکڑے جاؤ‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ نوجوانوں میں اب تبدیلی کی شدید خواہش ہے ۔ اس نے بتایا کہ پچھلے ستمبر میں روسی نوجوانوں نے صدر پوتن کے خلاف جس پارٹی کو ووٹ دیے تھے اس کا سربراہ آج کل جیل میں ہے۔ پاکستانی سفارتخانے میں کام کرنے کی وجہ سے اسے ہماری جمہوریت کے بارے میں بہت کچھ پتا تھا۔ اس کے لیے حیرت کی بات تھی کہ پاکستان جیسا ملک اتنا جمہوری ہے جہاں جو جس کے دل میں آتی ہے کہہ سکتا ہے۔ پاکستان کے جمہوری ہونے کا یہ تاثرمحض انفرادی طور پر ہی محدود نہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی غیرملکی سفارتکاروں کو جانتا ہوں جوہماری کھل کر بات کرنے کی عادت کے معترف ہیں۔ مسلم دنیا میں تو بالخصوص پاکستانی جمہوریت بڑے رشک سے دیکھی جاتی ہے۔
کورونا ٹیسٹ سے فارغ ہوکر ہماری اگلی منزل وہ ہوٹل تھا جہاں مجھے ٹھہرنا تھا۔ یہ ہوٹل شہر کے بیچوں بیچ دریائے ماسکو کے کنارے پر ہے ۔ اس ہوٹل میں جو کمرہ مجھے ملا وہ چھٹی منزل پر تھا اور اس کی کھڑکی عین دریا پر کھلتی تھی۔ دریا کے دوسرے کنارے پر کریملن تھا جس کی روشنیاں مجھے اور صدر دروازہ اس کھڑکی سے بھی دکھائی دیتا تھا۔ میرے لیے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکیوں کی سمت کبھی اہم نہیں رہی، جہاں بھی کمرہ اور بستر مل گیا، سو لیا۔ بعض دوستوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ہوٹل میں جائیں تو کمرے کے انتخاب میں یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ کمرے کی کھڑکی سے کیا نظرآئے گا۔ یوں بھی میرا تجربہ ہوٹلوں کے بارے میں زیادہ قابل رشک نہیں کیونکہ میں الیکشنوں کی کوریج کے دوران پاکستان بھر میں جس طرح کے ہوٹلوں میں ٹھہرا ہوں وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے ۔ اس طویل داستان کا ایک حصہ تبرکاً عرض کرتاہوں کہ دوہزار پندرہ کے بلدیاتی الیکشن کے دوران میں جوہرآباد (ضلع خوشاب) کے ایک ایسے ہوٹل میں ٹھہرا جسے وہاں کا بہترین ہوٹل قرار دیا جاتا ہے ۔ اس ہوٹل کے کمروں تک پہنچنے کا راستہ ایک ایسی دکان سے ہوکر گزرتا تھا جہاں تنور لگا ہوا تھااور اس پرہوٹل کا منیجر 'بقلم خود‘ روٹیاں لگاتا تھا۔ اس نے کمال مہربانی سے مجھے وی آئی پی کمرہ الاٹ کیا۔ اس وی آئی پی کمرے کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے دروازے پر ہی 'وی آئی پی روم‘لکھ رکھا تھا اور اسے دیگر کمروں سے ممتاز کرنے والی دوسری خوبی یہ تھی کہ باقی کمروں میں چار چار چارپائیاں تھیں جبکہ اس کمرے میں چھ چارپائیاں تھیں۔ وطن عزیز میں اس نوع کے متعدد تجربات سے گزرنے کے بعد مجھے دنیا کا ہر ہوٹل ٹھیک لگتا ہے اوراس کا ہر کمرہ وی آئی پی۔
کمرے میں سامان رکھتے ہی میں کھڑکی کھول کر کریملن یعنی صدارتی محل کو دیکھنے لگا۔ اس کے اردگرد کی سڑکیں صاف تھیں مگر کناروں پر برف کے تکونے ڈھیر تھے۔ ریڈ اسکوائر سنسان پڑا تھا اور اس کے ساتھ ہی باسل چرچ بھی دکھائی دے رہا تھا۔ دریائے ماسکو خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ کبھی کبھی برف کا چھوٹا سا تودہ اس میں سے گزرتا دکھائی دیتا تو یوں لگتا کہ چاندی بلکہ چاندنی کا کوئی ٹکڑا دریا میں آن گرا ہے۔ اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ منظر کی خوبصورتی اکثر اوقات حقیقت کے خوف کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتی ہے۔ آپ کے ٹو پہاڑ کو دور سے دیکھیں تو یہ فطرت کا حسین ترین شاہکار ہے لیکن اس پر چڑھنا دنیا کی مشکل ترین مہموں میں سے ایک ہے۔ ماسکو رات کے اس پہر انسان کے تراشے ہوئے حسن کی ایک مثال تھا، معلوم نہیں ماسکو کے اس خوبصورت منظر میں ہمیشہ کے لیے رہنا کے ٹو پر چڑھنے جیسا ہے یا مختلف؟
روس کے تاریخی طرز تعمیر پر یورپ کا رنگ غالب ہے، اس لیے پہلی نظر میں ہر عمارت یورپین ہی دکھائی دیتی ہے لیکن ذرا تفصیل سے دیکھیں تو روسی طرز تعمیر کی خصوصیات واضح ہونے لگتی ہیں۔ ایک ہی عمارت میں مختلف رنگوں کا استعمال ایسی چیز ہے جو میں نے تو یہاں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھی۔ مثلاً باسل چرچ کو دیکھیں تو اس کے گنبد اور مینار مختلف رنگوں کے ہیں، کریملن کی دیوار سرخ، عمارت سفید اور گنبد سنہری ہیں۔ شاید برف کے سفید پس منظر کو کچھ کم کرنے کے لیے رنگوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے تاکہ نظروں کو کچھ مختلف بھی دیکھنے کو ملے۔ دوسری وجہ مجھے یہ لگی کہ برف اور سردی ایک خاص طرح کی غم انگیز کیفیت پیدا کردیتی ہے، بالخصوص روسی ادب میں تو کرب و الم کی منظر نگاری‘ لیکن یہ وجہ زیادہ معقول اس لیے نہیں کہ ادب عام آدمی کی داستان ہے، اس میں وہی کچھ ہو گا جو عام آدمی پر گزرتا ہے، جبکہ عمارتیں بادشاہوں اور امرا کے شوق کی علامتیں ہیں، اس لیے ان میں رونق بھی ہے رعنائی بھی۔ (جاری)