مجھے ماسکو میں دوسرا دن تھا۔ ہوٹل میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ دروازے پردستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے پچاس پچپن برس کا ایک شخص ہاتھ میں سفید تھیلا پکڑے کھڑا تھا۔ میں سمجھا‘ سفارتخانے کا کوئی اہلکار ہوگا۔ اندر بلایا اور پوچھا: فرمائیے۔ اس نے ٹھیٹھ پنجابی میں بتایا، ''میں رانا اقبال ہوں اور آپ کیلئے پاکستانی کھانا لایا ہوں‘۔ یہ کہہ کر اس نے تھیلے سے کھانے کا ڈبا نکال کر میز پررکھا، پانی کی بوتل کھولی اور کہا، ''بسم اللہ‘‘۔ میں اس شخص کے اعتماد پر حیران ہوا اور مسرور بھی۔ کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو نہایت بے تکلفی سے بولا، ''او حبیب صاب تسی روٹی تے کھاؤ، دسنا تہانوں وی‘‘۔ میں نے اس کے رعب میں آکر بغیر بھوک کے ہی کھانا شروع کردیا تواس کے چہرے پرسکون آیا۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ فیصل آباد کے ایک گاؤں نواں کوٹ سے تیس سال پہلے پڑھنے کیلئے روس آیا تھا۔ یہاں آکر اس نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ پڑھائی کے بعد چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا اور اب روس میں اپنے طورپر پاکستانی مصنوعات کی نمائش لگاتا ہے۔ یہ نمائش سارا سال ہی روس کے مختلف شہروں میں لگی رہتی ہے۔ بیوی بچوں کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ ایک شادی پاکستان میں ہے اور دوسری روس میں۔ رانا اقبال روس میں پاکستانیوں کی ایسوسی ایشن کا نائب صدر بھی ہے اور اتنا بے تکلف کہ اس کے روسی خاندان کے بارے میں پوچھا تو اپنی روسی بیگم صاحبہ کو فون کر ڈالا اور پنجابی میں بات شروع کردی۔ حیرت انگیز طور پر بیگم صاحبہ بھی پنجابی ہی بول رہی تھیں۔
روس میں‘ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق‘ پاکستانیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے جن میں سے سات سو ماسکو میں رہتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک تو اتنے بڑے کاروباری ہیں کہ ان کا کاروبار دنیا بھرمیں پھیلا ہوا ہے اور باقی بھی اپنے کاروبار کو وسعت دینے پرلگے ہیں۔ بہت سوں نے روس اور پاکستان میں شادیاں کررکھی ہیں اور اپنے دونوں خاندان بڑی ذمہ داری سے چلارہے ہیں۔ ان سبھی کا دل پاکستان میں اٹکا رہتا ہے اورعمران خان کا ماسکو آنا ان سب کیلئے یوں سمجھیے کہ عید کا دن تھا۔ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے وہاں رانا اقبال کی قیادت میں چند پاکستانیوں نے باقاعدہ کمرے بک کرا لیے تھے تاکہ پاکستان سے آنے والوں کے ساتھ ملنے جلنے کا موقع مل سکے۔ میں نے رانا اقبال سے پوچھا: وزیراعظم کے یہاں آنے کا فائدہ آپ کو کیا ہوگا۔ اس کا کہنا تھاکہ ہم نے روس میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ اپنی انفرادی محنت سے کیا ہے۔ عمران خان کے آنے سے یہ ہوگا کہ روس میں پاکستان کی شناخت بہت بہتر ہوجائے گی‘ اگر دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں توپاکستانیوں کیلئے روسی معاشرے میں مزید گنجائش پیدا ہوجائے گی۔
اسی شام رانا اقبال نے ماسکو میں رہنے والے چند پاکستانیوں کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ وہاں ننکانہ صاحب کا محبوب بھٹی ملا۔ محبوب وہاں مسلمان ملکوں کے سفارتخانوں کیلئے کیٹرنگ کا کام کرتا ہے۔ اس نے بھی روس میں ہی اپنا خاندان بنایا اوراس کا بیٹا ڈینیل محبوب وہاں کا ابھرتا ہوا موسیقار ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی محبوب بھٹی نے تھوڑی دیر بعد قمیص اتاری اور صرف بنیان میں آگیا۔ اتنی سادگی اگر ہوتو تعارف کو تعلق بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ چند منٹ مزید گزرے تو محبوب نے گانا شروع کردیا۔ سینکڑوں پنجابی گانے اسے یاد تھے۔ وہ میزپر طبلہ بجاتا ہوا اپنی پاٹ دار آواز میں گاتا تو سماں باندھ دیتا۔ جب بھی وہ کوئی نیا گانا شروع کرتا، رانا اقبال وہاں موجود لوگوں کو تنبیہ کرتا، ''گانا سن کے نچنا نئیں، کمرے اچ تھاں گھٹ اے‘‘۔ مجھے محبوب بھٹی کو گاتے سن کر پتا چلا کہ اس کا بیٹا موسیقار کیوں بنا۔ اگلے روز اس نے بھی میرے سامنے اپنے بیٹے کو فون کیا توپنجابی میں ہی بات کی۔ اس کواپنے بیٹے سے بات کرتے ہوئے سن کر خیال آیاکہ ملک محض جغرافیے کی مجبوریاں ہیں، انسان تواپنا وطن اپنے ساتھ لیے چلتا ہے۔ رانا اقبال نے ماسکو میں نواں کوٹ آباد کررکھا ہے اور محبوب بھٹی ننکانے کی مٹی سے روس میں اپنا گھر بنارہا ہے۔
ماسکو میں یورپ کے دوسرے شہروں کی طرح غیرملکی لوگ زیادہ بڑی تعداد میں دکھائی نہیں دیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے زمانے میں یہ ملک آہنی پردے کے پیچھے رہا۔ اس کی معیشت ہی کچھ ایسی تھی کہ اس میں غیرملکیوں کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ انیس سو بانوے میں سوشلزم ختم ہوا تو دنیا نے اس کی طرف توجہ کرنا شروع کی؛ البتہ سوویت یونین کی سابق وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد روس میں آباد ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں اورستر سال کی لامذہبیت کے بعد آہستہ آہستہ اپنی مذہبی اقدار کو دریافت کررہے ہیں۔ اس کا براہ راست تجربہ مجھے اس ٹیکسی ڈرائیور سے ملنے کے بعد ہوا جس نے مجھے پاکستان آنے کیلئے ایئرپورٹ چھوڑا۔
موبائل فون کے ذریعے بک کرائی ہوئی اس ٹیکسی کا ڈرائیور شکل و شباہت سے روسی لگتا تھا۔ اس کے موبائل فون میں ایک ایسی ایپلیکیشن تھی جس کے ذریعے وہ روسی زبان میں کچھ کہتا تو وہ انگریزی میں ترجمہ ہوکر سنائی دیتا۔ اس الیکٹرونک ترجمان کے ذریعے اس نے پوچھا، ''تم کہاں جارہے ہو، انڈیا؟‘‘۔ میں نے کہا: پاکستان۔ میری بات سن کر اس نے گردن گھما کر مجھے غور سے دیکھا اور پھر پوچھا، ''اگر تم پاکستانی ہو تو اس کا مطلب ہے مسلمان بھی ہوگے؟‘‘۔ میں نے 'ہاں‘ میں جواب دیا تو اگلا سوال آیا، 'مسلمان ہونے کا کوئی ثبوت تمہارے پاس ہے؟‘ مجھے یہ سوال سمجھ نہیں آیا۔ اس نے دوبارہ کچھ کہا تو موبائل فون نے اس کا ترجمہ کیا، 'جب ایک مسلمان دوسرے سے ملتا ہے توکیا کہتا ہے؟‘۔ اب میں سمجھا۔ میں نے جواب میں کہا، ''السلامُ علیکم‘‘۔ میرا جواب سن کر اس کے چہرے پر رونق آگئی۔ اس نے پوچھا، 'مسلمانوں کا عربی میں کوئی کلمہ پڑھ سکتے ہو‘۔ مجھے کچھ عجیب لگا، مگر اس کی تسلی کے لیے میں نے کلمہ شہادت کا پہلا حصہ ہی پڑھا تو اس نے اسے مکمل کردیا۔ اس کے نزدیک میرے اسلام کا ناقابل تردید ثبوت اسے مل گیا تھا۔ وہ خوشی سے لہکنے لگا۔ مجھے زندگی میں وہ پہلا شخص ملا تھا جو میرے مسلمان ہونے پر پھولا نہیں سما رہا تھا۔ وہ مجھے بار بار 'بھائی‘ کہہ کر مخاطب کرتا۔ میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا اس لیے اسے گاڑی چلاتے ہوئے مجھ سے بات کرنے کیلئے پیچھے دیکھنا پڑتا تھا۔ اس کے دل میں نجانے کیا آئی کہ اچانک گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔ گردن موڑ کر میرے طرف دیکھا اور بڑے جوش سے بتایا کہ اس کی دادی متحدہ عرب امارات نماز پڑھنے گئی تھی۔ اس نے روسی میں بھی ''نماز‘‘ کا ہی لفظ بولا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اسے نماز اور حج یا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان فرق کا علم نہیں۔ میں نے بھی غلطی درست کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر بولا، ''میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو گئے تو میں اپنی ماں کونماز پڑھنے بھیجوں گا اور پھر میں خود جاؤں گا‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے گاڑی دوبارہ چلا دی۔ اس کی بات سن کر میرا دل چاہا کہ اسے کہوں ''اے میرے بیٹے کی عمر کے نوجوان تیری تڑپ پر سارے فقہ نثار، تیرے حج کو نماز کہنے پر ہزار حج کا ثواب، تیری لا علمی پر لاکھوں علم قربان، تیرا شوق کسی بڑے سے بڑے قافلۂ حج میں سے کسی ایک کا بھی زاد راہ ہوتو اس قافلے کے ہر شخص کا حج قبول ہوجائے‘‘۔ میں یہ سب نہیں کہہ سکا۔ ایئرپورٹ پہنچ کربس اپنے گلے میں پڑا مفلر اتارا اور اس کو پیش کردیا۔ اس نے پوچھا، یہ مجھے کیوں دے رہے ہو۔ میں نے کہا، 'جب حج پر جاؤ تو یہ ضرور ساتھ لے کر جانا‘۔