"HAC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کے اتحادی

مسلم لیگ (ق) ابھی تک تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر اس کی حیثیت چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی سیاست کے ٹریڈ مارک کے مطابق ہے کہ یہی دو شخصیات اس کی کرتا دھرتا ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس جماعت کو سہاروں کی تلاش رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا دم بھرتے ہوئے نواز شریف سے ملاقات ہو گئی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کا سہارا ملا تو ملک بھر کی سیاست ان کی جھولی میں آ گری۔ دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ تک صرف چودھری پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ تبرکاً ہی اسمبلی میں بیٹھے رہے۔ پھر ان کی عمران خان سے قربت ہو گئی جو آج تک برقرار ہے۔ خاص قسم کے لوگوں تک محدود ایک خاص قسم کی پنجابی وضع داری کی بدولت ان کے اثرورسوخ کا دائرہ وسیع ہے اور ہر وقت ان کے کام آتا رہتا تھا لیکن اب چھوٹے صاحب نے جو اندازِ سیاست اپنایا ہے اس کی تپش خاصی زیادہ ہے۔ چودھری صاحب کی موقع شناسی بلا شبہ قابل داد ہے لیکن اس موقع پر ان کا مبلغ سرمایہ وہی نشستیں ہیں جو انہیں تحریکِ انصاف کے تعاون سے ملی تھیں۔ اگر کوئی عجیب و غریب صورت بن گئی تو شاید انہیں عمران خان اپنا سیاسی بازو کاٹ کر دے دیں لیکن یہ طے ہے کہ ایسی صورت میں چودھری صاحب اپنے سیاسی طرز عمل سے بہت کچھ کھو دیں گے۔
تحریک انصاف کی دوسری اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ہے۔ یہ جماعت کوئٹہ کے ایک دفتر میں بنی اور اس میں شمولیت اور اعلیٰ مقام کے لئے شرط بس دفتر میں بیٹھے صاحب کی نظرِ کرم تھی۔ چند نوجوانوں کو جوڑ کر تشکیل پانے والی اس پارٹی کو پیدائش کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت اور سینیٹ کی نشستیں تھما دی گئیں۔ پھر دو ہزار اٹھارہ میں بھی اسے کچھ نہ کچھ مل گیا۔ یہ لوگ اس وقت کام آئے جب تحریک انصاف کی حکومت کی دیواریں اٹھ رہی تھیں۔ جیسے ہی عمران خان زور آوروں کے نرغے میں آئے تو اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نکلے تو اقتدار کی چھت زمین پر آ رہے گی۔ جو کل تک کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے آج اپنی آزادی کا تاوان اسی سے مانگ رہے ہیں جس کے تیشے نے اسے تراش کر سیاست کے بت خانے میں سجایا تھا اور ایک حیثیت دی تھی۔
عمران خان سے جڑی تیسری جماعت متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم تو شاید موقع کی تلاش میں تھی۔ کہنے کو یہ کراچی میں اقتدار کا جائز مطالبہ کرتی ہے لیکن اس کے موجودہ رہنماؤں کی سوچوں میں شہر پر اس اقتدار کا مطلب اس طرح کا مکمل قبضہ ہے جیسا ان سے پہلے رہنماؤں نے جمایا تھا۔ کراچی اور حیدر آباد کے حقوق کے نام پر اپنے تنظیمی کارکنوں کے لیے مخصوص سہولیات اس کا مطمح نظر ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے اقتدار اور حقوق کی بات پاکستان بھر میں صرف ان سے کی جا سکتی ہے جن کی نظر میں حکومت میں آنے اور ناجائز قبضے میں کوئی بڑا فرق نہ ہو‘ ورنہ قومی سیاست میں رہنے والی کوئی بھی جماعت ان کے نظر آنے والے مطالبے تو تسلیم کر سکتی ہے مگر ان کی تہہ میں چھپے مقاصد نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس جماعت کے موجودہ بزرجمہروں کو اتنا بھی علم نہیں کہ اگست دو ہزار سولہ کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ ایم کیو ایم کو حکومت سے توڑنے کے لیے اپوزیشن اس کے سب مطالبات مان بھی لے تو انہیں پورا کرنے کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ فرض کریں ان کے مطالبات پورے بھی کر دیئے جاتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کو وہ اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے مزید مطالبات نہیں کریں گے اور مطالبات پورے نہ ہونے پر کسی اور در کے سوالی نہیں بن جائیں گے۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یعنی جی ڈی اے بھی وفاقی حکومتی اتحاد میں شامل ہے۔ یہ اتحاد دراصل اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کہلاتا ہے۔ اس اتحاد کے اندر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا نئے لوگ ہیں جو پیپلز پارٹی سے نکل کر اس میں آئے ہیں۔ ان کی مجبوری ہے کہ یہ پیپلز پارٹی میں نہیں جا سکتے اور پیپلز پارٹی انہیں دوبارہ اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں‘ لہٰذا تحریک انصاف کا یہ واحد اتحادی ہے جو اپنی جگہ پر قائم ہے اور جو شاید تحریکِ عدم اعتماد والے دن بھی اپنی اس پوزیشن پر قائم رہ کر وزیر اعظم کی تقویت کا باعث بنے۔
قاف لیگ، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور جی ڈی اے کے علاوہ اتحادیوں کی ایک نایاب قسم خود تحریک انصاف کے اندر بھی موجود ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے کچھ پہلے تحریک انصاف میں آنے والے یہ لوگ الیکٹ ایبلز کہلاتے ہیں۔ ان کا کوئی نظریہ ہے نہ کوئی نقطہ نظر‘ بس ہر قسم کی حکومت میں شامل ہونے کا کوئی نہ کوئی بندوبست کر لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ٹوٹ کر اپوزیشن کے کیمپ میں چلے جانے کا دھڑکا تحریک انصاف کو لگا رہتا ہے اور انہی کے دم سے اپوزیشن پُر اعتماد نظر آتی ہے۔ انہیں اپنے اپنے خاندانی تجربے سے یہ علم ہو جاتا ہے کہ آئندہ ہوائیں کس کے ساتھ ہوں گی۔ ان کے لیے چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ دستور کے مطابق اگر یہ اسمبلی میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے تو نا اہل ہو جائیں گے ۔ ان کے حوصلے بڑھانے کے لیے دستور کی اس شرط کی تشریح میں بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ ان کی باتیں سن کر تو لگتا ہے کہ جو لوگ لوٹا بننے کی فضیلت سے محروم رہیں گے وہ اپنی عاقبت بھی خراب کر بیٹھیں گے۔ دستور کی یہ تشریح شاید قانونی تو قرار پائے مگر سیاسی اخلاقیات کا جنازہ تو بہرحال اس سے اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ الگ با ت ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی میدان میں اخلاقیات کا بہت زیادہ خیال رکھنے کا رواج کم کم ہی ہے۔ یقین نہیں آتا تو آج کل جلسوں‘ جلوسوں اور پریس کانفرنسوں کے دوران استعمال ہونے والے الفاظ پر ایک نظر ڈال لیں
تحریک انصاف کے ان پانچوں اتحادیوں کی سیاسی طاقت اتنی ہے کہ کھل کر سامنے بھی نہیں آ سکتے ۔ چھوٹے صاحب کو ہی دیکھ لیجیے ، ان کی کل سیاست یہ ہے کہ ایک دن مہر بخاری کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان پر برس پڑے اور دوسرے دن مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ ہونے والے انٹرویو میں بدلے ہوئے نظر آئے۔ یہ دونوں انٹرویوز ایک ساتھ دیکھ لیے جائیں تو پتا چل جاتا ہے کہ ان کا موقف کسی سیاسی اصول پر نہیں بلکہ محض مفاد پر استوار ہے۔ یہی حالت باقی سارے اتحادیوں کی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے سیاسی مؤقف پر نہیں کھڑا بلکہ ساری کی ساری بحث لین دین پر ہے۔ ایک سے کچھ ملتا ہے تو اس کی پیش کش دوسرے کو بتا کر اس سے کچھ زیادہ کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ یہ بچگانہ طرز عمل اس تلخ حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ان سب کو سیاست یا سیاسی اصولوں کا سرے سے علم ہی نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اشاروں پر جلوے دکھائے ہیں۔ ان کی حیثیت شطرنج کے مہروں سے زیادہ نہیں۔ شاطر کی عنایت ہے کہ ان میں سے کوئی بادشاہ بنا پھرتا ہے اور کوئی وزیر، در حقیقت ان کے فیصلے اپنے ہیں نہ بساط۔ شاطر کی مدد سے محروم ہو کر یہ الٹے سیدھے قدم اٹھا کر کہیں ٹھوکر کھا کر گر جاتے ہیں اور کبھی بے معنی چالوں سے تفنن کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ شاطر کے ارادوں سے بے خبر یہ مہرے اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے کس قدم پر سیاسی موت کا جال بچھا ہے اور کہاں زندگی کی ضمانت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں