آخر شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ وزیراعظم کے طور پران کا نام پہلی بار انیس سو نوے کی دہائی کے آخر میں سامنے آیا تھا جب پرویز مشرف اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات خطرے کی لکیر سے آگے نکل گئے تھے۔ مشرف کا خیال تھا‘ شہباز شریف اپنی صلح جویانہ طبیعت کی وجہ سے ملکی نظام بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ اس وقت تک نوازشریف اپنی قیادت بلا شرکت غیرے عوام میں منوا چکے تھے اس لیے انہوں نے طاقت کی مساوات سے باہر ہونا گوارا نہ کیا اوراپنی حکومت ختم کروا کر شہباز شریف سمیت جلاوطن ہونے پر مجبور ہوگئے۔ 2004 میں جب شہباز شریف کو بھنک پڑی کہ جنرل مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت آصف علی زرداری جیل سے رہا ہونے والے ہیں تو انہوں نے تنہا وطن واپسی کی کوشش کی لیکن لاہور ائیرپورٹ سے ہی لوٹا دیے گئے۔ میں اس وقت لاہور میں ان کی آمد کی کوریج کیلئے موجود تھا اور میں نے جو سب سے بڑا مجمع دیکھا وہ ائیرپورٹ کے قریب تھا۔ بیس پچیس افراد پر مشتمل یہ مجمع ائیرپورٹ کے قریب اس جگہ لگایا گیا تھا جہاں سے رن وے نظر آتا ہے۔ وہاں لگائے گئی رکاوٹ کے قریب ہی ایک پولیس کی گاڑی کھڑی تھی جس کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے پولیس والے کبھی جمائیاں لیتے اور کبھی سستی سے اپنے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈوں سے زمین کریدنے لگتے۔ وہ بیس پچیس افراد کا مجمع بھی دو تین ٹولیوں میں بٹا ہوا تھا۔ اچانک ایک جہاز کی آواز فضا میں گونجی تو مجمعے کے چند لوگوں نے پولیس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا پھر مسلم لیگ (ن) کے حق میں نعرہ لگایا‘ جس نے فضا میں کچھ ارتعاش پیدا کیا۔ پولیس والے ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے نعرہ بازوں کی طرف بڑھے اور نعرہ باز تیز تیز قدموں سے پولیس کی گاڑی کی طرف چل پڑے۔ میں سمجھا شاید اب کوئی تصادم ہوگا لیکن یہ پرجوش کارکن بڑے آرام سے گاڑی میں بیٹھے۔ اتفاق سے گاڑی کا ڈرائیور کچھ دور کھڑا تھا۔ وہ آرام سے آیا، گاڑی سٹارٹ کی، جب گاڑی حرکت میں آگئی تو اندر بیٹھے ہوئے کارکنوں نے انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا اور ہم نے تصویریں بنا لیں۔ شہباز شریف کی آمد پرزندہ دلان لاہور کا مظاہرہ ختم ہوچکا تھا۔ ہم وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ ایک بار پھر کسی جہاز کی آواز فضا میں گونجی اور پولیس نے سڑک پر پڑی رکاوٹ ہٹا دی۔ مجھے اس رکاوٹ کے ہٹنے سے پتا چلا کہ شہباز شریف سعودی عرب واپس تشریف لے جاچکے ہیں۔
اس کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو، نواز شریف اور شہباز شریف وطن واپس آئے اور سیاست نے جو رخ اختیار کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ جب یہ سب لوگ پاکستان واپس آچکے تھے تو مجھے ایک نہایت ذمہ دار سفارتکار نے بتایا کہ جلاوطنی کے تجربے سے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف وہ کچھ نہیں سیکھ پائے جو آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے سیکھ لیا ہے۔ میں نے ان سے تفصیل چاہی تو انہوں نے صرف ایک لفظ کہا، 'توازن‘۔ توازن عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی ڈگمگاتی چیز پر یوں وزن برابر کرناکہ وہ ڈگمگانا بند کردے، جیسے ایک آہنی دائرے سے لٹکتے کئی پلڑوں میں وزن یوں کم زیادہ کرناکہ دائرہ کسی طرف بھی جھکنے نہ پائے۔ متوازن آدمی کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ باتیں تو کرتا رہتا ہے لیکن کسی کو ناراض نہیں کرتا۔ خیر، اس کے بعد کے واقعات میں آصف علی زرداری اور شہباز شریف کا کردار دیکھ کر مجھے 'توازن‘ کا لفظ باربار یاد آتا رہا۔ دونوں باہمی مفاد کا تعلق پیدا کرکے آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ شہباز شریف کے توازن کی بہترین مثال 2018 میں اس وقت نظر آئی جب نوازشریف اور مریم نواز لندن سے پاکستان آرہے تھے اورانہوں نے استقبالی جلوس کو مال روڈ سے آگے نہیں جانے دیا۔ نوازشریف اور مریم نواز گرفتار ہوکر جیل چلے گئے اور شہباز شریف الیکشن لڑنے میں مصروف ہوگئے۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے تووہ آصف علی زرداری کے ساتھ مل کردوبارہ توازن پیدا کرنے میں لگ گئے۔ ان کی کوششوں سے ہی نوازشریف جیل سے نکل کر لندن چلے گئے۔ مریم نواز بھی چلی جاتیں مگر عمران خان بھی نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی طرح توازن کھو بیٹھے۔ آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے سامنے یہ چیلنج تھاکہ سیاست کے دائرے سے لٹکے کئی پلڑوں کو یوں برابر کریں کہ ہر پلڑے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیا جائے۔دونوں میں توازن پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت نے ان کی دیگر تمام صلاحیتوں کا دبا دیا ہے۔ ان دونوں کا اندازکار اتنا محتاط ہے کہ اتنی احتیاط سے دنیا کا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ دونوں اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ پاکستان کوجہاں توازن کی ضرورت ہے وہیں جذبے کے ساتھ انتظامی، سیاسی، تعلیمی اورمعاشی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ اصلاحات کی ہمت دونوں میں نہیں۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے دونوں وہ ماہر فنکار ہیں جو شیشے کے نازک برتنوں کا انبار اٹھاکر رسی پر چلنے کا کرتب دکھاکر تماشائیوں کی داد تولے سکتے ہیں مگرعملی سطح پرکچھ بڑا کرنا ان کیلئے کار دیگر ہے۔ مثلاً اب آپ دیکھیں گے کہ شہبازشریف صبح سویرے اجلاس طلب کیا کریں گے، ہروہ کام کریں گے جووزیراعظم کے کرنے کا نہیں اوراس کی جزئیات تک سے باخبر ہوں گے‘ لیکن ایسی اصلاحات نہیں کریں گے جن کے تحت چھوٹے موٹے کام خود ہوتے رہیں، وزیراعظم پالیسی سازی پر توجہ دے سکے اور قوم کو مستقبل کیلئے تیار کرے۔اصلاحات کا دوررس کام جو عمران خان کرگئے، یہ اسے آگے چلانے پر توجہ نہیں کریں گے۔ ممکن ہے افسروں کی ترقی کیلئے جو معیار بڑی محنت سے پچھلی حکومت نے تیار کیے تھے، انہیں مکمل طورپر نظرانداز کرکے وہی شغل شروع کردیا جائے جو طویل عرصے تک پنجاب میں جاری تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی بہت بڑی مجبوری یہ بھی ہے کہ انہوں نے الیکشن جیت کر وزارت عظمیٰ نہیں سنبھالی بلکہ آصف علی زرداری کی مدد سے قومی اسمبلی میں ارکان اور سیاسی جماعتوں کی ترتیب ادل بدل کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ انہیں آئندہ الیکشن کیلئے بھی کام کرنا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ سترہ مہینے رہ گئے ہیں۔ اتحادیوں اورآئندہ الیکشن کے درمیان پھنسے ہوئے وزیراعظم کے طور پر وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کرسکتے جس کا اعلان انہوں نے کردیا ہے کہ پنشن بڑھادو، تنخواہیں بڑھادو، مخصوص دکانوں پر سستا آٹا رکھوا دو اور بس۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کی تائید کسی بھی معاشی ماہر کیلئے بڑی مشکل ہے کیونکہ ان سے ووٹ تو سمیٹے جاسکتے ہیں معیشت درست نہیں ہوسکتی۔ اس مالی سال میں بیس ارب ڈالرکے جس تاریخی جاری خسارے کا ذکر انہوں نے اپنی تقریر میں بڑی دردمندی سے کیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگرعالمی طورپر تیل اور اجناس کی منڈی میں قیمتیں نہ بڑھتیں تو یہ گیارہ بارہ ارب ڈالر ہوتا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) نے جب اپنے دور حکومت کے آخری سال میں انیس ارب ڈالر کا جاری خسارہ کیا تھا تویہ اس کی پالیسی تھی کیونکہ اس وقت تیل اور اجناس کی قیمتیں کمترین سطح پر تھیں۔ اگرمعاشی اعدادوشمار کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرکے انہوں نے اپنی سمت مقرر کرنی ہے تو یقین مانیے تھوڑی بہت مالیاتی چمک دمک کے بعد ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں 2018 میں کھڑے تھے۔ ہمارا روپیہ گررہا ہوگا اور ہم قرض کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہوں گے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کے اسباب کیا ہیں؟ ان کے حل کیلئے کیا منصوبہ بندی کرنی پڑے گی؟ دس برس بعد پاکستان کہاں ہوگا؟ ان مسائل سے شہباز شریف کا کوئی لینا دینا ہے نہ آصف علی زرداری کا۔ اگلے سال ڈیڑھ سال تک یہ شیشے کے برتنوں کا انبار لے کر رسی پر چل کرتماشائیوں سے تالیاں ہی بجواتے رہیں گے، اس سے زیادہ کوئی توقع ان سے نہیں رکھی جاسکتی۔ انہیں تو کرتب اور قیادت کے مابین فرق سمجھانا بھی مشکل ہے۔