"HAC" (space) message & send to 7575

تبدیلی آنہیں رہی…

سیاستدان کی کامیابی کا پیمانہ صرف حکومت میں ہونا یا نہ ہونا نہیں بلکہ ملک یا قوم کا جوہر تبدیل کرنا ہے۔ اس پیمانے پر دیکھیں تو عمران خان کم ازکم سیاست میں وہ تبدیلی لے آئے ہیں جس کا وہ دعوٰی کیا کرتے تھے۔ یہ منظر کب کسی نے پاکستان میں دیکھا تھاکہ ایک رات پہلے گھر بھیج دیے جانے والے وزیراعظم کے لیے ملک کے ہر شہر میں لوگ گھر سے باہر آکر اجتماعی طور پر قومی ترانہ پڑھنے لگیں؟ سوشل میڈیا پرغلط یا صحیح ایسی ایسی آوازیں سنائی دینے لگیں کہ الامان والحفیظ۔ ہمارے ملک میں جہاں رہبران قوم بے پناہ قوت اور پیسہ لگا کر جلسے نہیں کرپاتے وہاں یہ غیرمعمولی واقعہ ہے کہ لوگ خود ہی ہرشہر میں ایک مرکزی جگہ منتخب کرکے پہنچ جائیں اور مقصد کوئی تقریر سننا نہ ہوبلکہ محض اپنی سیاسی ترجیح کا اظہار ہو۔ یہ بالکل نئی چیز ہے کہ نکالا ہوا سیاسی لیڈر رمضان کے مہینے میں اور وہ بھی پشاور میں جلسے کا اعلان کرے تولوگ اس طرح چلے آئیں کہ پنڈال تو پنڈال اردگرد کی سڑکوں پر بھی جگہ نہ رہے۔ مزید حیرت اس بات پر ہے کہ عمران خان نے عوامی حمایت منظم بھی کی تو امریکا کی مخالفت اور پاکستان کی خودداری کے موقف پر۔ یہ تو اتنا گھسا پٹا موضوع ہے کہ ہمارے بڑے بھی یہی سنتے تھے، ہم بھی یہی سنتے بوڑھے ہو چلے مگر کسی نے اس پر کان نہیں دھرا۔ خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی سدا کی امریکا کے خلاف نعرے لگاتی ہے، جماعت اسلامی کے صالحین سترسال سے امریکی سرمایہ دارانہ نظام کو کوس رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے رندان مشرب بھی اپنے زوال میں امریکی سازشوں کے تانے بانے تلاش کرتے رہے ہیں، حتیٰ کہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف بھی دوہزارسات میں جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئے تھے تو ہر بات میں 'اغیار، اغیار‘ کرکے امریکا کو ہی الزام دیا کرتے تھے۔ یہ توعجیب ہوا کہ عمران خان نے کسی بھید بھاؤ کے بغیر ہی امریکا کی طرف انگلی اٹھائی تو پاکستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان کی آواز میں آواز ملانے لگا۔ عمران خان کا امریکا کو للکارنا اور ان کی آواز پر لاکھوں لوگوں کا سڑکوں پر آجانا، یونہی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ ان کی حکومت غیرملکی مداخلت کی وجہ سے گرائی گئی ہے۔ اس کے عالمی اثرات تو جو ہوں گے سو ہوں گے، یہ طے ہے کہ پاکستان کے اندر اس کے اثرات بہت دوررس ہوں گے۔ لوگوں کا ردعمل بتا رہا ہے کہ انہیں سمجھنے میں بہت سے لوگ غلطی کرگئے تھے اور اس غلطی کا ازالہ نئے الیکشن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، نیا ہے، تبدیلی کی علامت نہیں بلکہ تبدیلی کا ثبوت ہے۔ یہ قوم کی صحت مندی کی علامت ہے کہ اس کے لوگ اپنے سیاسی حقوق کا احساس دلانے کے لیے اکٹھے ہوں اور بغیر کسی پرتشدد کارروائی کے منتشر بھی ہوجائیں۔ یہ پاکستان میں جمہوریت کا ایک نیا سنگ میل ہے۔ یہ تبدیلی ہے۔ یہیں ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کا مستقبل کیا ہے؟
عمران خان اپنے ملک میں بیرونی مداخلت اور بالخصوص امریکی مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے والے پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں۔ ان سے پہلے کئی ملکوں میں یہ آوازیں اٹھیں، تحریکیں اٹھیں، لوگوں کو منظم بھی کیا گیا اور امریکہ مخالف حکومتیں بھی بنیں۔ امریکا نے ان سارے تجربات سے کچھ نہ کچھ سیکھ رکھا ہے اور کچھ نہ بھی سیکھا ہو تو کم ازکم اس کیلئے یہ نئی بات نہیں۔ جمہوری ملکوں میں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اس لیے امریکا پاکستان میں اپنے مفادات پر کچھ عرصے کیلئے صبر کرکے بیٹھ سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے یہ دنیا کے کئی ملکوں میں اپنی مخالفانہ حکومتوں پر صبر کیے رہا اور آخرکار ان حکومتوں کی ناکامی کے بعد اسے اپنے حامیوں کو اقتدار میں لانے کا بھی موقع مل گیا۔ جتنے بھی ملکوں میں امریکا مخالف حکومتیں بنیں اور گر گئیں، ان کے گرنے کی ایک وجہ ضرور امریکی ریشہ دوانیاں ہوں گی‘ لیکن ان کی ناکامی کا بنیادی سبب اپنے ریاستی نظام کو درست نہ کرنا ہی رہا۔ وینزویلا میں ہوگو شاویز، لیبیا میں معمر قذافی، عراق میں صدام حسین، مصر میں جمال عبدالناصر، افغانستان میں ملا عمر سبھی امریکا مخالف قوم پرست رہنما تھے۔ ان سب نے امریکا کے خلاف اپنی قوم کو یکسو کردیا مگر ان کی ناکامی کی اصل وجہ امریکا دشمنی نہیں، اپنے ریاستی اداروں کی کمزوری تھی جو ذرا سا دھچکا بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ یہ سب کے سب خود کو اپنی قوم کا واحد نجات دہندہ سمجھتے ہوئے کسی ادارے کا طاقتور ہونا گوارا ہی نہیں کرتے تھے‘ لہٰذا کسی مضبوط ریاستی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں ان کی پہلی غلطی نے ہی انہیں ہزیمت اٹھانے پر مجبور کردیا۔
تاریخ اور تجربے کی اس روشنی میں عمران خان بھلے وہ موقف رکھیں جس کا اظہار وہ کررہے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ دیں کہ انہیں خود کو حکومت کیلئے بھی تیار کرنا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت میں آکر بنیادی کام ریاست کا انتظام و انصرام بہتر بنانا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے انہیں برے حالات کیلئے تیار رکھنا ہے۔ مثلاً امریکی مخالفت اور اپنی خودداری پر اصرار بہت اچھی بات ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں معیشت پر توجہ نہ دی جائے، تعلیمی نظام کو بہتر نہ بنایا جائے، نقصان دہ سرکاری اداروں سے جان نہ چھڑائی جائے، انتظامی اور سیاسی اصلاحات نہ کی جائیں۔ ان کاموں کیلئے ضروری ہے کہ تحریک انصاف اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لیتی رہے۔ وفاق میں اپنے ساڑھے تین سالہ حکومتی تجربے سے سیکھے ہوئے سبق بار بار دہرائے اور خود کو صرف امریکا مخالف جماعت کے طور پر نہیں بلکہ ایک تجربہ کار اور حکومت کرنے کی اہل جماعت کے طور پر بھی لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت ملے تو قوم کو خودداری کا سبق دیتے دیتے کبھی نہ ختم ہونے والی ناداری میں جھونک دیا جائے۔ غریب و نادار قوم لمحاتی طور پر ہی خوددار ہوسکتی ہے، خودداری کو ایک مستقل طرز عمل کے طور پر اختیار کرنے کیلئے حکمرانوں کو تقریروں کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی کلچر کو بڑی حد تک بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کے امریکا مخالف رویے نے ہمارے ریاستی ڈھانچے میں ایک خاص طرح کا خوف بھی پیدا کردیا ہے۔ اس کا اظہار کبھی وزیراعظم شہباز شریف یہ کہہ کرکرتے ہیں کہ 'بھکاری کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا‘تو کبھی خواجہ آصف یہ فرما کر کرتے ہیں کہ 'ہماری معیشت امریکا کے بغیر نہیں چل سکتی‘۔ خوف اور احساس کمتری کی اس نفسیات کے ساتھ کوئی حکومت تو دور کی بات کوئی فرد بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ چونکہ نالائقی پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کا بھی طرہ امتیاز ہے اس لیے انہیں یہ بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ امریکی مدبراور سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا، 'امریکا کا دشمن ہونا خطرناک ہے لیکن امریکا کا دوست ہونا مہلک ہے‘۔ اس لیے امریکا کے ساتھ معاملات میں اپنی خود اعتمادی قائم رکھنا ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ اگر حکمرانوں کا موجودہ رنگا رنگ گروہ سمجھ سکے تو یہ سمجھے کہ عمران خان نے صاف لفظوں میں امریکا مخالف موقف اختیار کرکے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت ساری الجھنوں سے نکال دیا ہے۔ اب اگر شہباز شریف حکومت کو امریکا، یورپ یا کسی بھی ملک سے معاملات کرنے کا موقع ملتا ہے تو عمران خان کا پیدا کردہ دباؤ ان کے لیے بہت سی آسانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ کپتان کے بنائے ہوئے ماحول میں کوئی بھی ملک پاکستان سے غیرحقیقی توقعات نہیں رکھے گا بلکہ تعلقات بہتر بنانا اس کی اولین ترجیح ہوگی۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے کورنش بجالانے کا ہی طریقہ اختیار کیے رکھنا ہے توپھرتھوڑی بہت امداد مل جائے تو مل جائے پائیدار شراکت داری اور برابری کی بنیاد پر تعلق ممکن نہیں ہوسکتا۔ دنیا سے بہتر تعلقات کیلئے شہباز شریف کو بھی تھوڑا بہت عمران خان بننا ہی پڑے گا کیونکہ تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آچکی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں