"HAC" (space) message & send to 7575

شہباز شریف کی معاشی پالیسی

پاکستان میں مہینہ بھر پہلے جناب شہباز شریف کی سربراہی میں یکایک مقتدر ہو جانے والے اس گروہ خوش پوشاں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ تگڑم اور جگاڑ کے ذریعے جو حکومت انہیں میسر آئی ہے، وہی ان کے پاؤں کی بیڑی ہے۔ حکومتوں کیلئے کسی بھی معاشی حکمت عملی پر چلنے کیلئے اوّلین ضرورت صاف ستھری سیاسی ساکھ ہے۔ موجودہ حکومت کے تو اجزائے ترکیبی ہی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ انہیں وضع فطری کے خلاف ایک دوسرے سے گانٹھ دیا گیا ہے۔ اسے بنانے کیلئے جو خام مال استعمال ہوا‘ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی نے پرانے مکان کے ملبے سے نئی تعمیر کی ہو جس میں ایک اینٹ بھی سلامت نہیں۔ یہ تعمیر ایک کرتب کے طور پر تو قابل داد ہوسکتی ہے لیکن ایسے مکان کی مضبوطی پر کون بھروسہ کرے؟ اس کے علاوہ معاشی پالیسیوں کا پھل اٹھانے کیلئے وقت چاہیے۔ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت چودہ مہینے کا ہے‘ وہ بھی اس طرح کہ عمران خان سڑکوں پر جلد از جلد نئے الیکشن کا مطالبہ لیے پھر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل تو دور کی بات کوئی پکا سچا ماہرِ معاشیات بھی ہوتو کچھ نہیں کرسکتا۔ عمران خان اس نظام سے اپنا دباؤ ہٹا بھی دیں تو موجودہ حکومت حقیقی معاشی پالیسی کے بجائے الیکشن جیتنے کیلئے ضروری اقدامات پر ہی توجہ کرے گی۔ اس کا انجام یہ ہوگا کہ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ کچھ کرپائے تو بس اتنا کہ مانگ تانگ کے کچھ مزید قرضے ہم پر لاد جائیں گے۔
2018 میں جب اسد عمر نے وزیرخزانہ بن کر پہلا ضمنی بجٹ پیش کیا‘ تو اس خاکسار نے عرض کیا تھا، اس بجٹ میں کوئی نیا پن نہیں‘ اگر یہی تحریک انصاف کی معاشی پالیسی ہے تو بات ختم سمجھیے۔ اس کے بعد کورونا اور مہنگائی دنیا پر حملہ آور ہوگئے۔ ڈھائی سال گزرے، شوکت ترین وزیرخزانہ بنے تو معیشت میں حقیقی طور پر کچھ نیا پن پیدا ہونے لگا۔ ان کی وزارت سے عمران خان بھی کافی پُرامید تھے۔ شوکت ترین کو وزیرخزانہ مقرر کرنے کے چند دن بعد انہوں نے مجھے بتایاکہ اب انہیں ایسا وزیرخزانہ ملا ہے جو ایک آزاد معاشی پالیسی کیلئے جان لڑانا جانتا ہے۔ اگر سیاست کے دیوتاؤں کی تلون مزاجی آڑے نہ آتی تو پارلیمنٹ کی باقی ماندہ مدت میں کافی بہتری آجاتی۔ سابق حکومت کی معاشی پالیسی کافی توڑپھوڑ کے بعد ترتیب پائی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی بارکوئی پالیسی مقامی طورپر بنانے کی کوشش ہورہی تھی۔ اس کے مقابلے میں موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل دوبڑی جماعتوں، یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جو معاشی پالیسی ہے وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک کی ترکیب یہ ہے کہ درآمدات کے راستے کھول کر جی ڈی پی میں اضافہ کرو تاکہ گرمئی بازار سے معیشت ٹھیک ہونے کا شائبہ دیا جاسکے۔ دوسری کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو کچھ نہ کچھ تو ہوہی جائے گا۔ اب خزانے پروہ مامور ہیں جن کا سارا زور گرمئی بازار پر ہے۔ معیشت کیا ہے، اسے کیسے درست کرنا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں معاشی خودمختاری کے راستے پرچلیں، یہ ان کی ترجیح ہے نہ میرے خیال میں وہ یہ جانتے ہیں۔
پاکستانی معیشت کے بارے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ 1950 میں ہی اس کی ترقی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے ساتھ جوڑدی گئی تھی۔ کسی کو برا نہ لگے تو صاف لفظوں میں عرض ہے کہ ہم بات مانیں گے تو ٹھیک رہیں گے ورنہ مصیبت میں رہیں گے۔ ہم نے طویل عرصے تک خود کچھ کرنے کے بجائے دراصل اپنی خارجہ پالیسی کے طفیل ہی تھوڑی بہت عیاشی کی ہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو کے عوض کچھ کما لیا۔ اسّی کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ہوکر کچھ بنالیا اور پرویز مشرف کے دور میں ایک بار پھر افغانستان میں اپنی خدمات کے عوض چاردن اچھے دیکھ لیے۔ عمران خان حکومت پر جو معاشی افتاد پڑی، اس کے نتیجے کے طور پرمارے باندھے ہی سہی کچھ بنیادی اصلاحات کی گئیں، جن میں روپے کی قدر کو نسبتاً آزاد چھوڑنا، سٹیٹ بینک کی خودمختاری، درآمدات پر آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی پابندیاں اور مقامی پیداوارکو بڑھانے کیلئے تھوڑا بہت زور لگانا شامل ہیں۔ ان اصلاحات کا فائدہ یہ ہواکہ ہماری برآمدات مسلسل بڑھنے لگیں۔ آئی ٹی کی برآمدات تو کئی گنا بڑھ گئیں۔ پاکستان میں لوگوں نے کارخانے لگانے کا سوچنا شروع کیا۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے بینکوں کے ذریعے پیسہ بھیجا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہلکی پھلکی امید دِکھنے لگی۔ یہ خوش گمانی بھی ہوچلی تھی کہ اب کمپیوٹر کے ڈیٹا کی مدد سے ٹیکس چوروں سے وصولیاں ہوں گی اوروہ تاجر جواسی ملک سے کھاتے کماتے ہیں کچھ نہ کچھ ملکی خزانے میں بھی ڈالنے لگیں گے۔ یہ سارے کام ہورہے تھے کہ وہ منتر پڑھے جانے لگے جن کے تاثیر سے حکومتیں گرجاتی ہیں۔
پاکستانی معیشت پرکوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ اس میں ایک بات واضح لکھی ہے کہ موجودہ بیوروکریسی اور پاکستانی معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کا موجودہ ڈھانچہ سرے سے معاشی ترقی کیلئے بنا ہی نہیں۔ عمران خان اپنے نئے پاکستان میں بھی اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کر پائے؛ البتہ انہوں نے یہ انتظام ضرور کرلیا کہ ہرافسر صرف سینئر ہوجانے کی بنیاد پرترقی نہ پائے۔ اس طرح کسی حد تک افسروں میں کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ ان کے برعکس نئے وزیراعظم نے چند دن پہلے لاہور میں ریٹائر ہوجانے والے پرانے افسروں کے ساتھ بیٹھک کی۔ اس بیٹھک میں جس موضوع پر بھی بات ہوئی ہو، اس کا اصل پیغام یہ تھا کہ بیوروکریسی میں سیاسی رہنماؤں کی پسندو ناپسند کا سلسلہ بحال کردیا گیا ہے۔ پیچھے کی طرف چل پڑنے کے اس عمل سے معاشی ترقی تودور کی بات کسی بھی قسم کی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اس بیٹھک کے بعداب صرف یہ خبر آنا باقی ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پرافسروں کی ترقی کا جونظام عمران خان نے متعارف کرایا تھا وہ ختم کردیا گیا ہے۔ تملق و خوشامد ایک بار پھر رائج الوقت اہلیت کے طور پربحال کردیے گئے ہیں‘ لہٰذا معیشت اہم نہیں رہے گی بلکہ حکمرانوں کے پسندیدہ منصوبے اہمیت اختیار کرجائیں گے۔
معاشی حوالے سے عمران خان پرتو الزام تھاکہ وہ نااہل ہیں، ان کی ٹیم نالائق ہے لیکن موجودہ بندوبست کے تحت جن لوگوں نے حکومت سنبھالی ہے ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حق یہ ہے کہ یہ اتنے ہی نالائق اور بے ہنر ہیں جتنے ان سے پہلے والے تھے بلکہ بعض معاملات میں تو کچھ بڑھے ہوئے ہیں۔ جب سے انہوں نے موجودہ بندوبست کے تحت حکومت سنبھالی ہے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے معیشت پر ڈھنگ سے بات کی ہو۔ ایک کے بعد ایک ٹائی کوٹ ڈانٹے یا واسکٹ جھلاتے آتا ہے اور لایعنی اعدادوشمار بول کے اپنی یاوہ گوئی کو معاشی پالیسی قرار دینے کی کوشش کرکے چلا جاتا ہے۔ مسلسل بڑھتے ہوئے افراط زر کا کیا کرنا ہے؟ درآمدات و برآمدات میں توازن پیدا کرنے کی کیا سبیل ہے؟ بیروزگاری کا علاج کیا ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ عمران خان کوتو آتے ہی کورونا اور تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے آلیا تھا، لیکن اب اسلام آباد میں جو انبوہ ملزمان و رہبرانِ ملت وارد ہوا ہے اسے تو کورونا سے واسطہ نہیں پڑا، اس کے سرخیلوں کوتو مسیحائی کا دعویٰ بھی ہے۔ ایک مہینہ ہوچکا، انہوں نے کیا کرلیا، بس وہی جو ہم کرتے آئے ہیں کہ اقتدار سنبھالواور کشکول ہاتھ میں لے کر نکل پڑو۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کی مبلغ معاشی پالیسی یہ ہے کہ سال دو سال مصنوعی سی خوشحالی ہو، چاہے خسارہ بڑھتا چلا جائے۔ جب حالات قابو سے باہر ہوجائیں توپھر اقتدار کسی دوسرے کے متھے مارو کہ وہ اب ان سے لڑتا رہے۔ خود آرام سے لندن جابیٹھو اور پاکستان کا رونا روتے رہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں