ڈنمارک کے شاہی خاندان کے اس نوجوان شہزادے کو کسی نے بتا دیا تھا کہ اس کا باپ طبعی موت نہیں مرا بلکہ اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ بھائی نے صرف اپنے بھائی کو قتل ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کے تخت پر قبضہ کر کے اس کی بیوی کو بھی اپنا لیا تھا یوں شہزادہ جو اپنے باپ کا جانشین تھا‘ اب اپنے چچا کے لے پالک کے طور پر زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے باپ کا جوکچھ تھا اب چچا کے قبضے میں تھا۔ اگرچہ اس کی ماں اور چچا اس سے بے حد محبت کرتے تھے لیکن دل میں پڑی اس گرہ کا وہ کیا کرتا۔ کبھی سوتیلے باپ اور سگی ماں کی محبت سچی لگتی اور سب باتیں جھوٹی۔ کبھی دل میں نفرت کی اتنی شدید لہر اٹھتی کہ اسے خود پر قابو ہی نہ رہتا۔ چچا کا کوئی اور بچہ نہیں تھا اس لیے اس کی توجہ کا مرکز وہی نوجوان بھتیجا تھا جسے وہ اپنے جانشین کے طور پرتیار کرنا چاہتا تھا مگر اس نوجوان کے دل میں اتنا غبار تھا کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے بارے میں مثبت نہیں سوچ پاتا تھا۔ ان کی محبت کے ہر اظہار کے پیچھے اسے کوئی نہ کوئی غرض نظر آتی اور ہر نصیحت میں اپنی بربادی کا سامان۔ چچا کے قاتل ہونے یا نہ ہونے کے سوال نے اسے اتنا الجھا دیا کہ دنیا کی ہرچیز سے اس کادل اچاٹ ہوگیا۔ اپنی ماں کو بے وفا جان کر دنیا کی ہر عورت اس کے نزدیک بے وفا نہیں تو ناقابل ِاعتماد ضرور تھی۔ جن لوگوں نے اسے الجھن سے نکالنے کی کوشش کی‘ وہ ان کے سامنے پاگلوں جیسی حرکتیں شروع کردیتا۔ باتوں کے دوران کبھی تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا اور کبھی بندر کی طرح کسی الماری پر چڑھ کر سنجیدہ گفتگو کرنے لگتا۔ یہ دیکھ کر سب اس کی ذہنی صحت کے بارے میں مشکوک ہوگئے۔ بڑی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ اس کے دل میں اُگے شک کے جنگل میں ہوش و حواس گم ہو چکے تھے۔ مستقبل میں دیکھنے کے بجائے وہ ماضی کے ایک ایسے واقعے کا اسیر ہوچکا تھا جس کی صداقت کے بارے میں خود اسے بھی یقین نہیں تھا۔ اپنی ماں اور سوتیلے باپ سے براہ راست بات کرنے کے بجائے اسے خود کلامی کا مرض لاحق ہو گیا۔ پھر اسے فضا میں تصویریں نظر آنے لگیں جن سے وہ باتیں کرتا۔ وہ نوجوان جسے بادشاہ بننا تھا‘ اپنے آپ پر ہی اختیار کھو بیٹھا۔ اپنے تصورات میں کھو کر اس نے اپنے سوتیلے باپ کے قتل کی ٹھان لی۔ وہ خنجر لے کر اپنے ہی گھر میں ایک جگہ چھپ کر کھڑا ہو گیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب اس کی ماں کا خاوند یہاں سے گزرے تو وہ اسے مارڈالے۔ پردے کے قریب آہٹ سن کر اس نے وار کیا لیکن اس کا نشانہ چچا کا قریبی دوست بن گیا۔ تقدیر کا تیر کمان سے نکل کر اس الجھے ہوئے نوجوان کے روشن مستقبل میں پیوست ہوچکا تھا۔ اس کا الجھاؤ اسے زندگی کی نسبت موت کے زیادہ قریب لے گیا۔ اس کے ساتھ وہی ہوا جو بے مقصد الجھنے والوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں قتل ہوجانے والے شخص کے بیٹے کی تلوار کا نشانہ بن گیا۔ وہ شہزادہ جو ڈنمارک کی شان تھا‘ شیکسپیئر کے ڈرامے ہملٹ میں بے کسی‘بے بسی اور بے یقینی کا استعارہ بن گیا۔ اس لافانی ڈرامے کا یہ کردار وقت اور جغرافیے کی ہر سرحد پھلانگ کر آفاقی ہوگیا۔ یہ شیکسپیئر کی عظمت کا اعتراف ہے کہ آج بھی تذبذب‘ بے یقینی اورفیصلہ نہ کرپانے کی انتہائی کیفیت کو ہملٹ کے مخمصے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہملٹ کا سا تذبذب آج آپ نے کہیں دیکھنا ہو تواپنے وزیراعظم شہباز شریف کو دیکھ لیجیے۔ جب سے اقتدارمیں آئے ہیں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کچھ بگڑ جانے کا خوف اب تو ان کے چہرے سے بھی ظاہر ہونے لگا ہے۔ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ جانے کہاں جا سوئی ہے کہ کبھی رہنمائی لینے لندن چل پڑتے ہیں اور کبھی اسلام آباد میں آصف علی زرداری یا مولانا فضل الرحمن سے مشاورت شروع کردیتے ہیں۔ لندن سے آئی رہنمائی سے انہیں راستہ مل رہا ہے نہ مشاورت کا چراغ راہیں روشن کر پارہا ہے۔ شہبازشریف اگر ناتجربہ کار ہوتے تو شاید فیصلوں میں تاخیر برداشت بھی ہوجاتی۔ زیادہ پریشانی اسی لیے ہے کہ انہیں تواس نظام کے شناور ہونے کا دعویٰ تھا۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم کو مشورے سے چلنا ہے لیکن شہباز شریف مشورے کرتے تو دکھائی دیتے ہیں‘ چلتے ہوئے نظرنہیں آتے۔ شاید ہملٹ کی طرح انہیں خود پر اعتماد رہا ہے نہ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر۔ انہیں بھی شاید ایک طرف کنواں نظر آتا ہے تو دوسری طرف کھائی اور انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنی جگہ کھڑے رہیں گے تو شاید بچ جائیں گے۔ کاش کوئی انہیں سمجھا دے کہ تاریخ ہمیشہ حرکت میں رہتی ہے۔ اس میں بے عملی سے بڑی غلطی کبھی نہیں ہوئی۔
ایک طرف وزیراعظم فیصلہ نہیں کرپارہے تو دوسری طرف عمران خان اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد اپنے فیصلوں سے حکومت کے اعصاب شل کیے ہوئے ہیں۔ اس فضا میں حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہر کسی کا ہر کسی سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کو یہ ڈر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کہیں حکومت چھوڑ کر نہ چل پڑے اور نتیجتاً اسے سندھ حکومت سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔ مسلم لیگ (ن) کو یہ ڈر کھائے جارہا ہے کہ حکومت میں آکر اگلا الیکشن بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ایم کیو ایم کو تحریک انصاف کے مقابلے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی مصیبت سانس نہیں لینے دے رہی۔ عمران خان کی مخالفت نے جس رسی سے انہیں باندھ کر اپوزیشن سے کھینچ کر حکومتی نشستوں پر لا بٹھایا تھا‘ اس کے دھاگے بھی نکلنے لگے ہیں۔ ہرکوئی حکومت میں رہنا بھی چاہتا ہے مگر ذمہ داری نہیں لینا چاہتا۔ کوئی اتنا تھک ہار چکا ہے کہ ملنے جلنے والوں کو علائق ِدنیا سے دور رہنے کے مشورے دیتا ہے اور اپنی زندگی کے آخری سال گوشۂ گمنامی میں گزارنے کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ ہر وہ شخص جس سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ معاملات کو آگے بڑھائے گا‘ کان لپیٹ کر ایک طرف ہوچکا ہے۔
سیاست کے میدان میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ فیصلہ نہ کریں تو کوئی اور بھی نہیں کرے گا۔ موجودہ اتحادی حکومت نے عمران خان کو اقتدار سے نکال تو دیا مگرحیرت انگیز تیزی سے انہوں نے ردعمل کی سیاست کرنے کے بجائے جارحانہ انداز میں خود کو ایک طاقتور فریق بنا لیا۔ ان کی حکمت عملی کا جواب شہباز شریف کو دینا تھا۔ ان سے جس انداز میں کام کی توقع تھی‘ وہ پوری نہیں ہوئی تو فیصلوں کا مرکزبھی کہیں اور منتقل ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب وزیراعظم کی حیثیت فیصلہ ساز کی نہیں بلکہ پیغام رساں کی ہوکررہ گئی ہے۔ ان کے پاس تازہ پیغام یہ ہے کہ وہ اپنے حلیفوں سے عمران خان کو محدود کرنے کے لیے نواز شریف کے نام پر مدد طلب کریں۔ اگرحلیف یہ مدد فراہم کردیں تو ٹھیک ورنہ مسلم لیگ (ن) بھی نئے الیکشن کی طرف جائے گی۔ یہ پیغام اور یہ حکمت عملی دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ موجودہ بندوبست عمران خان کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کرپارہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا دباؤ فی الوقت حکومتی فیصلوں کی بنیاد بن چکا ہے۔ تیل کی قیمتیں اس لیے نہیں بڑھ رہیں کہ عمران خان مخالفت کریں گے۔ آئی ایم ایف سے اس لیے بات نہیں ہو پارہی کہ عمران خان جلسے کررہے ہیں۔ دوست ملک اس لیے مدد نہیں کررہے کہ عمران خان کی وجہ سے حکومت عدم استحکام کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگرہر فیصلے کی بنیاد عمران خان کا ردعمل ہے تو پھر انہیں حکومت سے نکالا کیوں تھا؟ اب انہیں روکنا ہے تو بظاہر الیکشن کے سواکوئی راستہ نہیں۔ الیکشن کے علاوہ کسی طریقے سے انہیں روکنا کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر فی الحال یہ کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ میری خبر تو یہ ہے کہ ہرقاصد جو بنی گالہ جاتا ہے‘ افسردہ واپس آتا ہے۔
ادب شناس لوگ بتاتے ہیں کہ ہملٹ کا حقیقی المیہ یہ تھا کہ اس نے شہزادہ اور ولی عہد ہونے کے باوجود بھی اپنی بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کے ہملٹ کا المیہ تو شاید اس سے بھی بڑا ہے کہ اس نے حکومت بھی لے لی‘ مگر کچھ بھی نہ کرکے اپنا نقصان مسلسل کیے جا رہاہے۔