حضرت عمرو بن امیہ ضمری واقعہ بئر معونہ کے بعد واپس مدینہ آ رہے تھے۔ مدینہ سے کچھ فاصلے پر انہیں دو آدمی ملے جو عامر بن طفیل کے قبیلے بنو کلاب میں سے تھے۔ حضرت عمرو بن امیہؓ، عامر اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر نازل ہونے والی ناگہانی مصیبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور انتقامی جذبات سے مغلوب تھے۔ موقع پا کر انہوں نے ان دونوں کو قتل کر دیا۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے جہاں بئر معونہ کا واقعہ بیان کیا وہیں اپنے ہاتھوں قتل ہونے والے بنو کلاب کے دو افراد کا بھی تذکرہ کیا۔ آنحضورؐ نے بئر معونہ کے شہداء کی خبر جبریل کی زبانی پہلے بھی سن لی تھی۔ اب مزید حالات معلوم ہوئے تو آپ کو بہت صدمہ پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے حضرت عمرو بن امیہؓ سے کہا کہ ''تم نے بہت برا کیا کہ ان دو آدمیوں کو قتل کر دیا حالانکہ میں انہیں امان دے چکا تھا۔‘‘
آنحضورؐ نے دونوں مقتولین کا خون بہا اسلامی حکومت کی طرف سے ادا فرمایا اور یہ رقم ان کے ورثاء کو بھجوا دی۔ اس اسوۂ نبوی سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی، اپنے وعدہ کا پاس اور اپنے اصولوں کی پابندی بندۂ مومن کی بنیادی صفت ہے۔ سخت ترین غم اور غصے کی حالت میں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اسلام ہی کی امتیازی شان ہے۔ عامر بن طفیل نے جو مذموم حرکت کی تھی اس کا ابوبراء کو بھی بڑا افسوس تھا اور سیرت الحلبیہ کے مصنف علی بن ابراہیم کے بقول وہ اس واقعہ کے بعد شرم اور ندامت کے مارے اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو گیا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مر گیا۔ ابوبراء کے بیٹے ربیعہ بن عامر بن مالک نے اپنے چچا زاد عامر بن طفیل کے ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور قبیلے کی مجلس میں اس پر نیزے سے حملہ آور ہوا۔ اگرچہ یہ حملہ ناکام رہا کیونکہ لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے نیزے کا وار ٹھیک ہدف پر لگنے کی بجائے عامر بن طفیل کی ران میں لگا۔ عامر بن طفیل کو بھی اپنی حرکتِ شنیعہ کا احساس ہو گیا تھا۔ جب قبیلے کے لوگوں نے ربیعہ کو پکڑ کر اس کے سامنے پیش کیا تو اس نے کہا کہ اگر میں مر بھی گیا تو اس سے میرا قصاص نہ لینا۔ میرا خون میرے چچا زاد کی نذر سمجھنا۔
ربیعہ بن مالک کے بارے میں تقریباً تمام مؤرخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ وہ آنحضورؐ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے تھے اور اس درد ناک واقعہ پر آنحضور سے تعزیت بھی کی تھی اور اپنی اور اپنے والد کی طرف سے معذرت بھی پیش کی۔ ابو براء اور ان کے بیٹے ربیعہ کے بارے میں امام دارقطنی نے لکھا ہے کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے اور صحابہ کی جماعت میں شامل تھے۔ یہی بات امام بغوی اور دوسرے مؤرخین نے لکھی ہے جبکہ بعض مؤرخین نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے۔ ہماری رائے میں یہی قول درست ہے کہ یہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے۔
عامر بن طفیل بن مالک بن جعفر کلابی عامری حالت کفر میں مرا مگر بعض لوگ حضرت عامر بن طفیل صحابی کے نام سے مشابہت کی وجہ سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ عامر بن طفیل صحابی قبیلہ اسلم میں سے تھے اس لیے ان کے نام کے ساتھ اسلمی اکثر مؤرخین نے لکھا ہے۔(سیرۃ ابن ہشام، القسم الثانی، ص۱۸۳-۱۸۷، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، ص۷۰۹-۷۱۱)
واقعہ رجیع (صفر ۴ ہجری)
جس وقت بئر معونہ کی طرف ستر صحابہ گامزن تھے اسی وقت چھ دیگر صحابہ عضل اور قارہ (ھون بن خزیمہ کی دو شاخیں) کے وفد کی درخواست پر رجیع کی طرف رخت سفر باندھ چکے تھے۔ مؤرخین کے مطابق عضل اور قارہ کے وفد نے آنحضور کی خدمت میں آ کر عرض کیا تھا کہ ہمارا قبیلہ مسلمان ہو چکا ہے مگر اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے۔ آپ ہمارے ساتھ کچھ ایسے صحابہ بھیج دیں جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیں اور اسلامی اصول و مبادی سے واقفیت بہم پہنچائیں۔ آنحضورؐ نے ان کی درخواست پر ایک وفد تشکیل دیا۔ ارکان وفد کی تعداد اور امیر وفد کے بارے میں تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ وفد چھ صحابہ پر مشتمل تھا۔ (یہ تعداد آٹھ اور دس بھی بیان کی گئی ہے) وفد کے امیر حضرت عاصم بن ثابت تھے۔ (حضرت مرثد بن ابی مرثد کا نام بھی بعض حوالوں میں بطور امیر لکھا گیا ہے)
وفد کے تمام ارکان اہلِ علم و عرفان اور صاحب شمشیر و سنان تھے۔ جب یہ لوگ قبیلہ ذھیل کے چشمے ذات الرجیع پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو ان کے ساتھ غدر کیا گیا، جو انسانی تاریخ کا بدترین اور مذموم ترین غدر تھا۔ انہیں اپنے ساتھ لانے والے سازش تیار کرکے گئے تھے جسے رجیع کے مقام پر عملی جامہ پہنایا گیا۔ صحابہ کرام نے چشمے کے قریب اطمینان سے قیام کیا مگر اچانک ہر جانب سے اپنے آپ کو حملہ آوروں کے نرغے میں پایا۔ حملہ آور انہیں زندہ گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ ان حالات سے بے خبر صحابہ کرام جب اس ناگہانی مصیبت میں گھر گئے تو ان کے امیر عاصم بن ثابتؓ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور فرمایا کہ اگرچہ ہم جنگ لڑنے کے لیے نہیں آئے تھے مگر جنگ ہمارے اوپر مسلط کر دی گئی ہے۔ اپنی تلواریں نکال لو اور پا مردی سے دشمن کا مقابلہ کرو۔ صحابہ کرام ایک ٹیلے پر چڑھ گئے تھے۔ جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ کوئی پیش نہیں جارہی تو انہوں نے کہا کہ ہم تم لوگوں کو امان دیتے ہیں اور اﷲ کی قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ حضرت عاصمؓ نے فرمایا کہ ہم کسی مشرک کی امان قبول نہیں کرتے اور نہ تمہارے عہد کا ہمیں کوئی اعتبار ہے۔ اس کے بعد ان چھ جانثاران نبوی پر مشرکوں نے ہر جانب سے حملہ کردیا۔
حضرت مرثد بن ابی مرثدؓ ، خالد بن بکیرؓ، عاصم بن ثابتؓ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے جبکہ حضرت زید بن دثنہؓ، خبیب بن عدیؓ اور عبداﷲ بن طارقؓ قید کر لیے گئے۔ ان میں سے بھی حضرت عبداﷲ بن طارقؓ راستے میں اپنے ہاتھوں کو زنجیروں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے اور ایک دشمن سے تلوار چھین کر حملہ کر دیا۔ باقی دونوں قیدیوں کو مضبوطی سے باندھا ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو زنجیروں کی قید سے آزاد نہ کر سکے۔ مشرکین نے حضرت عبداﷲ کے ساتھ رو در رو تلوار سے لڑائی لڑنے کے بجائے ان سے دور بھاگ کر انہیں پتھر مار مار کر شہید کر دیا۔ یوں یہ صحابی مکہ پہنچنے سے پہلے شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت مرالظہر ان کے مقام پر ہوئی۔ وہیں ان کی لحد مبارک ہے۔
حضرت عاصم بن ثابتؓ بڑے مشہور جنگجو تھے۔ بدر اور احد میں ان کی شمشیر خارا شگاف نے دشمنانِ خدا کے گلے خوب کاٹے تھے۔ وہ ماہر تیر انداز بھی تھے، انہوں نے احد کی جنگ میں قریش کے دو علمبرداروں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا تھا، جس کی تفصیل تاریخ اسلام میں اور سیرت کی کتب میں درج ہے۔ مقتولین کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ عاصم کے سر کی کھوپڑی میں شراب پی کر اپنے مقتول بیٹوں کا انتقام لے گی۔ اس خاتون سلافہ بنت سعد نے حضرت عاصمؓ کے سر کی بھاری قیمت مقرر کی ہوئی تھی۔ حضرت عاصمؓ بھی اس بات سے بے خبر نہیں تھے۔ شہادت سے پہلے انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے کہا کہ ''یا اﷲ یہ سر تیری ہی امانت ہے، تیری راہ میں یہ حاضر ہے مگر میری ایک آرزو ہے کہ شہادت کے بعد کوئی مشرک میرے جسم کو ہاتھ نہ لگا سکے۔‘‘ شہادت کے بعد مشرکین ان کا سر کاٹنا چاہتے تھے مگر عین اسی لمحے شہد کی مکھیوں کا بہت بڑا غول پہاڑی درختوں اور جھاڑیوں سے اڑا اور حضرت عاصمؓ کے جسد اطہر پر منڈلانے لگا۔ مشرکین کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انہوں نے سوچا کہ شام کو مکھیاں اپنے چھتے میں چلی جائیں گی تو سر کاٹ لیں گے۔ صاف شفاف آسمان پر اچانک ایک کالی گھٹا نمودار ہوئی جس کے بعد موسلادھار بارش شروع ہو گئی، وادی پانی سے بھر گئی اور تیز رفتار پانی اﷲ کے بندے کی آرزو پوری کرتا ہوا اسے بہا کر نامعلوم مقام کی طرف لے گیا۔ دشمن منہ دیکھتے رہ گئے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے جگہ جگہ اپنے جنود (لشکروں) کا ذکر کیا ہے۔ یہ لشکر زمین و آسمان میں ہر جانب پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بعض اوقات لوگوں کو نظر آتے ہیں اور بعض اوقات نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ وہ اﷲ کے حکم کے مطابق اپنا کام کرتے ہیں۔ ان کی اثر آفرینی بے پناہ اور ان کی قوت کار بے مثال ہوتی ہے۔ اﷲ کا بندہ اگر یقین کامل کے ساتھ اﷲ کی راہ میں چل نکلے تو قدم قدم پر یہ لشکر اس کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
''وما یعلم جنود ربک الاہو‘‘۔(المدثر آیت ۳۱)
اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
حضرت عاصمؓ کا مقام اسلامی تاریخ میں بڑا بلند ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کے خسر تھے۔ آنجناب کے بیٹے عاصم بن عمر بن خطابؓ حضرت عاصم بن ثابتؓ کے نواسے تھے۔ یہی عاصم بن عمرؓ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے نانا تھے۔ (جاری)