صحابہ کرامؓ نے ہر مشکل گھڑی میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ کچھ خوش بخت تو وہ تھے ‘جو زندگی کا طویل حصہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ سرگرم عمل رہے۔ بعض وہ سعید روحیں بھی تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں ‘جو چند لمحات حبیب کبریاؐ کے ساتھ گزار کر جنت مکین ہوگئیں۔ واہ سبحان اللہ! قبیلہ اوس کا عظیم سپوت عمروبن ثابتؓ بھی تاریخ کے ماتھے پر جگمگارہا ہے۔
اس خوش قسمت انسان کا قصہ نہایت عجیب اور حیران کن ‘مگر انتہائی ایمان افروز اور قابل رشک ہے۔ اس کا تعلق قبیلہ بنو اوس کی شاخ بنو اشہل سے تھا‘ اسے اسلام سے شدید نفرت تھی اور وہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو قبول اسلام پر ملامت کرتا رہتا تھا۔ جنگ ِاحد کا اعلان ہوتے ہی اﷲ تعالیٰ نے اس کا دل اسلام کی طرف راغب کر دیا۔ مسلمان احد میں پہنچ چکے تھے کہ یہ سامان جنگ لے کر ان کے بعد میدان میں وارد ہوا۔ دوران جنگ بڑی ثابت قدمی سے لڑا۔ لوگ اس کی شجاعت کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جب انہوں نے اسے پہچانا تو انہیں مزید تعجب ہوا۔ وہ اُصَیْرَم کے نام سے بھی معروف تھے۔ ان کے قبیلے کے لوگوں نے پوچھا: ''اے عمرو... تو نے آج کمال کر دیا ہے‘ مگر یہ تو بتا کیا تو اپنے لوگوں کے ساتھ قبائلی عصبیت کی وجہ سے شامل ہوگیا ہے یا تو نے اسلام قبول کر لیا؟‘‘۔
عمرو بن ثابتؓ نے جواب دیا: ''میں اﷲ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آیا ہوں اور اسلام قبول کرنے کے بعد ہی میدان جنگ میں پہنچا ہوں۔ میں نے یہ زخم اﷲ ہی کی راہ میں کھائے ہیں۔‘‘ عمروؓ بن ثابت شدید زخمی تھے۔ یہ گفتگو کرتے کرتے لوگوں کے ہاتھوں میں انہوں نے جان دے دی۔ حضور اکرمؐ نے ان کا واقعہ سنا تو فرمایا: ''وہ یقینا اہل جنت میں سے ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ '' اصیرم اہل جنت میں سے ہے ‘مگر اس نے نہ تو کوئی نماز پڑھی اور نہ ہی روزہ رکھا۔‘‘ (محمد احمد باشمیل‘ غزوۂ احد بحوالہ سیرت الحلبیہ اور البدایہ و النہایہ)۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن حرامؓ خزرج کی شاخ بنو سلمہ کے سردار تھے۔ مشہور صحابی حضرت جابرؓ انہی کے فرزند تھے۔ شہادت کے بعد کفار نے ان کا مثلہ کر دیا تھا۔ ان کی بہن ہند بنت عمروؓ اور ان کے بیٹے جابر بن عبداﷲؓ نے ان کا یہ حال دیکھا تو بے اختیار رونے لگے۔ اس موقع پر نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ''تم لوگ تو رو رہے ہو‘ مگر عبداﷲؓ کے اوپر اﷲ کے فرشتوں نے سایہ کر رکھا ہے۔‘‘ (بخاری‘ مسلم اور نسائی)
حضرت قتادہؓ ‘ آنحضورؐ کے جانثار صحابی تھے‘ جنگ احد میں جہاں دیگر صحابہ نے حضورؐ کا دفاع کیا وہاں حضرت قتادہ کو بھی یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے آنحضورؐ کی کمان سے دشمن پر تیز اندازی کی اور اس قدر تیر چلائے کہ کمان کی تانت ٹوٹ گئی‘ مگر کمان ٹوٹ جانے کے بعدبھی حضرت قتادہؓ دشمنوں کے تیر روکنے کے لیے آنحضور کے سامنے کھڑے رہے۔ ایک تیر حضرت قتادہؓ کی آنکھ میں آلگا اور ان کی آنکھ کا ڈھیلا نکل کر ان کے گال پر آرہا۔ آنحضورؐ نے جو یہ صورتحال دیکھی تو آپ کو بڑا دکھ پہنچا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''اے قتادہ! اگر تو چاہے تو اپنی آنکھ کی شہادت پر صبر کرلے اور اﷲ تعالیٰ تجھے جنت عطا فرمائے گا‘ لیکن اگر تیری خواہش ہو تو میں تیری آنکھ کا ڈھیلا واپس تیری آنکھ میں رکھ دیتا ہوں۔‘‘ حضرت قتادہؓ نے عرض کیا: ''یارسول اﷲ جنت تو بہت ہی اچھا بدلہ ہے‘ مگر میری خوبصورت بیوی ہے‘ جو مجھے بھی خوبصورت دیکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے آپ میری آنکھ واپس لوٹا دیں۔‘‘ چنانچہ نبی اکرمؐ نے ان کی آنکھ کا ڈھیلا ان کی آنکھ کے اندر رکھ دیا اور ان کے حق میں دعا بھی کی۔
آپ کی دعا کے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: ''اے اﷲ! قتادہ کے حسن و جمال کو دوبالا کر دے۔ اے اﷲ ! تو قتادہ کی اس طرح حفاظت فرما ‘جس طرح اس نے تیرے نبی کی حفاظت کی ہے۔ اے اﷲ ! قتادہ کی اس آنکھ کو نہایت حسین اور نہایت دوربین بنا دے۔‘‘ اس واقعہ کے بعد حضرت قتادہ کی یہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ بصارت رکھتی تھی۔ دوسری آنکھ جھپکتی تھی‘ جبکہ یہ جھپکتی نہ تھی۔
شوقی ابوخلیل نے اپنی کتاب غزوئہ اُحد میں ابن کثیر اور دیگر مستند مؤرخین کے حوالے سے اصمعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت قتادہ کی اولاد میں سے ایک شخص حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا: ''تم کون ہو؟‘‘ اس نے فی البدیہہ جواب دیا:؎
اَنَا ابْنُ الَّذِیْ سَاَلَتْ عَلَی الْخَدِّ عَیْنُہٗ
فَرُدَّتْ بِکَفِّ الْمُصْطَفٰی اَحْسَنَ الرَّدّٖ
فَعَادَتْ کَمَا کَانَتْ لِاَوَّلِ اَمْرِھَا
فَیَا حُسْنُھَا عَیْنًا وَ یَاحُسْنَ مَاخَدّٖ
(ترجمہ )میں اس کا بیٹا ہوں‘ جس کی آنکھ رخسار پر آڈھلکی تھی‘ پھر وہ نہایت بہترین طریقے سے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے اپنی جگہ لوٹا دی گئی تھی۔
پس ‘وہ اسی طرح ٹھیک اور صحت مند ہوگئی تھی ‘جس طرح پہلے تھی۔ اس آنکھ کے حسن کا کیا کہنا اور اس رخسار کے جمال کا کیا پوچھنا!
سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا :
تِلْکَ الْمُکَارِمُ لَا قَعْبَانِ مِنْ لَبَنٍ
شِیْبَا بِمَائٍ فَعَادَا بَعْدُ اَبْوَالًا
(واقعتا)یہ حقیقی فضائل و درجات ہیں‘ یہ دودھ کے دو پیالے نہیں ہیں‘ جن میں کبھی پانی ملایا جاتا ہے اور کبھی جانوروں کا بول و براز اس میں گر جاتا ہے۔
یعنی مراد یہ ہے کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کی مالداری اور ان کے ریوڑ گلّے پر فخر کرتے ہیں‘ مگر اصل فخر کے قابل تو وہ زندہ جاوید کارنامے ہیں ‘جن کو کوئی چیز نہ مٹا سکتی ہے‘ نہ گہنا سکتی ہے‘ پھر حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے ان سے بہت اچھا سلوک کیا اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا۔ حضرت قتادہ کی آنکھ کا یہ واقعہ ان کے مناقب میں بیان کرنے کے علاوہ آنحضورؐ کے معجزات میں بھی نقل کیا جاتا ہے۔ سیرۃ الحلبیہ میں بھی یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ (معجزات سرورِ عالم ص:۶۰-۶‘ سیرۃ الحلبیہ‘ ج۲‘ ص۳۴۲-۳۴۴)
حدیث کی کتابوں میں حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کی شہادت کے بارے میں بڑے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیچھے بیوہ‘ ایک بیٹا اور نو یا دس بیٹیاں چھوڑی تھیں۔ سردار قبیلہ ہونے کے باوجود عیال داری‘ فیاضی اور مہمان نوازی کی وجہ سے بہت سا قرض بھی ان کے ذمے تھا۔ جنگ پر جانے سے قبل اپنے بیٹے جابر سے کہا: ''جان پدر مجھے یقین ہے کہ اس جنگ میں مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہوگا۔ رسول اﷲؐ مجھے اپنی جان‘ مال و اولاد ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں‘ آپؐ کے بعد مجھے تم سب سے زیادہ محبوب ہو۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اپنی ماں کی اطاعت کرنا‘ بہنوں سے بہتر سلوک کرنا اور میرے ذمہ جو قرض ہے‘ اسے ادا کر دینا۔‘‘
حضور اکرمؐ جنگ سے واپس لوٹے تو مدینہ کا ہر گھرانہ سوگوار تھا۔ آپ سب لوگوں کے ہاں جاتے اور انہیں تسلی دیتے۔ حضرت جابر کے ہاں گئے تو وہ بہت دلگیر تھے۔ جب ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا: ''یارسول اﷲ! آپ جانتے ہیں کہ میرے والد جنگ میں شہید ہوگئے ہیں‘ اب میری ماں اور بہنوں کا بوجھ میرے اوپر ہے اور قرض خواہ بھی مجھ سے تقاضا کریں گے۔‘‘ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا: ''جابر‘کیا میں تجھے ایک خوشخبری نہ سناؤں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ''ضرور یارسول اﷲ!‘‘ آپ نے فرمایا: ''اﷲ تعالیٰ نے کبھی کسی بندے سے حجاب کے بغیر بات نہیں کی‘ مگر اس نے تیرے باپ سے بغیر کسی حجاب کے بالمشافہ گفتگو فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ نے کہا: ''اے عبداﷲ جو چاہے مانگ میں تجھے عطا کر دوں گا۔‘‘ اس پر عبداﷲ نے کہا: ''اے اﷲ مجھے دنیا میں واپس بھیج دے ‘تاکہ میں پھر تیری راہ میں لڑوں اور شہادت کا لطف اٹھاؤں‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ''یہ میرا قطعی فیصلہ ہے کہ دنیا سے آنے کے بعد کوئی واپس نہیں جائے گا۔ ‘‘اس پر عبداﷲ نے عرض کیا: ''یا اﷲ میرے پس ماندگان کو میرے اس حال کی اطلاع دے دے۔‘‘ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ آل عمران آیات ۱۶۹- ۱۷۱نازل فرمائیں۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ ۳۳۶- ۳۳۷)
یہ ارشاد نبویﷺ سن کر حضرت جابر کے دل کو قرار آگیا۔ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا: ''جب تمہارے کھجور کے باغات میں پھل پک جائے تو اسے اتار کر ڈھیر لگا دینا اور مجھے اطلاع بھیجنا۔‘‘ جب پھل پکے اور انہیں اتار کر ڈھیر لگا دیے گئے تو حضرت جابرؓ نے حضورؐ کو اطلاع دی۔ آنحضورؐ تشریف لائے اور خود اپنے ہاتھ سے قرض خواہوں کو کھجوریں تول تول کر دیں۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ نے حضرت جابرؓ کو حکم دیا کہ تم کھجوریں قرض خواہوں کے درمیان ان کے قرض کے مطابق ‘تقسیم کرو اور خود دعا میں مشغول ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ نے کھجوروں میں اتنی برکت ڈال دی کہ قرضہ ادا ہوجانے کے بعد بھی اچھی خاصی مقدار بچ گئی۔ آپؐ نے فرمایا: ''جابر یہ تمہارے خاندان کے لیے اﷲ نے رزق بھی بچا دیا ہے۔ اٹھائو اور گھر لے جائو‘‘۔(المعجزات المحمدیہ‘ از ولید الاعظمی‘ اُردو ترجمہ معجزاتِ سرورِ عالم ص :۱۲۴)