خانہ کعبہ اور حفاظت ِ الٰہی!

کورونا وائرس سے حرمین شرفین کی بندش دل کو تڑپا دیتی ہے۔ اس سال حج بھی غالباً نہیں ہو سکے گا؛ یہ تو قدرت کا اپنا فیصلہ ہے۔ خانہ کعبہ کے دشمنوں نے جب بھی شیطانی حرکتیں کی ہیں‘ اللہ نے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا ہے۔آج تاریخ میں کھو کر یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ خانہ کعبہ روئے زمین پر اللہ کا پہلا گھر ہے‘ اللہ اس کا محافظ ہے۔ ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں کے لشکر کو اللہ نے ابابیلوں کے ذریعے تہس نہس کر دیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں وہ اعدائے کعبۃ اللہ ''کعصفٍ مأکول‘‘ یعنی کھائے ہوئے بھس کی طرح بکھرے پڑے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اپنے ایک سپہ سالار ابوصحم اریاط کو چارہزار فوج دے کر یمن بھیجا تھا۔ اریاط نے یمنی سرداروں پرغلبہ حاصل کرکے ملک کو مسخر کرلیا اور اہل عزت کو ذلیل کر ڈالا ‘ یمن میں مقیم ایک حبشی سردار ابرہہ نے اہلِ یمن کو اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ لوگوں نے اس کی دعوت قبول کی اور اریاط کے خلاف جنگ ہوئی۔ اریاط مار ڈالا گیا۔اب ‘ابرہہ یمن کا حکمران اور نجاشی کا اطاعت گزار تھا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۳۳۵-۳۳۶)
ابرہہ نے دیکھا کہ حج کے موسم میں لوگ سفر کی تیاری کررہے ہیں تو اس نے پوچھا یہ کہاں جارہے ہیں؟ جواب ملا کہ حج بیت اللہ کے لیے مکہ جارہے ہیں۔ اس نے پوچھا :بیت اللہ کس چیز سے بنایا گیا ہے؟ بتایا گیا کہ پتھر سے‘ پھر پوچھا کہ اس کی پوشش کیا ہے؟ کہا گیا کہ یہاں سے جو دھاری دار کپڑے جاتے ہیں وہی اس کی پوشش اور غلاف کے کام آتے ہیں۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا: میں اس سے اچھا گھر تعمیر کروں گا‘ تاکہ لوگ مکہ کی طرف نہ جائیں۔ اس نے ایک عمارت تعمیر کی ‘جسے وہ خانہ کعبہ کا متبادل بنانا چاہتا تھا۔ اپنے شیطانی ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے پوری منصوبہ بندی کرلی۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس کائنات کا مالک ربّ ہے اور اسی کا منصوبہ چلتا ہے۔ ابرہہ نے اہلِ یمن کے لیے ایک عبادت خانہ سفید‘ سرخ‘ زرد وسیاہ پتھروں سے بنایا جو سونے چاندی سے مزیّن اور جواہرات سے مرصّع کیا گیا تھا۔ اس میں کئی دروازے رکھے گئے ‘جن میں سونے کی تختیاں اور زرین گل میخیں جڑی گئی تھیں اور بیچ میں ہیرے جواہر بھی لگائے گئے جن میں سرخ رنگ کا بڑا سا بیش قیمت یاقوت لگا ہوا تھا۔ قیمتی ریشم کا غلاف اس عمارت پر ڈالا گیا تھا۔ مقام مندل کا عود جو خوشبویات کے لیے مشہور تھا‘ اسے لوبان کے ساتھ ملا کر سلگایا جاتا تھا کہ عمارت کا ماحول معطّر رہے۔ لوگوں کو اس نو تعمیر شدہ معبد کا حج کرنے کا سرکاری حکم جاری کیا گیا۔ کئی قبائل چند سالوں تک اس جعلی کعبے کا حج کرتے رہے۔ یہ اقدام شیطان کی سوچوں کا غماز تھا اور شیطان اس صورتِ حال پر خوش تھا۔ یمن کے عرب اس عمارت کی طرف آنے سے گریزاں اور بیت اللہ کی طرف سفر کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ وہ اس عمارت سے نفرت کرتے تھے۔بنوخثعم کے ایک نوجوان کے دل میں بیت اللہ شریف کی محبت اور اس کلیسا سے شدید نفرت تھی۔ ایک تاریک اور خاموش رات کو وہ اٹھا اور نجاست وغلاظت اٹھالایا‘ پھر اس نے صومعہ کی عمارت کو اس سے آلودہ کردیا اوراس کے اندر بھی گندگی ڈال دی۔ خانہ کعبہ کی محبت اس عمل کی بنیاد تھی۔ ابرہہ کو جب اس کی اطلاع ملی ‘تو سخت غصے میں کہنے لگا: ''کسی عرب نے اپنے آباؤ اجداد کے گھر کی محبت میں یہ حرکت کی ہے‘ میں اس کی عقیدت کے مرکز کو ڈھا دوں گا‘ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!(سیرۃ ابن ہشام‘ الاول‘ ص۴۶-۴۷)
ابرہہ نے اس واقعہ کی اطلاع شاہِ حبشہ کو دی اور درخواست کی کہ اپنا وہ ہاتھی جس کا نام محمود تھا بھیج دے۔ یہ ہاتھی جسامت اورقوت کے لحاظ سے بے نظیر تھا۔ نجاشی نے ابرہہ کی درخواست قبول کرکے یہ ہاتھی یمن بھیج دیا۔ ابرہہ مکہ پر چڑھائی کے لیے فوج لے کر نکلا‘ جس میں ہزاروں کا لشکر اور تیرہ ہاتھی تھے۔ کئی عرب مجبوراً اس کے ساتھ ہولیے۔ انھی میں حِمْیَر کے بادشاہ اور بنو خثعم کے رئیس نفیل بن حبیب الخثعمی بھی تھے۔ ان دونوں نے ابرہہ کا مقابلہ کیا تھا‘ مگر اس سے شکست کھائی اور گرفتار ہوگئے۔ ابرہہ نے انہیں قتل کرنے کی بجائے اپنے ساتھ اس مہم میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ مجبوراً اس فوج میں شامل ہوئے۔ مکہ کے قریب پہنچے تو ابرہہ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ لوگوں کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ لوٹ لیں۔ اس حکم کے مطابق‘ سپاہیوں نے چھاپا مارا اور دیگر لوگوں کے مویشیوں کے علاوہ جناب عبدالمطلب کے کچھ اونٹ بھی پکڑ لیے۔(البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۳۳۶)نفیل عبدالمطلب کا دوست تھا۔ اونٹوں کے متعلق آپ نے اس سے بات چیت کی تو وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر ابرہہ کے پاس گیا اور اس سے کہا: اے شہنشاہ! تیرے پاس ایسا شخص آیا ہے‘ جو تمام عرب کا سردار ہے‘ فضل وعظمت اور شرف وعزت میں سب پر فائق ہے۔ لوگوں کو بہترین گھوڑوں پر سوار کراتا ہے‘ انتہائی سخی ہے کہ عطیات دیتا ہے‘ مہمان نواز ہے کہ لوگوں کو کھلے دل سے کھانا کھلاتا ہے۔ نفیل نے اس تقریر کے بعد اکرام واعزاز کے ساتھ عبدالمطلب کو ابرہہ کے سامنے پیش کیا۔ ابرہہ نے عبدالمطلب سے آمد کا مقصد پوچھا‘ تو آپ نے کہا: مجھے میرے اونٹ واپس دے دو۔ ابرہہ نے کہا: میری رائے ہے کہ تیرے متعلق جو اطلاع مجھے ملی وہ محض دھوکا تھا۔ میں تو اس گمان میں تھا کہ تو مجھ سے اپنے اس گھر کے متعلق گفتگو کرے گا‘ جس کے ساتھ تمھاری عزت وشرف وابستہ ہے۔ عبدالمطلب نے جرأت مندی سے جواب دیا: مجھے میرے اونٹ واپس دے دے‘ بیت اللہ کے ساتھ جو چاہے کرکیونکہ اس گھر کا ایک پروردگار ہے‘ وہ خود ہی اس کی حفاظت فرما ئے گا۔ ابرہہ نے حکم دیا کہ عبدالمطلب کے اونٹ واپس دے دئیے جائیں۔ اونٹ مل جانے پر آپ نے ان پر نشان لگا دئیے اور ان کو قربانی کے لیے مختص کرکے حدود ِحرم میں چھوڑ دیا کہ انہیں دشمن پکڑیں گے تو پروردگارِ حرم ان سے انتقام لے لے گا۔ ابرہہ سے ملاقات کے بعد عبدالمطلب‘ کوہِ حرا پر چڑھ گئے۔ عمروبن عاید مخزومی‘ مطعم بن عدی اور ابومسعود ثقفی بھی ساتھ تھے۔ واقعہ ابرہہ کی اہمیت اپنی جگہ معجزے کے طور پر یوں بھی تاریخ میں مسلّم ہے‘ لیکن اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس واقعہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوری دنیا پر واضح کردیا کہ بیت اللہ کا نگہبان ومحافظ خود خالق کائنات ہے۔ عبدالمطلب اور دیگر سرداروں نے خانہ کعبہ کے غلاف سے لپٹ کر ایک اللہ سے اپنے اور خانہ کعبہ کی حفاظت کے لیے گڑگڑا کر دعائیں بھی کیں‘ جن کا تذکرہ کتب سیرت میں تفصیلاً آیا ہے۔ مفسرین نے بھی سورہ الفیل کی تفسیر میں مکمل تفصیلات لکھی ہیں۔ دوسرے اس واقعہ کی اہمیت یہ ہے کہ اس سال اندھیری دنیا میں وہ سراجِ منیر تشریف لائے‘ جن کے وجودِ مسعود سے دنیا منور ہوئی اور اندھیرے پسپا ہوگئے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ قریش جو شرک میں مبتلا ہوچکے تھے‘ اس واقعہ کے بعد سات یا بعض روایات کے مطابق دس سال تک توحید پر قائم رہے اور شرک سے مکمل طور پر اجتناب کیا۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ اسی عرصے میں بہت سی شخصیات دنیا سے رخصت ہوئیں جن میں بالخصوص نبیٔ رحمتؐ کی والدہ ماجدہ اور آپؐ کے دادا محترم قابل ذکر ہیں۔ ان کی وفات خالص توحید پر ہوئی۔ابرہہ ۵۷۰ء میں ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا تھا۔ وہ طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف سمجھ گئے کہ اتنی بڑی طاقت کا وہ مقابلہ نہ کرسکیں گے‘ اور ان کو خطرہ لاحق ہوا کہ ابرہہ ان کے معبود لات کا مندر تباہ کردے گا۔ طائف کا سردار مسعود ایک وفد لے کر ابرہہ سے ملا اور کہا کہ ہمارا بت کدہ وہ معبد نہیں ہے‘ جسے آپ ڈھانے آئے ہیں‘ وہ تو مکہ میں ہے۔ آپ ہمارے معبد کو چھوڑدیں‘ ہم مکہ کا راستہ بتانے کیلئے تمہاری مدد کریں گے۔ ابرہہ نے یہ بات قبول کرلی اور بنوثقیف نے ابورغال نامی ایک آدمی کو اس کے ساتھ کردیا۔جب مکہ تین کوس دور رہ گیا تو المُغَمّس نامی مقام پر پہنچ کر ابورغال مرگیا اور عرب مدتوں اس کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے۔ بنی ثقیف کو بھی وہ سالہاسال تک طعنے دیتے رہے کہ انہوں نے لات کے مندر کو بچانے کیلئے بیت اللہ پر حملہ کرنے والوں سے تعاون کیا۔ مکہ کے قریب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادیٔ محسّر میں لشکر پہنچا تو اللہ نے ابابیلوں کو اسے تباہ کرنے کا حکم دیا۔ ابابیلوں کی چونچ اور پنجوں میں مٹر کے دانے کے برابر کنکریاں تھیں‘ جو اس لشکر کے لیے تباہی کے بم ثابت ہوئیں۔ ہاتھیوں اور ساٹھ ہزار لشکریوں میں سے ایک بھی نہ بچ سکا۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں