مدینہ کی اسلامی ریاست کا قیام دعوت وتبلیغ اور تعلیم وتربیت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ دعوت وتبلیغ کی بدولت ایک خالص اسلامی معاشرہ وجود پذیر ہوا۔ اس سارے عمل میں نہ کوئی جبروزیادتی ہوئی نہ کوئی دھوکا اور تصنع۔ یہ ریاست دعوت کی برکت اور داعیانہ کردار کے علاوہ بے لوث اخلاص اور باہمی اخوت ومحبت کی مرہونِ منت تھی۔ اس ریاست کے شہریوں کے درمیان عقیدہ وفکر اور نظریہ وایمان کا اشتراک تھا۔ وہ قبائلی عصبیت اور ذاتی مفادات سے بالکل بے نیاز لو گ تھے۔ وہ اس دنیا کی زندگی بھی عزت اور وقار کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے اور آخرت میں بھی اللہ کی رضا اور جنت کے طلب گار تھے۔
مدینہ کا پرانا نام یثرب تھا۔ یہاں کے لوگ حج وعمرہ کے لیے مکہ آتے تو حضورپاکﷺ ان تک دعوتِ حق پہنچاتے۔ ایک ایک کرکے یہ لوگ نورِ ایمان سے منور ہوتے چلے گئے۔ جب ان کی تعداد کچھ بڑھی اور سبھی ایک دوسرے کے ہم نوا بنے تو وفد کی صورت میں مکہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات اور بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اس بیعت کو ''بیعتِ عقبہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عقبہ منیٰ میں واقع ایک گھاٹی ہے۔ اس مقام پر اہلِ یثرب کے ساتھ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقاتیں سیرتِ نبوی کا عظیم واقعہ ہیں۔ اس گھاٹی کو آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ عالی اور اہلِ یثرب کی آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی۔ اس مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حج کے موسم میں اہلِ یثرب سے تین ملاقاتیں ہوئیں۔
پہلی ملاقات میں چھ یا آٹھ افراد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ 10 نبوی کا واقعہ ہے۔ دوسرے سال اس مقام پر آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بارہ افراد کی ملاقات ہوئی۔ یہ سب مسلمان تھے۔ ان سب نے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، چوری اور زنا نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، کسی پر بہتان نہیں گھڑیں گے، آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف میں پوری اطاعت کریں گے۔ اس موقع پر حضور کریمﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس نے اس بیعت کی پابندی کی تو اس کے لیے جنت ہے اور اگر کسی نے ان امور میں کوئی خیانت کی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ان شاء عذّبہ وان شاء عفا عنہ۔ (اگر اللہ چاہے تو اسے عذاب میں مبتلا کردے یا چاہے تواسے معاف فرمادے) اہلِ یثرب کی عظمت کو تاریخ نے ہر دور میں سلام کیا ہے کہ انہوں نے عہد نبھانے کا حق ادا کیا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص: 546)
آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو رخصت کرتے وقت حضرت اسعدؓ بن زرارہ کو مدینہ میں ان کا قائد اور امام مقرر کیا۔ اس موقع پر اہلِ یثرب نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ کوئی معلّم بھیجیں جو ہمیں قرآنِ حکیم کی تعلیم دے۔ آپﷺ نے ان کے اس مطالبے پر اپنے جاں نثار صحابی اور مکہ کے ناز پروردہ شہزادے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو بھیجا جو حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مہمان رہے۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر کی دعوت وتبلیغ بڑی مؤثر تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں داعیٔ حق اور شیریں مقال مبلغ تھے۔ دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں کو چھوڑ کر فقرودرویشی اختیار کی۔ انہوں نے یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اور جنت کی طلب میں کیا۔
ایسے اللہ والے اللہ کے ہاں اس کے محبوب بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی بات میں تاثیر اور ان کے اخلاق وکردار میں کشش ہوتی ہے۔ یہی داعی کے لیے سب سے بڑی صفت اور اس کی کامیابی کا راز ہے۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے اپنے ساتھیوں کو قرآنِ مجید کی تعلیم بھی دی اور ہر گھر تک اپنی دعوت بھی پہنچائی۔ انہی کی دعوت کے نتیجے میں اُسیدؓ بن حضیر اور سعدؓ بن معاذ جیسی مؤثر اور نامور شخصیات آغوشِ اسلام میں آئیں۔ یہ دونوں قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ ان دو عظیم شخصیات کے دامنِ اسلام میں آنے کے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کا خاکہ واضح ہو گیا۔ دعوتِ اسلام میں بڑا اثر ہوتا ہے، مگر اس کے لیے داعی کا اخلاص وللہیت لازمی شرط ہے۔ جہاں داعی کے اندر اخلاصِ نیت وعمل ہو، وہاں انقلابِ قلب وذہن کی منزل حاصل ہوتی ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص: 546 تا 547)
یہ دونوں سردار کس طرح اسلام کی آغوش میں آئے؟ یہ دلچسپ اور ایمان افروز داستان ہے۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر کی دعوت کے نتیجے میں تمام گھرانوں کے اندر اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی۔ اوس کے دونوں سرداروں نے محسوس کیا کہ قبیلے کے نوجوان اس قریشی نوجوان کے گرد جمع ہورہے ہیں ۔ پھر دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس نوجوان کو مدینہ سے نکال دیاجائے۔ پہلے اسید بن حضیر، حضرت مصعبؓ بن عمیر کے پاس آئے اور انہیں سخت الفاظ میں خطاب کیا۔ حضرت مصعبؓ نے نہایت نرم انداز میں جواب دیا اور درخواست کی کہ وہ ان کی بات سن لیں، پھر جوچاہیں فیصلہ کریں۔ جب سردارِ اوس نے حضرت مصعبؓ کی زبانی اسلام کی بنیادی تعلیمات سنیں تو دل نے گواہی دی کہ یہ اچھی اور کھری باتیں ہیں؛ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے۔ ان کے قبولِ اسلام سے سیدالاوس سعد بن معاذ بہت غصے میں آگئے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جب وہ خودحضرت مصعبؓ کی خبر لینے ان کے پاس پہنچے اور انہیں سخت سست کہا تو جواب میں حضرت مصعبؓ نے ان کی دانش مندی، بہادری اور دیگر اچھی صفات کی تعریف کی۔ پھر دل سوزی اور حکمت کے ساتھ کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ میرے پاس آپ کے لیے کیا دعوت اور پیغام ہے؟
سعد بن معاذ خود جہاندیدہ انسان تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ ایک خوش اخلاق انسان، ان کی سخت سست باتوں کے جواب میں کس طرح مہذب طریقے سے جواب دے رہا ہے تو انہوں نے حضرت مصعبؓ کی باتیں سننے پر آمادگی ظاہر کی۔ جب ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تو اللہ نے ان کے دل کو بھی اپنے دین کے لیے کھول دیا۔ وہ مجلس سے خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے خدشے کا اظہار کیا کہ معلوم نہیں سردارِ اوس اب کیا کرتے ہیں، مگر حضرت مصعبؓ نے فرمایا: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوا کرو، ہمیشہ اس سے خیر کی امید رکھو۔ سعد اپنے قبیلے کی طرف واپس گئے اور ٹیلے پر چڑھ کر سب لوگوں کو بلایا۔ جب تمام مردوخواتین اور بوڑھے، بچے جمع ہوگئے تو ان سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟
سب لوگوں نے کہا: آپ ہمارے سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: میرا تمہارا تعلق ختم ہے جب تک تم وہ دین اختیار نہ کر لو جو میں نے اختیار کیا ہے۔ پھر بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا اور ان کے ساتھ پورے قبیلے کے لوگوں نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ اب گویا مدینہ فتح ہوچکا تھا۔ مدینہ جو اسلام کی پہلی ریاست بنا‘ کسی فوج یا اسلحے کے بل بوتے پر فتح نہیں ہوا تھا۔ اس پاکیزہ بستی کو ایک پاکیزہ نفس داعیٔ حق مصعبؓ بن عمیر نے اپنی دعوت کے ذریعے فتح کیا۔ حقیقی فتح دلوں کا جیتنا اور سب عقدے کھول دینا ہی ہوتا ہے۔ [فتح کا لفظی معنی بھی کھولنا ہے]۔ (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، اردو ترجمہ، مکتبہ خلیل، ج: 1، حصہ چہارم، ص: 845۔ ج: 3، حصہ ہشتم، ص 178 تا 179)
12 نبوی میں یثرب سے 70 سے 80 اہلِ ایمان مکہ میں آئے اور آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی مقام پر ملاقات کی جہاں اس سے پہلے ملاقاتیں ہوچکی تھیں، یعنی عقبہ کے مقام پر۔ اس موقع پر آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب عباس بن عبدالمطلب بھی آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے مگر دل میں آپﷺ کے ساتھ محبت اور دینِ اسلام کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔ ان کی یہ محبت جناب ابوطالب کی وفات کے بعد تو اور بھی گہری ہوگئی تھی۔ ان لوگوں سے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ پھر آپﷺ کے ہاتھ پر مکمل اطاعت کی بیعت کی اور آپﷺ کو مدینہ منتقل ہونے کی پیش کش کی۔ اس موقع پر جنابِ عباس نے کہا: اے اہلِ یثرب! تم محمد (ﷺ) کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت دے رہے ہو؟ سن لو کہ وہ اپنے خاندان میں انتہائی معزز اور محترم ہیں۔ جب بھی کبھی دشمنوں نے ان کے خلاف کوئی حرکت کی تو ہم سینہ سپر ہوکر میدان میں آگئے۔ اب وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں اور تم انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے ہو تو سن لو! اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر، ورنہ ابھی سے معذرت کر لو۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص: 551 تا 552)
یہاں سے یثرب کے مدینہ النبی بننے اور پھر مدینہ کے اسلامی ریاست بننے کی بنیاد پڑی۔ یہ ریاست کس طرح عمل میں آئی، رسول اللہﷺ نے اپنی ہجرت کے بعد اس کے خدوخال پوری طرح واضح کیے اور تاریخِ انسانی میں اس بے مثال ریاست نے اپنا وجود منوا لیا۔ (جاری)