مفتی سرفراز نعیمیؒ کی یاد میں!

12 جون 2009ء نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر گھر پہنچنے ہی والا تھاکہ موبائل پر میسج موصول ہواجو بہت دلدوز اور افسوسناک تھا۔وطن عزیز کے جسدِتار تارمیں ایک اور بہت بڑا گھاؤ لگ چکا تھا۔خود کش حملہ آور نے جامعہ نعیمیہ میں نمازِ جمعہ کے بعد معتدل مزاج، درویش صفت عالمِ دین مفتی سرفراز احمد نعیمی کودھماکا خیز مواد سے شہید کردیا۔ حملہ آور کے بھی پرخچے اُڑ گئے اور مفتی صاحب کے علاوہ ان کے دفتر میں موجود دیگر کئی افراد بھی اس ظلم کی بھینٹ چڑ ھ گئے۔ا ناّ للہ واناّ الیہ راجعون۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب لاہور میں 1948 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانامفتی محمدحسین نعیمی جامعہ نعیمیہ لاہور کے بانی تھے۔وہ مراد آباد کے مشہور عالم دین اور تحریک آزادی کے سرگرم راہ نما مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی کے شاگردِ رشید تھے۔ اپنے استاد ہی کی نسبت سے انہوں نے نعیمی کو اپنے نام کا حصہ بنایا۔ اس خاندان کا آبائی وطن مراد آباد تھا، جہاں سے قیام پاکستان کے وقت مفتی محمدحسین نعیمی صاحب اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے لاہورتشریف لائے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے جامعہ پنجاب سے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر اور ادبِ عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ نے الازہر یونیورسٹی قاہر ہ میں عربی زبان کی تدریس کا ایک خصوصی کورس بھی پا س کیا تھا۔
مرحوم اسلامی نظریاتی کونسل میں بریلوی مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتے رہے۔ مولانا محمدحسین نعیمی کثیر العیال شخص تھے اور نہایت خود دار ی کے ساتھ انہوں نے زندگی گزاری تھی۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نواز تھا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم میں بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ مفتی محمد حسین نعیمی صاحب کے بڑے صاحبزادے پروفیسر مولانا محفوظ الرحمن نعیمی صاحب جامعہ پنجاب میں ایم اے عربی میں میرے کلاس فیلو تھے۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے دینی و علمی حلقوں میں بہت اچھا نام پیدا کیا۔ انہیں تمام اہلِ علم قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ موٹر سائیکل پر سوار جب وہ کسی سٹرک سے گزرتے تو ان کے بے شمار جاننے والے انہیں والہانہ سلام کہتے۔ ان کی وفات کے بعد جب محترم قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ ہم لوگ تعزیت کے لیے جامعہ نعیمیہ گئے تو ایک نوجوان نے بتایا کہ وفات سے کچھ ایام قبل اس نے ایک روزٹریفک اشارے پر انتظار میں کھڑے ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب سے ایک فقہی مسئلہ پوچھا،مرحوم نے وہیں کھڑے کھڑے تسلی بخش جواب سے نواز دیا۔ سائل و مسئول دونوں موٹر سائیکل سوار تھے۔ کیا شانِ استغنا تھی اور کیا فیضانِ عام تھا۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین جن کو ایسا بیٹا عطاہوااورکتنی نیک بخت ہے وہ اولاد جنہوں نے اس ولیٔ دوراں کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے پیچھے ایک ہونہار اور اپنی ہی طرح کا حلیم الطبع، عالم فاضل بیٹا مولانا راغب نعیمی چھوڑا ہے، جو چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب مفتی صاحب کی مسند سنبھالی‘ اس وقت ان کی عمر پچاس سال تھی۔ اب ان کے صاحبزادے ان کی جگہ جانشین ہوئے ہیں تو ان کے مقابلے میں کافی نو عمر ہیں یعنی اس وقت صرف 37سال عمرہے۔اللہ تعالیٰ عمر، صحت علم وفہم اور عمل و تحرک میں برکت عطا فرمائے۔
اس حادثۂ جان کاہ کی خبر سنتے ہی مفتی سرفراز احمدنعیمی مرحوم و مغفور کے علاوہ ان کے عظیم والدِ گرامی قدر اور عالمِ ربانی حضرت مولانا مفتی محمدحسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر بھی لوحِ حافظہ پر بار بار اُبھرتی رہی۔ یادوں کے دریچے کھل گئے۔ جامعہ نعیمیہ کے درو دیوار، طلبہ کی فرشی نشستیں اور رہائشی حجرے، جامعہ کی لائبریری اوراس میں قیمتی کتابوں کا ذخیرہ، جامعہ کے ماحول میں سادگی اور تواضع، جامعہ کے درو دیوارپر نقش بامعنی اشعار اور ایمان افروز اقوال، غرض ہر چیز دل و دماغ میں تازہ ہوگئی۔ کتنی ہی مرتبہ اس جامعہ میں جلسہ ہائے عام، سیمینارز اور مشاورتی اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملتا رہا، سب واقعات ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے گھومتے چلے گئے۔
میڈیا پر معلوم ہوا کہ جنازہ اگلے روز دس بجے ناصر باغ میں ہو گا۔بعد میں غالباً عوام کی سہولت کے لیے وقت تبدیل کرکے پانچ بجے سہ پہرکردیاگیا۔ہم جنازے میں شرکت کے لیے بعد نمازِ ظہر منصورہ سے نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان محترم چودھری محمداسلم سلیمی صاحب کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ لٹن روڈ سے امیر العظیم صاحب اور راشد جمیل صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوگئے۔ ہم مقررہ وقت سے ذراقبل ہی ناصر باغ پہنچ گئے۔ فضا انتہائی سوگوار اور مجمع ازحد غمزدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُر فرمادے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاکرنے کے ساتھ مولانا مرحوم کو اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔ اس موقع پر مفتی منیب الرحمن صاحب نے حضرت مولانا سرفراز نعیمی کی خدمات ِ جلیلہ کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا اور اس شہادت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذباتی ماحول میں غمزدہ کارکنان کو صبر وتحمل کی تلقین کی۔ شدید گرمی میں لوگ جنازے کے منتظر تھے جو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا گیا۔ جنازے کی آمد پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ میں اس دوران میں نعیمی خاندان سے وابستہ اپنی یادوں میں کھویا رہا۔
مفتی سرفراز نعیمی شہید کے والد جناب مفتی محمدحسین نعیمی صاحب کوپہلی مرتبہ 1964ء میں جامع مسجد چوک دالگراں کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا اور دیکھا تھا۔اپنے خطبے میں انہوں نے ایوب خاں کے بعض غیراسلامی اقدامات پر تنقید کی تھی جس سے اندازہ ہوا کہ مفتی صاحب عالمِ ربانی ہیں جو کلمۂ حق کہتے ہوئے کسی جابر حاکم سے ڈرتے نہیں ہیں۔ اس وقت میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں سال اول کا طالب علم تھااور کالج کی سطح پر موجود واحد نمائندہ تنظیم اسلامک اینڈ عریبک سوسائٹی اسلامیہ کالج کا ناظم اعلیٰ تھا۔ہم ہر جمعہ کو کالج کے حبیبیہ ہال میں اس سوسائٹی کے تحت ایک لیکچر کا انتظام کیا کرتے تھے۔ سوسائٹی کے سرپرست پروفیسر مولانا عبدالحئی فاروقی مرحوم تھے۔ ان کی سرپرستی اور ہدایات کے علاوہ پروفیسر علم الدین سالک مرحوم اور پروفیسر خالد بزمی مرحوم کے مشورے اور راہ نمائی بھی ہمیں حاصل رہتی تھی۔ مولانا محمدحسین نعیمی پہلے ہی سے علما کی اس فہرست میں شامل تھے، جنہیں خطابات کیلئے یہاں مدعو کیا جاتا تھا۔
میں نے ایک روز فاروقی صاحب سے ان کے خطاب ِ جمعہ اور اس کی تاثیر کا تذکرہ کیاتو انہوں نے کہا کہ اگلے جمعے مفتی صاحب کو بلوالیجیے، یوں مجھے مفتی صاحب کی خدمت میں بالمشافہ حاضر ی کا پہلا موقع ملا۔ واضح رہے کہ میں اس زمانے میں اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ کبھی مسجد مبارک اہلحدیث میں مولانا عطاء اللہ حنیف ؒکا خطبہ جمعہ سنا کرتا تھا، کبھی نیلا گنبد میں حضرت مولانا محمدادریس کاندھلوی ؒ کے ارشادات سننے کا شرف حاصل ہوتا اور کبھی جامع مسجد القدس میں مولانا عبدالقادر روپڑی، ؒ قلعہ گوجر سنگھ میں مولانا محمداجمل خان ؒ اور مسجد مبارک عبدالکریم روڈ پر مولانا گلزار احمدمظاہر ی ؒ کے ایمان افروز خطبات سننے کی سعادت حاصل ہوتی۔ ہمارے دل میں ان سبھی علماکے لیے عقیدت و محبت کے جذبات موجزن رہتے تھے۔ ناصر باغ میں آج مجھے یہ سبھی عظیم ہستیاں یاد آئیں۔ مفتی صاحب کی خدمت میں جامعہ نعیمیہ میں حاضر ہوا تو مفتی صاحب کے پاس ان کے کچھ ارادت مند بیٹھے ہوئے تھے اور مفتی صاحب پان چبا رہے تھے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور آمد کامقصد بیان کیا تو بہت تپاک سے ملے، فاروقی صاحب کے نام سلام بھجوایا اور پروگرام میں آنے کی دعوت بخوشی قبول فرمائی۔ یوں اس کے بعد مفتی صاحب سے ہمیشہ نیاز مندانہ تعلق قائم رہا۔ حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی ؒاور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے درمیان بڑے دوستانہ مراسم تھے۔29 جنوری1967ء کو ایوبی آمریت کے دور میں رویتِ ہلال کمیٹی کے مسئلے پر حکومت نے کئی علما کرام کو نظر بند کر دیا‘ ان میں یہ دونوں عظیم شخصیات بھی شامل تھیں۔
1969ء کے آخر میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کل پاکستان اجتماع عام لاہور میں منعقد ہونا طے پایا۔ اتفاق سے میں اس وقت لاہور جمعیت کا ناظم تھا،اس لیے ناظم اجتماع کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی۔ داؤد گارڈنز داروغہ والا میں یہ اجتماع عام منعقد ہوا۔ ہمیشہ اجتماعات عام میں جمعیت اپنے دیگر پروگراموں کے علاوہ ایک اوپن سیشن کیا کرتی تھی جس میں ملک کی ممتاز شخصیات کا خطاب ہوتا تھا، یہ سیشن جلسہ عام کی شکل اختیار کرجایا کرتا تھا۔عموما ً شہر کے کسی بڑے ہال یا گراونڈ میں ا س کا انتظام کیا جاتا تھا۔اس سال کوئی موزوں ہال نہ مل سکا تو مشاورت سے طے پایا کہ جامعہ نعیمیہ میں اجازت مل جائے تو جلسہ عام وہاں کرلیاجائے۔ حضرت مفتی محمد حسین نعیمی صاحب سے بہت اچھا تعارف تھا۔ہم لوگ مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مطالبہ پیش کیا تو نہایت سنجیدگی سے فرمایا ''جامعہ نعیمیہ میں یہ پروگرام منعقد کرنے کی کیا حکمت ہے ؟ ‘‘ہم نے عرض کیا ایک تو شہر میں کوئی موزوں جگہ دستیاب نہیں ہو رہی، دوسرا‘ جامعہ نعیمیہ داروغہ والا سے قریب ہے جہاں سہ روزہ اجتماع عام کے شرکا اجتماع میں شریک ہیں، اس طرح شہر میں یہی قریب ترین مقام ہے جہاں آسانی سے طلبہ پہنچ سکتے ہیں۔ تیسرا‘ ہمیں آپ سے ایک تعلق خاطر ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید مضبوط ہو۔ مفتی صاحب نے بخوشی ہمیں اجازت دے دی،چنانچہ جلسہ عام شام کے وقت وہاں منعقد ہوا۔ اس میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم بھی مہمان مقرر تھے، جنہوں نے بہت علمی و ادبی خطاب فرمایا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں