جماعت کی حکمت عملی اپنی جگہ اور حکومتی سازشیں اپنی جگہ‘ جونہی مولانا کی تقریر شروع ہوئی تو چند فقروں کے بعد سرکلرروڈ پر مغرب کی جانب سے اجتماع گاہ کی قناتوں کو کاٹ دیا گیا‘ بک سٹال پر اسلامی کتب اور تفاسیر کو آگ لگا دی گئی۔ عجیب منظر تھا‘ مگر سید مودودیؒ کی جرأتِ ایمانی نے سب لوگوں کو حوصلہ دیا اور میں خود محسوس کرتا رہا کہ گولیوں کی بوچھاڑ ہے‘ مگر خدا گواہ ہے کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ یہ قائد کی اعلیٰ قائدانہ خوبیوں کا صدقہ تھا۔ اچانک کچھ غنڈے پولیس کی سرپرستی میں نعرے لگانے لگے ''تسی غدار او‘ تسی ملک دے دشمن او‘ تم نے پاکستان کی مخالفت کی تھی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایک شور و ہنگامہ اور طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی گولی چلنے لگی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ مجھے اس مقام پر بیٹھنے کی جگہ ملی جو مولانا مودودیؒ کے بالکل سامنے تھی۔ مولانا مودودیؒ کی زبان سے ادا کردہ چند فقرے میں نے براہِ راست سنے‘ کیونکہ لائوڈ سپیکر تو ویسے ہی ممنوع تھا۔
جماعتی رضا کار محمد یوسف خان‘ پہلوان عبدالستار‘ صفدرحسن صدیقی‘ عبدالحمید کھوکھر‘ ضمیر احمد اور دیگر ذمہ داروں کی قیادت میں ان بدمعاشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔ میں نے ان شخصیات کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور پھرزندگی بھر ان سے بہت قریبی تعلق رہا۔ ان بہادر اور نہتے افراد نے غنڈوں کو قابو کرکے اپنے بازوئوں میں جکڑ لیا‘ گولیاں لگنے سے بعض کارکن زخمی ہو چکے تھے۔ ان غنڈوں کو پولیس کے حوالے کیا گیا‘ مگر پولیس خود ہی ان کی سرپرستی کر رہی تھی۔ گورنر ہائوس سے وائرلیس پر مسلسل رابطہ تھا اور اپنی کارکردگی سے ظالم گورنر کو مطلع کیا جا رہا تھا۔ نواب آف کالاباغ مونچھوں کو تائو دے کر مزید ہدایات جاری کر رہا تھا۔
اس سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے قبل میں نے اپنے سامنے بائیں جانب ایک شخص کو پوری استقامت کے ساتھ خواتین کے کیمپ کی قنات کے ساتھ کھڑے دیکھا جو خطرات سے بے پروا اپنی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ مجھے وہ بہت پیارا بھی لگا اور بہادر بھی۔ عین اسی لمحے اسے گولی لگی اور وہ شخص میری آنکھوں کے سامنے زمین پر گر گیا۔ یہ تھے اللہ بخش شہید! رضاکاروں نے فوراً انہیں اٹھایا‘ مگر وہ اپنا فرض ادا کر کے منزل پہ پہنچ چکا تھا۔ کچھ ساتھی زخمی ہوئے تھے‘ مگر اللہ بخش جامِ شہادت نوش کر کے زندۂ جاوید ہو گئے۔ اس موقع پر ماہر القادری نے جو ایمان افروز نظم لکھی وہ آج بھی آنکھوں کو نم آلود کر دیتی ہے۔
حق سے جو وعدہ کیا تھا وہ وفا ہوتا رہا
گولیاں چلتی رہیں اور فرض ادا ہوتا رہا
اِس طرف اک شخص خاک و خون میں تڑپا کیا
کون قاتل ہے اُدھر یہ مشورہ ہوتا رہا
حشر کے دن خود گواہی دے گی چشمِ آفتاب
بے گناہوں پر جو ظلمِ ناروا ہوتا رہا
جلسہ میں غنڈوں کے ہاتھوں کتابِ مبین کی حرمت بھی پامال ہوتی رہی۔ جناب ماہر القادریؔ نے درد و سوز کے ساتھ اس کی نقشہ کشی کی۔
ہاتھ سے غنڈوں کے اور بیحرمتی قرآن کی
اے خدائے منتقم! فریاد! کیا ہوتا رہا
اس طرف آتش زنی غارت گری ہوتی رہی
اس طرف اعلانِ حق‘ ذکرِ خدا ہوتا رہا
وقت آنے دو یہ پردہ خود بخود اُٹھ جائے گا
کس کے ایما پر یہ ہنگامہ بپا ہوتا رہا
میں آج بھی اس نقشے کو پوری طرح چشمِ تصور میں دیکھتا ہوں۔ اس کا کوئی نقش بھی دھندلایا نہیں۔ اللہ بخش شہید کا نام ہر شخص کی زبان پر تھا اور تمام قائدین و کارکنان کے دل زخموں سے چور تھے۔ اللہ بخش درمیانے قد کے مضبوط اور گٹھے ہوئے جسم کے درمیانی عمر کے رکنِ جماعت تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شہید کی اکلوتی بیٹی خواتین کے کیمپ میں موجود تھی۔ ان کی عمر اُس وقت سولہ سال تھی۔ گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ) سے یہ قافلہ حاجی دین محمد کی قیادت میں آیا تھا۔ اس مظلوم بچی کو تو صاحبِ دانش بزرگ خواتین نے اس واقعہ کی اطلاع بھی گھر پہنچ کر دی۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ جماعت اسلامی کے اجتماع کو سبوتاژ کرنے کا پورا منصوبہ بن چکا تھا۔ ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ رپورٹس اور فیڈ بیک کا سلسلہ جاری تھا۔ جماعت کی قیادت کو ممکن ہے کوئی سن گن ہو‘ مگر کارکنان اور حاضرین و شرکا اس ناگہانی آفت سے بالکل بے خبر تھے۔ اللہ بخش کی شہاد ت کے بعد صحافیوں نے مولانا مودودیؒ سے پوچھا: کیا آپ نے ایف آئی آر درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے؟ فرمایا: ہمیں اس انتظامیہ اور عدالتی نظام سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔ ہم نے اپنا مقدمہ اُس عدالت میں دائر کر دیا ہے جہاں حق و انصاف کے فیصلے ہوں گے۔
اللہ کی قدرت دیکھیے کہ مولانا مودودیؒ نے جس عدالت میں اپنے کارکن کے ظالمانہ قتل کا مقدمہ درج کرایا اس کے فیصلے یوں صادر ہوئے۔ جوپولیس افسر اُس دور میں جماعت کے جلسے کو خراب کرنے کے لیے مقرر کیا گیا وہ بیچارہ بعد میں بائولے کتے کے کاٹنے سے میو ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادی میں اُتر گیا۔ چند سال بعد نواب آف کالاباغ امیر محمد خاں اپنے محل میں اپنے ہی بیٹے کی گولیوں کی بھینٹ چڑھے اور موت سے ہمکنار ہوئے۔ تین دن تک بے گوروکفن لاش گھر میں پڑی رہی۔ ایوب خان کے خلاف بعد میں جب عوامی تحریک چلی تو ہر روز اور ہر جگہ ایک ہی نعرہ گونجتا‘ جس کا ایوب خان نے خود بھی اعتراف کیا کہ میرے خلاف یہ نعرے بازی ہو رہی ہے۔ فطرت کی تعزیریں بہت سخت اور قدرت کے تازیانے بڑے عبرت انگیز ہیں۔
یہ مضمون اللہ بخش شہید کی یاد میں لکھا جو میری کتاب 'عزیمت کے راہی‘ (جلد نہم) کا حصہ ہو گا۔ لیکن یہ سارے واقعات اس لیے قلمبند کر دیے ہیں کہ شہید کا تذکرہ ان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جب بھی اس اجتماعِ عام کی روداد لکھی جاتی ہے تو وہ اس شہیدِ وفا کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اللہ بخش شہید مشرقی پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے گائوں کھیڑہ میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 41 سال تھی۔ ان کا تعلق جاٹ قبیلے کی ذیلی شاخ گریوال سے تھا اور وہ چودھری نبی بخش کے اکلوتے بیٹے تھے۔ نہ کوئی بھائی تھا‘ نہ بہن۔ ہجرت کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ مشرقی پنجاب سے پاکستان آئے اور گوجرہ (ضلع لائل پور‘حال ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں مقیم ہوئے۔ یہاں ان کے والد کو ایک مربع زرعی زمین الاٹ ہوئی۔ کاشتکاری ان کا آبائی پیشہ تھا۔ یہ نوجوان بہت صاحبِ ہمت اور باصلاحیت تھا۔ جماعت اسلامی کے بزرگ رکن حاجی دین محمد صاحبِ بصیرت شخصیت کے حامل تھے۔ ہمیں بھی حاجی صاحب کو قریب سے بارہا دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ انہوں نے اللہ بخش اور ان کے پورے خاندان کو تحریک اسلامی میں شامل کیا۔
اللہ بخش کی شہادت پر پورے پاکستان میں بے شمار لوگوں‘ سیاسی‘ سماجی اور صحافتی رہنمائوں نے حکومتی مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔ بہت سے اخبارات و رسائل میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔