بلالی دنیا میں شمع اسلام

جنوبی افریقہ میں اسلامک سرکل آف سائوتھ افریقہ کے تحت ملک بھر میں اسلامی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہاں کا کئی مرتبہ سفر ہوا۔ پورٹ الزبتھ میں بھی دو مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ بہت خوبصورت مقام پر ہے‘ اسے اختصار کے ساتھ پی ای (P.E) کہا جاتا ہے۔ وہاں کا سفر یادگار رہا۔ میرے میزبان ڈاکٹر آدم دودت ہیں۔ صبح ناشتے کے بعد ہم ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ڈاکٹر دودت راستے میں مختلف مقامات کا تعارف کراتے رہے۔ پی ای براعظم افریقہ کے جنوب میں خشکی کا آخری سرا ہے۔ اس سے ورے پھر سمندروں کا عظیم سلسلہ چلتا ہے۔ پی ای کے جنوب میں جو سمندر ہے وہ بحر ہند اور بحر اوقیانوس کا سنگم ہے۔ مشرق میں جو آسٹریلیا تک پھیلتا ہوا چلا گیا ہے وہ بحر ہند ہے اور مغرب میں براعظم جنوبی امریکہ تک وسیع و عریض پانی کا سلسلہ بحر اوقیانوس ہے۔ یوں یہ شہر اپنی نوعیت کا منفرد شہر ہے۔ کیپ ٹائون جو پی ای کی سیدھ میں سمندر کے کنارے آباد ہے یہاں سے تقریباً سات آٹھ سو میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ گزشتہ رات کو پی ای کے حسن کا ایک منظر دیکھا۔ اس وقت صبح کے خوشگوار ماحول میں ایک دوسرا خوبصورت نظارہ دامنِ دل کھینچ رہا تھا۔
ٹریفک بہت زیادہ تھی۔ لوگوں کو علی الصباح اپنے دفاتر‘ تجارتی مراکز‘ تعلیمی اور فنی اداروں نیز بندرگاہ اور فیکٹریوں میں پہنچنا ہوتا ہے۔ سڑکیں کشادہ اور ٹریفک پولیس چوکس ہے مگر گاڑیاں بہت زیادہ ہیں۔ راستے میں ایک بڑے پلازے کے پاس سے گزر ہوا تو ڈاکٹر دودت نے بتایا کہ ان کا ذاتی کلینک اس عمارت میں ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس علاقے میں ڈاکٹروں کے خاصے کلینک واقع ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ ایئرپورٹ کی طرف جا رہے تھے مگر ڈاکٹر صاحب مجھے تسلی دے رہے تھے کہ سیٹ کنفرم ہے‘ جہاز چھوٹا ہے‘ ہم چند منٹ قبل بھی پہنچ گئے تو کوئی پرابلم نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب نے رش سے بچنے کے لیے ایک سروس روڈ پر گاڑی ڈال دی۔ وہ چونکہ ہر راستے سے واقف تھے اس لیے ہم بروقت ایئرپورٹ پہنچ گئے ورنہ خدشہ تھا کہ ہماری پرواز چھوٹ جاتی۔
گاڑی پارک کرنے میں خاصی دشواری ہوئی لیکن ذرا دور ایک جگہ مل گئی۔ گاڑی سے اتر کر ہم دونوں چیک ان ہال کی طرف تیزی سے بڑھ گئے۔ ایک خاتون جو پارکنگ کائونٹر پر بیٹھی گاڑیوں کی پارکنگ فیس سلپس جاری کر رہی تھی‘ ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنی ساتھی لڑکی سے کہنے لگی ''بوڑھے آدمی خاصے سمارٹ ہیں‘ ایتھلیٹ رہے ہوں گے‘‘۔ ہم سن کر محظوظ ہوئے۔ شاید ہر بوڑھا آدمی ایسی بات سن کر خوش ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ محترمہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں یا مذاق کر رہی تھیں۔ بہرحال ہم نے اس سے کہاں تعرض کرنا تھا۔ جہاز کے وقت نے ہمیں ایتھلیٹ بننے پر مجبور کر دیا تھا ورنہ ہم کہاں کے ایتھلیٹ ہیں۔ایئرپورٹ کا گھڑیال آٹھ بج کر پندرہ منٹ کی خبر دے رہا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے جہاز کا ٹائم تھا۔ کائونٹر پر بیٹھی سمارٹ لڑکی ہماری طرف متجسس نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پی ای کا ایئرپورٹ زیادہ مصروف نظر نہیں آرہا تھا۔ آس پاس تعمیرات کا کام جاری تھا۔ شاید پارکنگ میں گاڑیاں زیادہ تر انہی لوگوں کی ہوں گی جو تعمیرات کے سلسلے میں کام کرنے یہاں آتے ہیں۔ میں نے ٹکٹ پیش کی‘ مجھے بورڈنگ کارڈ ملا اور ہوائی کمپنی کی ملازم لڑکی نے کہا ''سر ایک منٹ بعد مسافروں کو کال کیا جا رہا ہے۔ میں آپ کیلئے محفوظ سفر اور بخیریت منزل پر پہنچنے کی دعا کرتی ہوں‘‘۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جو اب میں اس کے حق میں دعا کی۔ میں اور ڈاکٹر دودت انتظار گاہ میں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ایک آدھ منٹ بعد اعلان ہوا کہ بلوم فونٹین کی پرواز روانگی کیلئے تیار ہے۔ مسافروں سے درخواست ہے کہ جہاز پر تشریف لے جائیں۔ پہلا اعلان افریقی زبان اور دوسرا انگریزی میں تھا۔ دونوں ہی یہاں کی سرکای زبانیںہیں۔
میں نے ڈاکٹر آدم دودت صاحب سے الوداعی معانقہ کیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو دعائیں دیتے ہوئے جدا ہوئے۔ میں انتظارگاہ کے ایک دروازے سے ایئرپورٹ کے رن وے کی طرف روانہ ہوا۔عجیب اتفاق کی بات کہ ہوا اس قدر تیز تھی جیسے آندھی مگر نہ تو کوئی گرد وغبار تھا نہ وحشت۔ کپڑے اڑے جاتے تھے مگر اس ساحلی شہر کی یہ ہوا خوشگوار تھی۔ اس شہر کو تیز ہوائوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور لطیفہ ہوا۔
مجھ سے آگے ایک سفید فام نوجوان خاتون ہوائی جہاز کی طرف چلی جا رہی تھی‘ جہاز قریب ہی چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ خاتون کے دونوں ہاتھوں میں دو ہلکے پھلکے بیگ تھے۔ اس نے اگرچہ معقول حد تک لمبا سکرٹ پہن رکھا تھا مگر طوفانی ہوا اس کے ساتھ جو اٹھکیلیاں کر رہی تھی اس سے خاصی کوفت ہوئی۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور معاشرت ولباس کتنی بڑی نعمت ہے اس کا جگہ جگہ احساس ہوتا ہے۔ میں تیز قدم اٹھاتا ہوا اس خاتون سے آگے نکل گیا۔ اس نے اپنی روایات کے مطابق موسم کے بارے میں ایک آدھ جملہ کہا۔ میں نے بھی مروتاً جواب دیا۔ اس نے اگلا جملہ جو کہا تو میں چونکا۔ اس نے بھی میرے سبک رفتار ڈگ بھرنے کو ایتھلیٹک سے تعبیر کیا کہ ''نوجوانی کے اچھے دنوں میں آپ ایتھلیٹ رہے ہوں گے‘‘۔ میں نے ہوں ہاں سے کام چلایا اور جہاز کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گیا۔ مغربی معاشرے اور یورپی اقدار کے مطابق مجھے ذرا رک جانا چاہیے تھا کہ ایسے مواقع پر ''لیڈیز فرسٹ‘‘ کا اصول اپنایا جاتا ہے مگر میں نے اس وقت یہی مناسب سمجھا کہ میں جلدی سے جہاز پر سوار ہو جائوں۔
رن وے پر چلتے چلتے جہاز رک گیا۔ حد نگاہ تک کھلا میدان تھا۔ لمبے چوڑے رن ویز تھے۔ کپتان نے بتایا کہ ایک دوسرا جہاز ہم سے پہلے پرواز کر رہا ہے اس لیے ہمیں چند دقیقے انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ جہاز فضا میں بلند ہوا تو ہمارا جہاز بھی چل پڑا اور ایک آدھ منٹ میں ہم بھی آسمان کی بلندیوں کی طرف محو پرواز تھے۔ فضا سے صبح کے وقت پی ای کا نظارہ بہت خوب لگا۔ سمندر اور ساحل‘ ٹیلے اور میدان سبھی خوبصورت تھے۔ میری منزل تو جنوبی افریقہ کا تاریخی اور عالمی شہرت کا حامل شہر کمبرلی تھا مگر اس روز پی ای سے کوئی پرواز کمبرلی نہیں جا رہی تھی اس لیے مجھے بلوم فونٹین تک ہوائی جہاز سے جانا تھا اور پھر وہاں سے اپنے دوست ڈاکٹر وسیم بٹ کے ہمراہ بذریعہ کار کمبرلی تک سفر کرنا تھا۔ غالباً پچاس منٹ کی پرواز کے بعد جہاز بلوم فونٹین کے ہوائی اڈے پر اتر گیا۔
بلوم فونٹین جنوبی افریقہ کے دیگر شہروں کی طرح صاف ستھرا اور حسین وجمیل شہر ہے۔ اسکے آس پاس حد نگاہ تک بڑے بڑے زرعی فارم پھیلے ہوئے ہیں۔ کہیں فصلیں کھڑی ہیں‘ کہیں باغات‘ کہیں پالتو جانور ہزاروں کی تعداد میں چرتے چگتے نظر آتے ہیں‘ کہیں جنگلی جانوروں کے غول من موج میں مصروف ہیں۔ اس شہر کا اعزاز ہے کہ جنوبی افریقہ کے تین سرکاری طور پر مقرر کردہ صدر مقامات میں سے عدلیہ کا مرکز بلوم فونٹین‘ مقننہ کا مرکز کیپ ٹائون اور انتظامیہ کا صدر مقام پریٹوریا ہے جبکہ غیر اعلان شدہ تجارتی ومالیاتی صدر مقام جوہانسبرگ ہے۔ یہی مرکزی ہوائی اڈا بھی ہے‘ یوں یہ ایک منفرد حقیقت ہے کہ ایک ملک کے چار صدر مقامات ہیں۔
ہوائی اڈے سے باہر نکلا تو ڈاکٹر وسیم بٹ میرے منتظر تھے۔ کوئی ہجوم نہ ہنگامہ‘ نہ مسافروں کا رش نہ استقبالی شور وشغب! بٹ صاحب گلے ملے اور حال احوال پوچھتے ہوئے میرا مختصر سا سامان ہاتھ سے اچک لیا۔ وسیم صاحب منصورہ ہسپتال میں بھی کئی سال خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اب سائوتھ افریقہ کے شہر کمبرلے میں مقیم ہیں۔ پرانی یادیں کافی دیر تک ایک دوسرے سے شیئر کرتے رہے تاآنکہ گھر پہنچ گئے۔ ہیروں کے اس شہر کی دنیا میں بڑی شہرت ہے۔ ہمیں تو معدنیاتی ہیروں سے زیادہ انسانی ہیروں سے دلچسپی ہے اور ڈاکٹر وسیم انہی میں سے ایک ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں