حضرت ابوذرؓ کی اہلیہ آپ کے آخری لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرماتی ہیں: ''اسی دوڑ دھوپ اور تلاش و انتظار کا سلسلہ جاری تھا کہ دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیے‘ میں نے اشارہ کیا‘ وہ لوگ نہایت تیزی سے آکر میرے پاس ٹھہر گئے۔ میں نے ان کو کہا کہ اس ٹیلے کے پیچھے رسول پاکﷺ کے ایک صحابی نزع کے عالم میں ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے؟ میں نے کہا: ابوذر غفاریؓ۔ پوچھا: آنحضرتﷺ کے صحابی؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس پر وہ سبھی لوگ حضرت بوذر غفاریؓ کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت آپؓ آخری سانسیں لے رہے تھے۔ پہلے آپؓ نے آنحضرتﷺ کی پیشگوئی سنائی پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی یا میرے پاس کفن بھر کا کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اور قسم دلائی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنیٰ عہدہ دار بھی ہو‘ وہ مجھ کو نہ غسل دے اور نہ ہی کفنائے۔اتفاق سے ایک انصاری نوجوان کے علاوہ ان حضرات میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر فائز رہ چکا تھا؛ چنانچہ نوجوان انصاری نے بڑے ادب اور محبت کے ساتھ کہا ''چچا میرے پاس ایک چادر ہے‘ اس کے علاوہ دو کپڑے اور بھی ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کَتے ہوئے ہیں‘ انہی میں آپ کو کفناؤں گا‘‘۔ فرمایا: ہاں تم ہی کفنانا۔ ابوذر غفاریؓ نے اس وصیت کے بعد وفات پائی۔ متعدد روایتوں کے باہم ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے اور کوفہ سے آ رہے تھے۔ انہی کے ساتھ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے جو عراق جا رہے تھے۔ بہرحال اس انصاری نوجوان نے آپؓ کو کفنایا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور پھر اسی صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپؓ کے پاس اس آخری وقت میں آپؓ کی اہلیہ اور بیٹی تھیں جبکہ کئی دیگر راویوں کے نزدیک ایک غلام بھی تھا۔ حضرت ابوذرؓ نے اپنی بیٹی سے کہا ''بیٹی‘ تمہارے چچا آتے ہوں گے۔ ایک بکری ذبح کر لو اور جلدی سے اس کا گوشت تیار کرکے بھون لو۔ میں فوت ہو گیا تو ان سے کہنا کہ کھانا کھائے بغیر نہ جائیں‘ میرے والد نے آپ کواس کی تلقین کی ہے اور قسم دلائی ہے‘‘۔ پس ان تمام صحابہ و تابعین نے‘ جن کی تعداد کے بارے صحیح معلومات نہیں ہیں‘ جنازے اور تدفین کے بعد کھانا کھایا اور حضور پاکﷺ کے پیارے صحابی کی جدائی پر غمزدہ اور بوجھل دلوں کے ساتھ اپنی منزلوں کو رخصت ہو گئے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ نے ابتدائی دور میں ایک مرتبہ آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ آپ کو کوئی عہدہ یا منصب دے دیں۔ رسولِ رحمتﷺ نے فرمایا ''اے ابوذر! تم کمزور آدمی ہو ان سرکاری مناصب کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے‘‘۔ پس اس کے بعد زندگی بھر آپؓ نے کسی منصب کی تمنا نہیں کی بلکہ یہاں تک بھی تاریخ میں مذکور ہے کہ مناصب پر فائز صحابہ سے وہ کوئی تحفہ بھی نہیں لیتے تھے۔ اسی طرح جن صحابہ سے ان کی آغازِ اسلام سے بہت قریبی دوستی تھی اور آپس میں جب بھی ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے کہ میں تمہارا بھائی ہوں‘ انہیں بھی جب اربابِ حل و عقد کی طرف سے سرکاری مناصب پر مقرر کیا گیا اور وہ آپؓ سے ملنے کیلئے بھی آئے تو آپ نے عجیب بے نیازی کے ساتھ ان سے گفتگو کی۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بہت بلند پایہ صحابی تھے۔ آنحضورﷺ نے خود ان کے اعمال کی کئی بار تحسین فرمائی۔ وہ حضرت عمرؓ کے دور میں مختلف ذمہ داریوں پر فائز کیے گئے۔ وہ خود بھی درویش منش انسان تھے۔ حکومتی ذمہ داریوں پر فائز ہونے کے بعد آپؓ اور بھی زیادہ دنیا کی دولت سے بے نیاز ہو گئے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوذرؓ سے ملنے کیلئے آئے اور کہا: اے ابوذر! میں تمہارا بھائی ہوں اور تم میرے بھائی ہو۔ ان کی بات سن کر کہنے لگے: اے ابو موسیٰ! تم میرے بھائی نہیں ہو اور نہ میں تمہارا بھائی ہوں۔ تم تو گورنر ہو۔ حضرت ابو موسیٰؓ نے اپنی مالی کیفیت اور شب و روز کا شیڈول‘ خوراک‘ لباس اور دیگر معاملات کے بارے میں وضاحت کی تو حضرت ابوذرؓ بڑی محبت کے ساتھ اٹھے اور انہیں گلے لگا لیا۔ پھر بار بار کہتے رہے ''ابوموسیٰ تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں‘‘۔
آخری وقت میں حضرت ابوذرؓ کی وصیت کو پڑھیں تو اس میں آپؓ کی اسی درویشانہ اور فقر و فاقہ پر مشتمل زندگی کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ جیسا کہ تذکرہ ہو چکا‘ جو صحابہ آخری وقت میں اللہ کی قدرت اور آنحضورﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق آپ کے پاس آ پہنچے تھے ان سے آپ نے درخواست کی کہ آپ کو کوئی ایسا شخص غسل اور کفن نہ دے جو کسی بھی سرکاری عہدے پر کبھی فائز رہا ہو۔ چنانچہ اس خوش نصیب انصاری نوجوان نے جو کبھی کسی منصب پر فائز نہیں رہا تھا اپنی خدمات پیش کیں اور حضرت ابوذر غفاریؓ کو اطمینان ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ (ابن ہشام (الثانی)‘ ص: 524‘ الواقدی‘ ج: 3‘ ص: 1001‘ معجزاتِ سرور عالم‘ ص: 171)
حضرت ابوذر غفاریؓ جیسی شخصیات تاریخِ انسانی میں بہت کم ہی نظر آتی ہیں۔ آپؓ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضورﷺ کے حکم کے مطابق اپنے قبیلے میں چلے گئے تھے اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کیلئے دن رات ایک کر دیا تھا۔ آنحضورﷺ کا حکم بھی یہی تھا کہ جب تک میں ہجرت نہ کر لوں تم اپنے قبیلے اور علاقے میں اپنا کام جاری رکھنا۔ آپﷺ کی ہجرت کے بعد ابوذر غفاریؓ چند سال مزید دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ اس عرصے میں آپؓ کے قبیلے اور خاندان کے کئی مسلمان ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے تھے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ قدرے تاخیر سے حاضر خدمت ہوئے۔ اب آپؓ کا بیشتر وقت آنحضورﷺ کی خدمت میں گزرتا تھا۔ مسجد نبوی کے اندر ہی آرام کرتے تھے اور کبھی اصحابِ صفہ کے ساتھ بیٹھ کر اہلِ علم صحابہ سے دینی علم حاصل کرتے تھے۔ مدینہ آنے کے بعد آپ نے آنحضورﷺ کے دور میں بھی جہاد میں حصہ لیا اور پھر خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ جب زیادہ بوڑھے ہو گئے تو پھر جہاد کے میدانوں میں جانا موقوف ہو گیا۔ اس عرصے میں حضرت ابوذرؓ قرآن کی تلاوت اور آنحضورﷺ کے ارشادات کو یاد کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں مصروف رہتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ایک شخص بعض لوگوں سے محبت رکھتا ہے لیکن ان جیسے اعلیٰ اعمال کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا‘ اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: جو شخص جس کے ساتھ حقیقی محبت رکھتا ہے وہ اسی کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو گا اور اس کی رفاقت اسے نصیب ہو گی۔ اس پر ابوذرؓ غفاری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا میری ساری محبت آپ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ آپﷺ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا: ابوذر! تم یقینا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو گے۔ یہ بات حضرت ابوذر غفاریؓ کیلئے عظیم اعزاز کے ساتھ بہت بڑا سہارا بھی تھی۔
جب حضرت عثمان غنیؓ کے حکم سے آپؓ کو مدینہ چھوڑ کر شام جانا پڑا تو ایک دن شام کے گورنر حضرت امیر معاویہؓ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا: ابوذرؓ کیا آپ جہاد کے میدان میں جانا چاہتے ہیں۔ آپؓ اگرچہ عمر رسیدہ ہو چکے تھے مگر فرمایا: اللہ کی راہ میں ایک دن جہاد میں صرف کرنا ان ہزار دنوں سے بہتر ہے جو گھر میں بیٹھ کر گزارے جائیں۔ میں جہاد پر جانے کیلئے بالکل تیار ہوں۔ یہ لشکر حضرت امیر معاویہؓ نے قبرص کو فتح کرنے کیلئے تیار کیا تھا۔ حضرت ابوذرؓ غفاری اس جہاد اور فتحِ قبرص میں بنفس نفیس شریک تھے۔ جہاد میں کامیابی کے بعد واپس شام آئے تو زبان کا جہاد پھر سے شروع کر دیا۔ حضرت ابوذرؓ کی زندگی کا خلاصہ علامہ اقبال نے ایک شعر میں بیان کر دیا
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں