حضرت عمرو بن جموح کے بیٹے معاذ اور معوذ‘ جن کا گزشتہ کالم میں ذکر ہوا‘ یہ وہ نہیں جنہوں نے ابوجہل کو قتل کیا تھا۔ وہ دوسرے صحابہ تھے۔ گویا معاذ اور معوذ نامی سگے بھائیوں کے دو جوڑے معرکۂ بدر میں شریک تھے۔ ابوجہل کے قاتل وہ برادران ہیں جن کی والدہ حضرت عفراء رضی اللہ عنہا قدیم الاسلام انصاری صحابیہ تھیں۔ گویا بدر میں یہ دلچسپ امر صحابہ نے دیکھا کہ معاذ اور معوذ کی دو جوڑیاں ان کی صفوں میں موجود ہیں۔ چاروں نوجوان‘ بہادر اور خوبصورت تھے۔ دونوں جوڑیاں بنو خزرج میں سے تھیں۔ اہلِ یثرب کے نزدیک معاذ بہت پسندیدہ نام تھا۔ جنگ بدر میں معاذ کے نام کے نو صحابہ شریک تھے (رسولِ رحمتﷺ تلواروں کے سائے میں‘ جلد اول میں بدری صحابہ کرامؓ کی پوری فہرست درج ہے)۔
بدر کے ایک سال بعد احد کا معرکہ پیش آیا۔ اب حضرت عمروؓ بن جموح کا بڑھاپا ایک سال مزید بڑھ گیا تھا اور ٹانگ کا لنگ بھی ساتھ ہی تھا مگر آپؓ کا جذبۂ ایمانی جوش مار رہا تھا اور شوقِ شہادت جو بن پر تھا‘ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپؓ نے اپنے ہتھیار راتوں رات تیار کیے اور اعلان کر دیا کہ میں جہاد پر جائوں گا۔ اس اعلان پر گھر کے سب لوگ پریشان ہو گئے کہ اس بڑھاپے اور صحت کی اس کیفیت کے ساتھ جنگ میں کیسے حصہ لیں گے۔ انہیں روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر حضرت عمروؓ نے حتمی طور پر کہا کہ میں ضرور جہاد میں شریک ہوں گا اور اللہ مجھے سرفراز فرمائے گا۔ مراد ان کی یہ تھی کہ میں شہید ہو جائوں گا۔ آپؓ نے جب اہل وعیال کی بات نہ مانی تو آپ کے بیٹے آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ہمارے والد بضد ہیں کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کافی عمر رسیدہ ہیں اور ہم‘ ان کے چار بیٹے جہاد کیلئے تیاری کر چکے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ ان کو جہاد پر جانے سے منع فرما دیں۔
آنحضورﷺ نے عمروؓ بن جموح کو بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے تو آتے ہی کہا کہ میرے بیوی بچے مجھے جہاد پر جانے سے منع کرتے ہیں‘ میں نے اللہ کے نام کی قسم کھا لی ہے کہ میں ضرور جہاد پر جائوں گا اور اللہ مجھے شہادت عطا فرمائے گا۔ آپ میرے اہل وعیال کی درخواست پر مجھے جہاد میں شرکت سے محروم نہ فرمائیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں لنگڑاتا ہوا اللہ کے دربار میں حاضر ہو جائوں گا۔ ان کے اس جذبے کو دیکھ کر آنحضورﷺ نے بڑھاپے کے باوجود انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔ جب میدانِ احد میں معرکہ گرم ہوا تو حضرت عمروؓ بن جموح اپنی تلوار کے ساتھ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بہت بہادری کے ساتھ کفار مکہ کا مقابلہ کیا۔ ان کے بیٹے خلاّدؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ کہا: خلاد تم تو شاید واپس جائو گے میں نے ہرگز واپس نہیں جانا۔ جب تم واپس جائو تو گھر والوں کو اور اہل مدینہ کو بتا دینا کہ جسے نا کارہ اور بوڑھا سمجھ کر جہاد سے روکا گیا تھا اس نے جہاد کا حق ادا کیا یا نہیں۔ یہ بھی ایمان افروز واقعہ ہے کہ حضرت خلادؓ بھی واپس نہیں گئے بلکہ اپنے باپ کے ساتھ شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ دونوں شہدائے احد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ ان شہدا میں نو عمر بھی ہیں‘ ادھیڑ عمر بھی‘ اور بوڑھے بھی۔ ہر ایک کی اپنی شان ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین!
شہدائے احد کی تعداد 70 تھی۔ ان سب کے مقامِ شہادت پر ان کے اجسادِ اطہر کے پاس آنحضورﷺ گئے اور ہر ایک کی زیارت کی۔ جب عمروؓ بن جموح کے جسدِ خاکی کے پاس پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کے نام کی قسم کھا لیں تو وہ اس قسم کو جھوٹا نہیں ہونے دیتا۔ یہ عمر رسیدہ شہید ایسے ہی لوگوں میں سے ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ جنت میں پہنچ چکا ہے اور اس کی ٹانگ کا لنگ بالکل ختم ہو چکا ہے اور وہ جنت کے باغات میں خوش وخرم گھوم پھر رہا ہے۔ حضرت عمروؓ کی اہلیہ حضرت ہندؓ کو مدینہ میں جب پتا چلا کہ ان کے شوہر عمرو بن جموح بھی شہید ہو گئے ہیں‘ایک بیٹے خلاّد بھی شہید ہو گئے ہیں اور بھائی عبداللہ بن ملحان بھی شہید ہو گئے ہیں (رضی اللہ عنہم) تو وہ مدینہ سے احد کی طرف آتے ہوئے بار بار پوچھتی رہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کا کیا حال ہے؟ کیونکہ اس وقت یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ آنحضورﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ صحابہ انہیں بتاتے کہ آپﷺ بخیریت ہیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے جب تک وہ نظر نہ آجائیں مجھے سکون نہیں مل سکتا۔ جب آنحضورﷺ پر نظر پڑی تو اس عظیم صحابیہ کی زبان پر آیا: کل مصیبۃ بعدک جلل یا رسول اللہ۔ (اے اللہ کے رسولﷺ! آپ زندہ اور سلامت ہیں تو ہر مصیبت ہلکی ہے)۔
سبحان اللہ! کیا محبت وعقیدت ہے۔ گھر کے تین اہم افراد شہید ہو چکے ہیں مگر ان لمحات میں بھی رسولِ رحمتﷺ کی فکر دل میں موجزن ہے۔ یہ ہے حقیقی ایمان! پھر حضرت ہندؓ نے اپنے بھائی‘ بیٹے اور خاوندکی میتیں اونٹ پر لادیں اور مدینہ کی طرف روانہ ہونے لگیں۔ اونٹ مدینہ کی طرف منہ کرنے پر ایک قدم آگے نہ بڑھاتا تھا۔ کئی چابک کھانے کے بعد بالآخر وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ جب اس اونٹ کو اٹھانا چاہا تو وہ بمشکل اٹھا۔ یہ دیکھ کر کسی صحابی نے کہا شاید اس کی طاقت سے زیادہ وزن اس پر لادا گیا ہے۔ حضرت ہندؓ نے کہا کہ نہیں! یہ تو اس سے کہیں زیادہ وزن اٹھا سکتا ہے۔ عجیب بات یہ تھی کہ جب اونٹ احد کی طرف منہ کرتا تو تیز تیز چلنے لگتا مگر جب مدینہ کی طرف اس کا رخ موڑا جاتا تو ایک قدم بھی نہ اٹھاتا۔ اس صورتحال پر حضرت ہندؓ بہت پریشان تھیں۔ رسول اللہﷺ نے جب یہ منظر دیکھا تو پوچھا کہ عمروؓ بن جموح نے گھر سے نکلتے ہوئے کیا کہا تھا۔ کہنے لگیں کہ ان کی زبان پر کلمہ طیبہ تھا اور یہ دعا تھی۔ اللھم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک ولا تردنی الی اہلی خائبًا۔ (اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور مجھے ناکام کرکے واپس میرے اہل وعیال میں نہ لوٹانا)۔ آنحضورﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اونٹ اسی وجہ سے مدینہ کی طرف قدم نہیں اٹھا رہا کہ شہیدِ وفا کی دعا قبول ہو چکی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ان تمام شہدا کو احد کے میدان ہی میں دفن کیا جائے گا۔ ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ اس واقعہ کے 46برس بعد احد میں صحابہ کی قبروں کو کھودنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو تمام شہدا کی لاشوں کو اس طرح ترو تازہ پایا گیا کہ جیسے ابھی ابھی ان کی وفات ہوئی ہے۔ قرآن میں بتا دیا گیا ہے کہ یہ حق اور سچ ہے کہ شہدا مرا نہیں کرتے مگر ہم ان کی زندگی کا حقیقی شعور حاصل نہیں کر پاتے۔
حضرت عمروؓ بن جموح میدان احد میں شہید ہوئے‘ ان کے ساتھ ان کا بیٹا خلادؓ بھی بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوا۔ اسی طرح ان کے برادرِ نسبتی حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن حرام اور وفادار غلام حضرت ابو ایمنؓ نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ یوں ایک گھر کے چار شہدا احد کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ حضرت عمروؓ بن جموح کے غلام حضرت ابو ایمنؓ کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ میدانِ احد میں بڑی بہادری اور ثابت قدمی سے لڑتے ہوئے شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔ غلام بھی اپنے آقا کے خاندان کا فرد شمار ہوتا تھا۔ اسی لیے سیرت نگاروں نے احد میں بنو سلمہ کے شہدا کی تعداد چار لکھی ہے۔ حضرت عمروؓ کے تین بیٹے ان کے بعد زندہ تھے۔ اللہ نے ان سب کو کو کثرتِ اولاد سے نوازا۔ آپؓ کے ساتھ حضور اکرمﷺ کی خصوصی شفقت ومحبت کی وجہ سے آپؓ کی آل اولاد کو بھی اللہ نے بڑی عزت وشہرت عطا فرمائی رضی اللہ عنہم اجمعین۔ (ختم)