بھارتی پارلیمان میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی قیادت والی اتحادی حکومت نے جو بجٹ پیش کیاہے، اس نے فی الحال قبل از وقت انتخابات کی قیاس آرائیوں پر لگام لگائی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس کی زیر قیادت متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت اب اپنی پوری پانچ سالہ میعاد مکمل کرکے اگلے سال یعنی اپریل 2014ء کے بعد ہی عام انتخابات کا بگل بجائے گی۔ پچھلے کئی مہینوں سے بھارت میں وسط مدتی انتخابات کی قیاس آرائیوں کا بازار خاصہ گرم تھا۔ کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کانگریس کی مقبولیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اس بجٹ میں عوام کو رجھانے کے لیے حکومت فلاحی سکیموں کے لیے خاصی رقوم فراہم کرکے پارلیمان کو تحلیل کرے گی۔ مگر جو بجٹ وزیر خزانہ پی چدمبرم نے پیش کیا ہے۔ اسکا واحد نشانہ مالی خسارہ پر روک لگانا ا ور معیشت کی سست روی کے پیش نظر اخراجات میں کمی کرناہے۔ کانگریسی رہنماوں کا خیال ہے کہ اس بجٹ کو لیکر شاید ہی وہ انتخابی جنگ کا سامنا کر پائیں گے۔ تاہم انکا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کے اقدامات سے اگلے 6ماہ کے اندر معیشت دوبارہ پٹڑی پر لوٹ آئے گی۔ اور اسکے بعد وہ عوام کو لبھانے والی فلاحی سکیموں کے لیے رقوم کی فراہمی کا بیڑا ٹھاسکیں گے۔ فی الحال بھارتی حکومت نے پاکستان کے بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی طرز پر ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر یعنی کچھ مدوں میں سبسڈی کی رقوم کی براہ راست فراہمی کا اعلان کیا ہے۔ یہ اسکیم اگلے سال فروری تک پورے بھارت میں پھیلا دی جائے گی۔ چار سال قبل من موہن سنگھ حکومت نے انتخابات سے ذرا قبل چھ سو ارب کے قرضے کسانوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کانگریس پارٹی کی حکومت میں واپسی کا سہرا اسی اسکیم کے سر باندھا جاتا ہے۔ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس بارکانگریس ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر کی بیساکھیوں کے سہارے عوام سے ووٹ مانگے گی۔ بہر حال عالمی کساد بازاری اور شرح نمو میں خاصی گراوٹ کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ وزیر خزانہ اس بار دفاعی بجٹ کی مد میں 100ارب کی کٹوتی کر کے رقوم کو فلاحی سکیموں کے لیے مختص کریں گے۔ مگر اس بار بھی مالی سال برائے 2013-14کے بجٹ میں دفاع کی مد میں 240 ارب روپے سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے ۔ موجودہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ کی رقم 1934 ارب روپے مختص کی گئی تھی جسے اب بڑھاکر 2036 ارب کردیا گیا ہے ۔ دفاع کا بجٹ تمام وزارتوں کو ملنے والے بجٹ میں سب سے زیادہ ہے۔ نئے مالی سال کے منجملہ بجٹ کا تخمینہ650 16ار ب روپیے پیش کیا گیا ہے اور اس میں دفاعی بجٹ کا حصہ تقریباً 15 فیصد ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ وزیر خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس رقم میں مزید اضافہ کیا جائے گا ۔ حالانکہ بجٹ کی پیشی سے چند دن قبل وزیر دفاع اے کے انٹونی نے کہا تھا کہ فوجی اخرا جات میں کٹوتی اور اندورن ملک اسلحہ سازی کو فروغ دیا جائے گا کیونکہ حکومت نے اقتصادی ابتری کے پیش نظر اخراجات میں تخفیف کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ایک مشکل دور سے گزررہی ہے لیکن ا یسی کوئی تخفیف نہیں کی جائے گی جس کا منفی اثر مسلح افواج کی تیاری پر پڑے ۔ لیکن وزیر خزانہ نے نہایت فراخدلی سے کام لیتے ہوئے دفاعی بجٹ میں کوئی قابل ذکر تخفیف نہیں کی۔ مسلح افواج نے امسال 239 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا جو قومی مجموعی پیداوار ( جی ڈی پی) کا 2.35فی صد ہے۔ بہر حال نئے بجٹ میں گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں پانچ فی صد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دہائی کے دوران میں ہندوستان نے اپنے دفاعی اخراجات میں تین گنا اضافہ کیا جس کا مقصد فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور جد ید ترین اسلحہ کا حصول ہے تاکہ اپنے روایتی دشمن پاکستان اور چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے مقابلہ کیا جاسکے۔ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں واقع اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ( سپری) کی2012 ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے دنیا کے 15 سر فہرست ملکوں میں ہندوستان کامقام ساتواں ہے اور2011ء میں وہ دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریداربن کر ابھرا ۔ حالانکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ آئندہ دس سالوں میں70فی صد دفاعی ساز و سامان اور اسلحہ اندورن ملک تیار کیا جائے جو سرِ دست صرف 30فی صد تیار ہوتا ہے۔ انڈیکا ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کے چیئرمین اور دفاعی امور کے ماہر دیب رنجن موہنتی کہتے ہیں کہ مسلح افواج کے مطالبہ کو مکمل طور پر تسلیم نہیںکرنے کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر حکومت کی بعض سیاسی مجبوریاں ہیں ۔ ماضی کے دفاعی بجٹوں پر نظر ڈالی جائے تو نئے دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ معمولی نوعیت کامعلوم ہوتا ہے۔ رواں مالی سال کا گزشتہ مارچ میں جب عام بجٹ پیش کیا گیا تھا اس میں دفاعی بجٹ میں 17.63 فی صد کا اضافہ کیا گیا تھا جبکہ سال 2009-10 کے عام بجٹ میں دفاع کی مد میں 34 فی صد کا غیر معمولی اضافہ کیا گیا تھا ۔ نیا عام بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب معیشت روبہ زوال ہے۔ گو وزیر خزانہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ صورت حال اتنی مایوس کن اور تاریک نہیں ہے تاہم انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ آٹھ فی صد کی سالانہ شرح نمو حاصل کرنا ایک چیلنج ہے ۔ اس وقت مالی خسارہ 5.2 فی صد ہے جسے آئندہ مالی سال میں انہوں نے 4.8فی صد تک لانے اور آمدنی کا خسارہ 3.9سے 3.3 فی صد تک لانے کا وعدہ کیا ہے ۔ واضح رہے دفاعی کا بجٹ کا بڑا حصہ یعنی پچاس فی صد بری افواج کو چلا جاتا ہے جبکہ فضائیہ کے لیے پچیس فی صد اور بحریہ کے لیے انیس فی صد نیز دفاعی تحقیق اور تیاری کے ادارہ ڈی آر ڈی او کے لیے چھ فی صد رقم مختص ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ ا قتصادی سرگرمیوں میں سست روی کا اثر فوج کی تیاریوں پڑا ہے ۔فرانس سے 200جدید ترین جنگی طیار ے خریدنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے ۔ حالانکہ فرانس سے اس کا سودا طے ہوگیا ہے لیکن پیسہ کی تنگی کے باعث بھارت یہ طیارے قسط کی بنیاد پر حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ا سی طرح سے امریکہ سے الٹرا لائٹ ہاوذر (توپیں) خریدنے کا معاملہ ملتوی کردیا گیا ہے جنہیں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے سر حدی پہاڑی علاقوں میں نصب کرنا تھا۔دفاع کے ذرائع کے مطابق ہندوستانی بحریہ اپنے روایتی آبدوز کے پرانے بیڑے کی جگہ پر چھ نئی آبدوزیں حاصل کرنا چاہ رہا تھا ۔ مگر یہ منصوبہ بھی فی الحال ترک کردینا پڑا ہے ۔ علاوہ ازیں میدانی علاقوں میں پیدل فوجی دستہ کے ساتھ میزائل شکن ٹینک کی تعیناتی کی تجویز نیز بحریہ کی پرانے سی کنگ ہیلی کاپٹر بیڑے کو بدلنے کی تجویز بھی سرد خانہ کی نذر ہوگئی ہے۔ دفاعی اخراجات میں تخفیف کا قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایاگیا ہے جب بوئنگ کارپوریشن اور مگ رشین ایئر کرافٹ کارپوریشن کی مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں اسلحہ مارکیٹ میں دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ کے پی ایم جی انٹرنیشنل کے مطابق ہندوستان آئندہ پانچ برسوں میں 42ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدے گا۔ بہرحال وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ یقین دلایا ہے کہ ا گر ضرورت پڑی تو وزارتِ دفاع کو مزید رقم فراہم کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ ان سب عوامل کے قطع نظر ، ایک ایسا ملک جس کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی خطِ افلاس سے نیچے رہتی ہے ، جہاں کی تقریباً 75فی صد آبادی کوپینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جہاں ایک تہائی آبادی اب بھی ناخواندہ ہے اور ایک قابل ذکر آبادی متعدد مہلک بیماریوں کا شکار ہے۔ سماجی شعبے بالخصوص تعلیم ، صحت ، علاج ومعالجہ اور دیگر بنیادی سہولیات کی طرف جتنی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اب تک نہیں مل پائی ۔ ہرچند کہ وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا کہ سب کے لیے تعلیم اور سب کے لیے صحت حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہیں لیکن نئے بجٹ میں اسکی کوئی قابل ذکر عکّاسی نہیں ہوتی ہے ۔ ترقی پذیر ملکوں کے گروپ میں بھارت واحد ملک ہے جو صحت پر اپنے جی ڈی پی کے تناسب سے سب سے کم خرچ کرتا ہے۔