بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے سنسنی خیز انکشافات نے جہاں ریاست جموں وکشمیر کی بھارت نواز سیاست اور سیاست دانوں کی ساکھ کو مجروح کیا ہے وہاں ان کے قائم کردہ انتہائی خفیہ یونٹ ’ٹیکنیکل سروسز ڈویژن‘(ٹی ایس ڈی) کی سرگرمیوںنے بھی بھارت کے لیے خارجہ سطح پر مشکلات پیدا کردی ہیں۔مئی 2012ء میں وی کے سنگھ کی سبکدوشی کے فوراً بعد نئے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ٹی ایس ڈی کو تحلیل کرکے اس یونٹ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک محکمانہ انکوائری کا حکم دیا۔ ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیہ کی قیادت میں تقریباً ایک سال کی عرق ریزی کے بعدانکوائری کمیٹی نے ہوش رُبا انکشافات پر مشتمل ایک رپورٹ جولائی میں آرمی چیف کے سپرد کی اور اسے انتہائی خفیہ رکھنے کی تاکید کی۔ سابق آرمی چیف نے ریٹائر ہونے کے بعد حکمران کانگریس کے خلاف سیاسی محاذکھولا ہے، حتّٰی کہ انہوں نے اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کے لیے سابق فوجیوں کا ایک جلسہ بھی منعقد کروایا۔اس وجہ سے کانگریسی زعما کا خیال تھا کی اس رپورٹ کے کچھ اقتباسات افشا کرکے جنرل سنگھ کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے ۔ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ پرت در پرت ظاہر ہونے والی ٹی ایس ڈی کی سرگرمیاںوزیر اعظم من موہن سنگھ کے دفتر اور فارن آفس کے ہوش اڑا دیںگی اور ہمسایہ ممالک کے بارے میں بھارت کی فوجی اور خارجہ پالیسی کے تضاد کو بے نقاب کردیں گی۔ رپورٹ کے افشا کے فوراً بعد حکومتی حلقوں نے خم ٹھونک کر اعلان کیا کہ جنرل سنگھ اور ان کے قائم کردہ خفیہ یونٹ کی سرگرمیوں کی مزید جانچ مرکزی تفتیشی ایجنسی(سی بی آئی) سے کروائی جائے گی اور تفتیش کے اختتام پر ایک چارج شیٹ بھی کورٹ میں پیش کی جائے گی۔ تب تک جنرل سنگھ کے خلاف الزامات کا دائرہ کشمیر میں سیاستدانوں کو رقوم کی فراہمی اور وزارت دفاع کے افسروں اور فوج میں اپنے مخالفین کی فون کالزٹیپ کرنے تک محدود تھا،مگر جب یہ رپورٹ وزیراعظم کے دفتر پہنچی تویہ ہوش رُبا انکشاف ہوا کہ نہ صرف اس فوجی یونٹ نے پاکستان کے اندر آپریشن ’ڈیپ اسٹرائیک‘ کے کوڈ نام کے تحت کارروائیاں کی ہیں بلکہ چینی صوبہ سنکیانگ تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے تو اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ جامع تحقیقات آئی بی آئی کے بجائے انٹیلی جنس ایجنسی (آئی بی) کے سپر د کی جائے تاکہ تحقیقات خفیہ رہے، جنرل سنگھ کے سرپر تلوار لٹکتی رہے اور مزید انکشافات کی پردہ پوشی بھی کی جاسکے۔ جنرل بھاٹیہ کمیٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس خفیہ یونٹ نے ایک ہمسایہ ملک میں آٹھ بم دھماکے کرنے کے لیے وسائل فراہم کیے اور ایک دوسرے ہمسایہ ملک میں سیاسی اور مذہبی بے چینی کو ہوا دی۔ بلوچستان کا نام لیے بغیر رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ اس یونٹ نے ہمسایہ ملک میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو نہ صرف وسائل فراہم کیے بلکہ انہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی تحریک بھی دی۔ دراصل جنرل سنگھ کے پیش روجنرل دیپک کپور نے اس طرح کاایک ڈویژن قائم کرنے کی تجویز وزیر دفاع اے کے انٹونی کو پیش کی تھی جس پر کابینہ کی سلامتی سے متعلق کمیٹی میں بحث بھی ہوئی۔ فوج کے ایک حلقے کا کہنا ہے کہ انٹونی نے جنرل سنگھ سے پہلے ہی اس یونٹ کے قیام پر اپنی مہر ثبت کردی تھی ، مگر انٹونی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ یونٹ سیاسی منظوری کے بغیر قائم کیاگیاتھا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ وزیردفاع میں شاید اس طرح کا کوئی فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہے کیونکہ ا ن کاپورا زور اور وقت اپناتاثر برقرار رکھنے میں صرف ہوتاہے۔ بھارت میں ان کا شمار نہایت ایماندار اور سادہ زندگی بسر کرنے والے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ جنوبی ریاست کیرالا کے ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو سیاست کے قریب پھٹکنے دیا نہ اپنے آرام و آسائش کے لیے سرکاری مراعات لیں۔اس وجہ سے نہ صرف کانگریس پارٹی میں بلکہ ملکی سیاست میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، مگر ان کی شخصیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ قوت فیصلہ سے عاری ہیں۔ کئی کئی برس تک فائلیں ان کے دستخط کی منتظر رہتی ہیں۔ اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انٹونی کا ٹی ایس ڈی کے قیام کا فیصلہ کرنا اور اس کا مینڈیٹ طے کرنا ناممکنات میںسے ہے۔ حقائق جو بھی ہوں،اس یونٹ نے اپنا کام باضابطہ طور پرجنرل سنگھ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد مئی2010 ء سے شروع کیا اور40 افراد ،جن میں آٹھ افسران اوربتیس دوسرے رینکس کے اہلکارتھے ،کو اس کے کورگروپ میں شامل کیا گیا۔ یہ افراد براہ راست آرمی چیف کو رپورٹ کرتے تھے جبکہ انتظامی طور پر ان کو ملٹری انٹیلی جنس کے ایم ون 25 کے ماتحت رکھا گیا۔ اس مدت کے دوران کئی مقامات ،خصوصاً جموں، سرینگر، احمدآباد، گوھاٹی اور ممبئی میں اس یونٹ نے کئی خفیہ ٹھکانے بنائے اور انتہائی جدید ٹیلی فون ریکارڈنگ مشینیں درآمد کیں۔اس پیشرفت کے بعد انٹیلی جنس بیورو کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سویلین انتظامیہ کو متنبہ کیاکہ فوج غیرقانونی طور پر افسروں اور سیاسی قیادت کے فون ٹیپ کررہی ہے۔ چند مشینوں کے سوا ،جنہیں لائن آف کنٹرول پر متعین کیا گیا تھا، باقی مشینوں کو آئی بی نے گزشتہ برس ناکارہ بنادیا اور ان میں سے ایک کو سرینگر میں دریائے جہلم کی نذر کردیاگیا۔ اس یونٹ کا ہیڈکوارٹر دہلی کی فوجی چھائونی کے اندردومنزلہ عمارت میں بنایاگیا جو جلد ہی فوجیوں میں Butchery یعنی ’قصاب خانہ‘کہلانے لگا۔ڈویژن کی کمان جنرل سنگھ نے اپنے ایک دیرینہ رفیق کار کرنل مہیشور ناتھ بخشی المعروف ھنی بخشی کے سپرد کی ۔ مینڈیٹ کے بارے میں آرمی افسروں کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف بھارت کی سکیورٹی پر اثر انداز ملکوں کے اندر آپریشن کرکے عسکریت کے منبع کا قلع قمع کرنااور اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ان ملکوں میں علیحدگی پسندعناصرکو وسائل فراہم کرنا اور ملک میںجاری شورش ختم کرنا تھا۔جنرل سنگھ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان آپریشنز کی بدولت ہی 2010ء کے بعد کشمیر میں کوئی بڑی عوامی تحریک برپا نہیں ہوئی اور اس یونٹ کے خاتمے کے بعدہی سرحدوں پر دراندازی میں اضافہ ہوگیاجو بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کا بنیادی سبب ہے۔ فوجی افسروں کے مطابق یہ سارے اہداف صرف 20سے30کروڑ روپے سالانہ خرچ کرکے حاصل کیے گئے۔ ان کے بقول کشمیر میں آزادی کی جنگ کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستاں محض40 سے 50کروڑ سالانہ خرچ کرتا ہے مگر اسکا توڑ کرنے کے لیے بھارت کو دس ارب یعنی ایک ہزارکروڑ روپے سے زیادہ رقم خفیہ معلومات کے حصول اور دیگر امور پر خرچ کرنا پڑتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنی مدت کار میں ٹی ایس ڈی نے تین درجن عسکری کارروائیوں کوقبل از وقت سبوتاژ کیا۔ فوجی افسروں کا دفاع اپنی جگہ مگرحقیقت یہ ہے کہ اس ڈویژن کی سرگرمیاں بھارتی وزارت خارجہ کے گلے کی ہڈی بنتی جارہی ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کی موجودگی اور اس کے افشاکے بعد اب وہ ان آپریشنز کی تردیدکرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں ہے۔ فی الحال ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمسایہ ممالک میں کوئی اس پوزیشن میں نہیں جو ان انکشافات کو بھارت کے خلاف سفارتی محاذ پر استعما ل کر سکے۔