"IGC" (space) message & send to 7575

خفیہ ایجنسیاں اور نئی حکومتیں

بھارت کے قومی دارالحکومت دہلی میں نوزائیدہ عام آدمی پارٹی(عاپ) کی حکومت کا قیام جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔ روایتی سیا ست میں جہاں بدعنوانی اور پیسہ لازم و ملزوم بن چکے ہیں، عاپ کے سربراہ اروند کیجری وال نے دکھادیا کہ ایمانداری،شفافیت اور قلیل رقم خرچ کرکے بھی انتخابات جیتے جاسکتے ہیں۔لیکن ماضی کے تجربات یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس طرح کے حکمران جلد ہی روایتی سیاست کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور عوام ایک بارپھرکسی انقلاب یا مسیحا کاانتظارکرنے لگتے ہیں۔ 
سیاسی مبصرین اکثر کہتے اور لکھتے ہیں کہ حکومتوں کی تبدیلی سے سرکاری پالیسیاں نہیں بدلتیں؛البتہ چند پالیسیاں تغیر پذیر حالات کے باعث ازکار رفتہ ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے؟ اس کا رازکیا ہے؟ روس کی خفیہ ایجنسی 'کے جی بی‘ کے ایک سابق ایجنٹ جنرل بورس رتینکوف نے چند سال قبل انکشاف کیاتھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے اور بعد میں اس ایجنسی نے روسی قیادت کے فیصلوںاور پالیسیوں پراثرانداز ہونے کے لیے دماغ کوکنٹرول کرنے والی خصوصی تکنیک استعمال کی تھی۔ جنرل ریتنکوف جنہوں نے کے جی بی کے ماسکو ریجن کے لیے کام کیاتھا،بتایا کہ 1980ء کے دہائی کے وسط میں سوویت یونین میں تقریباً پچاس ریسرچ اداروں میں دماغ کوکنٹرول کرنے کی تکنیک سکھائی جارہی تھی۔ ذہن کو قابوکرنے کی تیکنیک صرف سائنس فکشن کا حصہ نہیں رہی بلکہ اب اس کا استعمال انٹیلی جنس ایجنسیاں بڑی چابکدستی سے کررہی ہیں، جس کے ذریعے وہ حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے ذہنوں پراثراندازہوکر بالواسطہ طریقے سے حکمرانی کرتی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ امریکہ میں جب صدر بارک اوباما کا سورج طلوع ہوا،انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے علاوہ دنیا کے لوگوں میں 
اوربھی کئی امیدیں جگائیں۔ اس دوران بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ میں اسرائیل اور فلسطین کے دورے پر تھا۔تقریباً سبھی اسرائیلی اخباراوباما کی مشرق وسطٰی سے متعلق نئی پالیسیوں اوران کے اسرائیل پر پڑنے والے اثرات کے تجزیوں سے بھرے پڑے تھے۔ تل ابیب میں اسرائیلی ملٹری ہیڈکوارٹرزمیں جب میں نے اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کی خاتون سربراہ سے اوباما کے وعدوں کے حوالے سے سوال کیا تواس نے مسکراتے ہوئے نہایت پُراعتماد لہجے میں بس اتنا کہا کہ اوباما روایتی امریکی پالیسی کی نفی نہیں کرسکتے، وہ جلد ہی اقتدار کی حقیقتوں سے آگاہ ہوجائیںگے۔
بھارت کے سابق انٹیلی جنس افسر تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح دوسری تمام خفیہ ایجنسیاں یہ تکنیک استعمال کرتی ہیں، اسی طرح ان کی خفیہ ایجنسی بھی اسے استعمال کررہی ہے۔ریاست مہاراشٹرکے سابق آئی جی پولیس اور بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے سابق سینیئر افسر ایس ایم مشرف کہتے ہیںکہ 'حکومت کی تبدیلیوں سے پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی،اس کے لیے خفیہ ایجنسی کا نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ذہن توڑنے اور بنانے کی سائنٹیفک تکنیک متعارف کرانے کا سہرا جرمن جاسوسی ایجنسیوں کے سرجاتا ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں اسے سب سے پہلے استعمال کیا تھا، بعدمیں امریکی جاسوسی ایجنسی سی آئی اے اور کے جی بی نے اس میدان میں دسترس حاصل کرلی ۔ دنیا کے کئی حصوں میں سیاسی اتھل پتھل مچانے والی ان دونوں ایجنسیوں نے گزشتہ پانچ عشرے مائنڈکنٹرول کرنے کے طریقوں کو راز میں رکھا، لیکن آج یہ دنیا کی تقریباً تمام جاسوس ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔ داخلی ذرائع کے مطابق ان طریقوں کااستعمال نہ صرف اپنی قلم روکو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے بلکہ دوسری حکومتوں پراپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے بھی ان سے کام لیاجاتا ہے۔ریتنکوف کے مطابق روس کے صدربورس یلسن نے 1992ء میں جاپان کا دورہ کرنے کا قصد کیا، لیکن ان کے ادارے نے معلوم کرلیا کہ وہ جاپان کو' کورل جزائر‘ واپس دینے کا ذہن بنا چکے ہیں، اگر اس منصوبے پر عمل ہوجاتا تواس کے نتیجے میں چین بھی روس سے اپنے متنازعہ علاقے واپس لینے کا مطالبہ کرسکتاتھااورہمسایہ ملکوں میں جنگ بھی چھڑ سکتی تھی؛ چنانچہ کے جی بی نے یہ تکنیک استعمال کی جس کے زیراثرآکریلسن نے اپنا دورہ جاپان منسوخ کردیا۔ 
حال ہی میں سی آئی اے کی ایک خفیہ دستاویزمیں انکشاف کیا گیا ہے کہ دسمبر 1947ء میں اس وقت کے امریکی وزیردفاع جیمز فارسیٹل نے سی آئی اے کو سوویت یونین کے خلاف خفیہ جنگ شروع کرنے کا حکم دیا تھا،ان کے اس اقدام کے نتیجے میں یورپ میںاعصابی جنگ(Psychological Warfare)کا سلسلہ شروع ہوا تھا،اس منصوبے کا نام Hypnotic Experimentation & Research رکھاگیا تھااوراس کا خفیہ نام 'بلو برڈ‘ تھا۔ اس کا آغاز 20 اپریل 1950ء کو سی آئی اے کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائرکٹر ایلن ڈیولس کی قیادت میں کیا گیا۔ بلوبرڈ پروجیکٹ کو یہ اہم اختیاربھی دیا گیا تھا کہ وہ کسی شخص کو اپنی تکنیک کے ذریعے ایک یا دوگھنٹے کے اندرہوائی جہاز کو بم سے اڑانے یا ٹرین کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔بلوبرڈکو یہ اختیار بھی دیاگیاکہ وہ اپنے 'معمول‘ (کارندے) پر یہ تجربہ آزماسکتے ہیں کہ وہ جاسوسی اور تخریبی کارروائیوں جیسے کاموںکے لیے طویل مسافت کرنے پرآمادہ ہوجائے۔اس بارے میں سی آئی اے کے ایک سابق ریسرچر کیرول روز نے بتایا کہ کس کامیابی سے یہ تجربہ دو خاتون کارندوں پر آزمایا گیا تھا۔ ایک مقالے میں اس نے تحریرکیا کہ ان دونوں خواتین سے لاشعوری طور پر بم نصب کرایا گیا اور یہ کام انہوں نے پوری مہارت سے انجام دیا؛ تا ہم انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کون سا کام انجام دیا ہے۔ سی آئی اے کی مالی مدد سے قائم کیے گئے ڈاکٹرایون کیمرون کے پروجیکٹ کے تحت مائنڈکنٹرول کرنے کے تخریبی نوعیت کے جو''غیر اخلاقی‘‘ تجربات کیے گئے، ان میں ذہن سازی کی جوتین قسم کی تکنیکیںاستعمال کی گئیں ان میں منشیات کی لت ڈالنا ‘ نیند کو طول دینا اور طویل وقفے تک نفسیاتی تنہائی میں رکھناشامل تھا۔گیارہ سالہ لڑکے کے دماغ میں جب برقی رو (Electrode) دوڑاکر ہیجان پیدا کیا گیا تووہ کسی حد تک اپنی پہچان بھی بھول گیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کنپٹی پر برقی رو کے ذریعے زبردست ہیجان پیدا کرنے کے نتیجے میں 'معمول‘ اپنی جنسی شناخت کے بارے میں بھی شبے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس کیفیت میں اس سے کوئی کام کرانے کے لحاظ سے اس تجربے کی تاثیرکو قابل اعتماد، کامیاب ترین اوراعداد و شمارکے لحاظ سے اہم قراردیاگیا۔اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے 1974ء میں ایک ایسا کمپیوٹر سسٹم تیارکیا تھا جو ایک مخصوص فاصلے سے قلبی حملہ کرکے یا دماغی لہروں میں باہمی تعلق پیدا کرکے کسی فرد کے ذہن کو پڑھنے اور سمجھنے کااہل تھا۔آج اس ٹیکنالوجی میں جو تازہ ترین اضافہ ہوا ہے اس کے تحت کسی بھی نشان زدہ فرد یا انسانی گروہ کونشانہ بنانامقصود ہو تو ان کی دماغی لہروں یا ہیومن ای ای جی کے ہم شکل (Clone) تیار کیے جاتے ہیں اوربعد ازاں ان میں مطلوبہ جذبات نبض کی رفتارکے ساتھ پیوست کیے جاتے ہیں اور یہی جذبات جب خاموشی سے دوسرے انسان میں منتقل کیے جاتے ہیں تو وہ اس میں بار بار عود کر کے آتے رہتے ہیں۔ 
ماہرین کا خیال ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں آج بڑی حد تک ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بن گئی ہیں اور وہ جس قدر رازداری سے کام کرتی ہیں اور اپنے میدانِ کار کی حفاظت کرتی ہیں اس کی وجہ سے ان کے کام پرنظر رکھنا ایک مشکل امر بنتا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں کی طویل مدت تک خفیہ کارروائیاں کرنے کی اہلیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایجنسیاں بعض اوقات اپنے اختیارات سے تجاوزکرکے کام کرتی ہیںکیونکہ ان کی کوئی باز پرس نہیں ہوتی ۔
اس کالم کا مقصدکسی کومایوس کرنا نہیں،ہم دعاگوہیںکہ اروند کیجری وال جو ایک مسیحا بن کر آئے ہیںکامیابی سے ہمکنار ہوں،ایجنسیوں کی کارستانیوں سے محفوظ رہیں اورایک ایسے انقلاب کی داغ بیل ڈالیں جوخاندانی سیاست اور جاگیرداری سے مبراہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں