بھارت کی حکمران کانگرس پارٹی اس وقت اپنی126 سالہ تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ گو کہ مختلف وجوہ کی بنا پر90 ء کے اوائل میں ہی اس پارٹی کا زوال شروع ہوچکا تھا، مگر1998ء میں موجودہ صدر سونیا گاندھی نے کمان سنبھال کر پارٹی ورکروں کو متحرک کرکے2004ء میں حلیفوں کے سہارے ایک بار پھر پارٹی کو مسندِ اقتدار تک پہنچایا۔ موجودہ بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً رائے عامہ کے سبھی جائزوں کے مطابق مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں یہ پارٹی 543 رکنی ایوان میں آزادی کے بعد پہلی بار10 کا ہندسہ بھی پار نہیں کر پائے گی۔ یعنی اگلی پارلیمنٹ میں پارٹی کی سیاسی وقعت او رحیثیت خاصی متاثر ہوگی۔
سونیا گاندھی نے زمام صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد 1998ء میں وسطی بھارت کے ایک سیاحتی مقام پنچ مڑی میں پارٹی کے پالیسی سازوں کا اجلاس بلایا۔ جس میں طے ہوا کہ پارٹی اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین حاصل کرنے کے لیے کسی بھی دوسری پارٹی سے اشتراک نہیں کرے گی۔ کیونکہ زعما ء کا خیال تھا کہ شمالی بھارت میں خاص طور پر اترپردیش اور بہار میں انتخابی سمجھوتوں کی وجہ سے پارٹی کی سیاسی حیثیت کھسک گئی ہے۔ مگر''اکیلے چلنے‘‘ کی یہ پالیسی بری طرح ناکام رہی۔2004ء تک مرکز اور صوبوں کے انتخابات میں، پارٹی کوخاصی ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے ایک سال بعد 2003ء میں پارٹی نے ایک بار پھر شملہ میں پالیسی سازوں کو جمع کیا، جس میں ''اکیلے چلنے‘‘ کی پالیسی میں ترمیم کرکے سیکولرازم کو بچانے اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے ہم خیال پارٹیوں کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ اس کامیاب حکمت عملی کے نتیجے میں کانگریس کی قیادت میں18 پارٹیوں کی مدد سے متحدہ ترقی پسند اتحاد کی تشکیل ہوئی، جس نے ایک سال بعد 2004ء میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد حکومت کو انتخابات میں شکست دی۔
تقریباً9 سال تک حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد پچھلے سال ایک بار پھر کانگریس نے جے پور میں پالیسی سازوں کا ایک سٹریٹجک اجلاس طلب کیا۔ حیران کن امر یہ تھا ، کہ اس اجلاس کے اختتامی ڈیکلیریشن میں سیکولرازم کو بچانے یاکمیونلزم کے خلاف جنگ کا کوئی ذکر نہیں تھا، بلکہ توجہ نئے چیلنجز پر مرکوز کی گئی یعنی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات سے نپٹنا، گورننس اور نوجوان طبقہ کو پارٹی کی طرف مائل کرنا ۔ شاید پارٹی کو تب امید نہیں تھی کہ اس کی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کرے گی، جس کے دور حکومت میں 2002ء میں گجرات کے طول و عرض میں مسلم کش فسادات ہوئے۔ مگر جے پور ڈیکلیریشن سے کانگرس، نوجوانوں یانئے ووٹروں کو راغب نہ کر پائی بلکہ اُلٹا اپنے روایتی ووٹروں کو بھی بدظن کردیا۔
پانچ ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی ذلت آمیز شکست اور پارٹی میں چھائی بد دلی کے تناظر میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کے لئے حکمت عملی طے کرنے کی غرض سے پارٹی نے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک بار پھر 17 جنوری کو کل ہند کانگرس کمیٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس بلایا ۔ اس سے ایک دن پہلے یعنی 16 جنوری کو پارٹی کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز انجمن مجلس عاملہ یعنی کانگرس ورکنگ کمیٹی میںیہ اعلان کردیا گیا تھا کہ راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں بنایا جائے گا جس کی تصدیق عام اجلاس میں کی گئی ۔ مگر یہ اجلاس اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں ایک بار پھر سیکولرازم کو بچانے کی دہائی دے کر ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کی گئی۔ تاکہ نریندر مودی کے مارچ کو روکا جاسکے۔ بی جے پی پر فرقہ پرستی اور تشدد کو ہوا دینے کا
الزام عائد کرتے ہوئے سونیاگاندھی نے کہا کہ سیکولرازم پارٹی کے لیے سیاسی ضرورت نہیں بلکہ یہ ا س کے لیے عقیدہ کا معاملہ ہے، اور پارٹی سیکولر روایات کو قائم رکھنے کے لیے اپنی جد وجہد جاری رکھے گی۔پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی نے زوردار اور جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے بی جے پی با لخصوص مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت فرد واحد کا نام نہیںہے جس پر ایک شخص کی عملداری ہو۔ ہم دوسروں ( مخالفین ) کی طرح لوگوں کو آپس میں لڑاتے نہیں ہیں اور فرقہ وارانہ نفرت نہیں پھیلاتے ۔ جو لوگ کانگرس کو ختم کرنے کی سوچ رہے ہیں وہ خود ختم ہوجائیں گے ۔ مودی کی مارکیٹنگ اور پروپیگنڈا مہم پر چوٹ کستے ہوئے راہول نے کہا کہ وہ گنجوں کو بھی کنگھا فروخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے نوخیز جماعت عام آدمی پارٹی کو بھی نشانہ بنایا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ انتخابی نتائج نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کافی متفکر کردیا ہے کیونکہ اس نے پارٹی کی صفوں میں بھی ایک طرح کی مایوسی طاری کردی ہے ۔ کرپشن اور ہوشربا مہنگائی ، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے میں ناکامی اور متکبرانہ رویہ کے سبب پارٹی کی مقبولیت کا گراف پہلے ہی سے زوال پذیر تھا، اس شکست نے اسے دوچند کردیا ۔ اجلاس کا مقصد کانگرس کی صفوں میں نئی جان ڈالنا تھا ۔ مگر یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا راہول اس مقصد میں کامیاب ہوں گے ؟ اپوزیشن بالخصوص بی جے پی، کانگرس سے زیادہ راہول کو نشانہ بنارہی ہے ۔ کیونکہ راہول جمہوریت کے نام پر خاندانی سیاست کی علامت بن چکے ہیں ۔
الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا ایک بڑا حلقہ بھی ایک منصوبہ بند طریقے سے مودی بنام راہول کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ حالانکہ خود راہول گاندھی کئی موقعوں پر یہ واضح کرچکے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کا منصب ان کی ترجیح نہیں ، لیکن اسے کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ویسے کانگرس کے اند ربھی ایک چھوٹا حلقہ موجود ہے جو نہیں چاہتا کہ راہول کو پروجیکٹ کیا جائے۔ اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات راہول کی قیادت میں لڑے گئے۔ انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اسی طرح پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ کانگرس کی انتخابی مہم کے کرتا دھرتا تھے۔جہاں انہوں نے اپنی انتخابی تقریروں میں جو باتیں کہیں، ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ عوامی مسائل سے کماحقہ واقف نہیں ہیں۔ اسی طرح مظفر نگر کے فساد زدگان کے سلسلہ میں ان کا یہ بیان کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی مسلمانوں سے رابطے قائم کر رہی ہے، ان کے غیر ذمہ دارانہ اور سطحی ذہن کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے خفیہ ایجنسی کے ایک معمولی اہلکار کے کہنے پر اتنی بڑی اور سنگین بات کہہ دی ۔ دوسری طرف وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پربھارت کو ' سپر پاور ‘ بنانے کی دھن اس قدر سوار ہے کہ انہیں عام آدمی کی پریشانیوں کا کوئی احساس ہی نہیں ہے ۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں نے عوام کو پارٹی سے بدظن کردیا ہے۔
کانگرس نے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو نیک نیتی سے پور انہیں کیا ۔ اس کے لیڈر عوام سے بڑی حد تک لا تعلق ہوگئے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ' زر خرید‘ غلام سمجھ رکھا ہے ۔ بہرحال اپنی حالیہ شکست سے سبق لیتے ہوئے پارٹی نے عام آدمی پارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقات سے براہ راست رابطے قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اس سلسلہ میں اقلیتوں کے نمائندوں کا بھی ایک اجلاس منعقد کیا ۔ جس میں ملک بھر سے مسلمانوں کے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے دو سو نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا، ان میں راقم بھی شامل تھا۔ اس موقع پرمسلم نمائندوں نے بغیر کسی لاگ لپٹ کے بیک آواز کہا کہ یو پی اے حکومت کو دس سال حکمرانی کا موقع ملا مگر اس نے کسی اقلیت اور بالخصوص مسلم فرقہ کی بہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ۔ مسلم ریزرویشن نیز دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ اسی طرح فرقہ پرستی کی بیخ کنی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔گجرات قتل عام کے ذمہ داروںکو سزا دلانے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ خفیہ ایجنسیوں کو بے لگام چھوڑ دیا جو آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر فرقہ وارانہ ماحول کو مکدر کرتی رہتی ہیں؛چنانچہ اب پارٹی کس منہ سے یہ توقع رکھتی ہے کہ مسلمان اس کی دوبارہ حمایت کریں گے جن کے بل بوتے پر وہ لگاتار دو مرتبہ بر سر اقتدار آئی۔ اب راہول گاندھی کی اس یقین دہانی پر کہ پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے مطالبات کی ترجمانی کی جائے گی، کون یقین کرے گا ؟
غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ آئندہ انتخابات میں علاقائی جماعتوں کا دبدبہ قائم ہوسکتا ہے جیسا کہ 1996ء کے عام انتخابات میں دیکھنے میں آیا تھا ۔ اس وقت بہار ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال ،تامل ناڈو، اتر پردیش، اور اڑیسہ جیسی بڑی ریاستوں میں علاقائی جماعتیں بر سر اقتدار ہیں ۔ کانگرس کو جن ریاستوں میں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے ان میں راجستھان ، مدھیہ پردیش ، گجرات، مغربی بنگال اور آندھر پردیش ہیں۔