یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ دہلی اور سرینگر کے رشتوں کی تاریخ وعدہ خلافیوں اوراعتماد کے فقدان سے عبارت ہے جس کا اکثر مظاہرہ تشددکی شکل میں برآمد ہوا۔ مرکزی حکومت نے مئی1996ء میں پھر وہی غلطی کی جب اس نے وہاں پارلیمانی الیکشن منعقد کرائے۔ یہ انتخابات علیحدگی پسندوں کی با ئیکاٹ کال اور طاقت کے زور پر لوگوں سے ووٹ ڈلوانے کے حوالے سے بدنام رہے ۔ حتیٰ کہ ریاست کی بھارت نواز واحد سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھی اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا ۔نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ جو لندن میں آرام فرمارہے تھے ، اس بات پر مصر تھے کہ جب تک کوئی آئینی تبدیلی نہیں کی جاتی ،ان کی جماعت انتخابی عمل میں شامل نہیں ہوگی ۔ ان کے اس مطالبہ کی بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسیمارائو کا افریقی ملک برکینا فاسو میں دیا گیا یہ مشہور بیان تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں بھارتی حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ اسی سے حوصلہ پاکر فاروق عبداللہ نے نومبر 1995ء میں وزیر اعظم کو ایک میمورنڈم پیش کیا تھا۔ اس سے ایک سال قبل ڈاکٹر عبداللہ اس بھارتی وفد کے ایک رکن تھے جو جنیو ا گیا تھا تاکہ ایران کو اس بات کے لئے راضی کیا جاسکے کہ وہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں او آئی سی کی قرارداد کو رکوائے ۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن میں پیش کی جانے والی تھی، جس میں حقوق انسانی کی پامالی کے معاملہ پر بھارت کی مذمت کی گئی تھی ۔ اگر یہ قرار داد منظور ہوجاتی تو اسے بھارت کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنے اور تادیبی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا جاتا۔
انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی طرح او آئی سی میں بھی کوئی قرارداد اتفاق رائے کی بنیاد پر منظور کی جاتی ہے ۔ ایران کی مخالفت کے باعث یہ قرارداد منظور نہیں ہوسکی ۔ نجی طور پر ڈاکٹر عبداللہ نے بتایاکہ ان سے اس وقت حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ اگر بھارت اس شرمساری سے بچ جاتا ہے تو اس کے عوض جموں و کشمیر
کی1953 ء سے قبل کی آئینی حیثیت بحال کی جائے گی جسے عرف عام میں وسیع تر خود مختاری کہا جاتا ہے ۔ یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب بھارت سخت معاشی مشکلات سے گز ر رہا تھا اور اس کے سونے کے ذخائر رہن رکھے ہوئے تھے ،لیکن رائو حکومت نے یہ وعدہ ایفا نہیں کیا ۔ان کے جانشین دیو گوڑا نے عبداللہ کو اکتوبر 1996 ء کے اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کیا اور انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ سرینگر اور دہلی کے درمیان آئینی رشتوں کی نئی تشریح کے لئے بالکل آزاد ہوں گے اوروہ اس کے لئے اسمبلی سے قرارداد منظور کرواسکتے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کشمیر اسمبلی نے قانونی عمل مکمل کیا اور ریا ستی اٹانومی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر کے 26جون 2000ء میں اس پر قرارداد پاس کی تو بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اسے حقارت سے مسترد کردیا ۔ سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس دھتکا ر کے باوجود ڈاکٹر عبداللہ این ڈی اے کا حصہ بنے رہے اور ان کا بیٹا عمر عبداللہ واجپائی کابینہ میں شامل رہا ۔
ان وعدہ خلافیوں اور کشمیر کی آئینی حیثیت کے بارے میں ممتاز آئینی ماہر اور وکیل اے جی نورانی نے اپنی تازہ تصنیف میں دستاویزی حوالے سے جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب 'آرٹیکل 370: کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں و کشمیر کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے ۔ کتاب میں کشمیریوں کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیوں، معاہدوں کی عدم پاسداری اور کشمیری رہنمائو ں کی اس کے خلاف ڈٹ جانے کے بجائے اقتدار سے چمٹے رہنے کی حرص کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کئی موقعوں پرخود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی ہے ۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے آرٹیکل 370 کی تدوین اور ان تمام دستاویزات اور اس کے متعلق دیگر ایشوز کا مبسوط احاطہ کیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ریاست کو بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے وقت جو ضمانتیں اور آئینی تحفظات فراہم کئے گئے تھے ،ان کو کس طرح روندا گیا ہے ۔کتاب میں 1947 ء میں الحاق سے لے کر اب تک مختلف مواقع پر مذاکرات ، شیخ عبداللہ کی گرفتاری ، ریاست کے آئین کی تشکیل اور صدر ریاست کے عہدہ کی تبدیلی تک ہر چھوٹی بڑی بات کو شامل کیا گیا ہے اور اس کے لیے تمام دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے گئے ہیں۔ اس محققانہ کتاب میں وائٹ پیپرز، فرمان و اعلانات ، مکتوبات ، میمورنڈم اور رودادیں نیز نایاب مواد شامل ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آرٹیکل 370ایک عبوری انتظام تھا کیونکہ بھارتی حکومت کی 60ء کی دہائی تک پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ کتاب کے مطابق حکومت ہند نے 1948ء میں جموں و کشمیر پر ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے : ' الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوںسے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی ۔‘ اس آرٹیکل کو اس بری طرح سے مسخ کردیا گیا ہے کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ 4 دسمبر 1964ء کو اس وقت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے لوک سبھا میں اعتراف کیاتھا کہ اب اس کا (آرٹیکل370) صرف خول ہی بچا ہے۔ ' آرٹیکل370کو برقرار رکھا جائے یا نہ رکھا جائے ، یہ با لکل بے اثر ہوچکا ہے اس میںکچھ نہیں بچا ہے۔‘
یہ کتاب بی جے پی کے لئے سوہان روح ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں دستاویزی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے اس کی مکمل حما یت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی ۔ کتاب جموں و کشمیر کی 1953ء سے قبل کی خود مختاری بحال کرنے کی بھرپور وکالت کرتی ہے ،جو نہرو ، ان کے رفقاء اور وزیر اعظم شیخ عبد اللہ کے درمیان مئی سے اکتوبر 1949 ء کے دوران میں پانچ ماہ کے طویل مذاکرات اور آئین ساز اسمبلی میں طویل بحث کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔ کتاب کے مطابق کشمیر واحد ریاست ہے جس نے بھارت سے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر بھارتی حکومت سے مذاکرات کئے تھے ۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا ۔ مصنف نورانی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہد ہ ہے ،جس کی کسی بھی شق میں کوئی بھی فریق یکطرفہ ترمیم نہیں کرسکتا ۔ نورانی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ این گوپال سوامی نے16اکتوبر 1949 ء کو اس سلسلہ میں پہلی 'خلاف ورزی‘ اس وقت کی جب انہوں نے یک طرفہ طور پر مسودہ میں تبدیلی کی جسے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر انہوں نے پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی تھی ۔ جیسے ہی عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے لیکن تب تک یہ ترمیم شدہ بل پاس ہوچکا تھا ۔ بقول مولف: 'یہ ایک افسوس ناک اعتماد شکنی کا معاملہ تھا جس نے بد اعتمادی کی فضا کو جنم دیا ‘۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہیں تھا ۔
کشمیر کے بارے میں دستور ساز اسمبلی میں ہوئی بحثوںکا مصنف نے بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے محل نہیں ہوگا کہ 1951 ء میںکشمیر اسمبلی کے لئے جو انتخابات منعقد کئے گئے ،ان میں انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے ۔ چنانچہ تمام امیدوار ' بغیر کسی مقابلے ‘ کے ' منتخب ‘ ہوئے تھے ۔ یہ وہی اسمبلی تھی جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کی دستاویز کی توثیق کی تھی۔ اس اسمبلی کے جواز پر سوال کھڑا کیا جاسکتا ہے کیونکہ پانچ فی صد سے بھی کم لوگوں نے اس کی تشکیل میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلہ میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی ۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے خود کھولی ہے ۔ ان کے بقول 'ان امیدواروں کے پرچہ نامزدگی کو مسترد کردیا گیا جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے ۔‘ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔ بہر حال مؤلف کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی قوت ارادی ، مقصد کی سنجیدگی اور مصالحت کے جذبہ کے ذریعہ آ رٹیکل 370کے ملبہ کو دوبارہ بحال کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے جس کے توسط سے ریاست کے لوگوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے ۔ نوارنی نے اس سلسلہ میں ایک مسودہ بھی پیش کیا ہے جو نئی دہلی اور سرینگر کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کے ضمن میں ہے ۔ یہ بہترین موقع ہے کہ مرکزی حکومت و قائدین ، کشمیر کے لئے حکومتی ایلچی یا ثالث اور کشمیری لیڈر نوارنی صاحب کی اس تجویز پر تبادلہ خیال اور غور خوض کریں اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب ایک نیا قدم اٹھانے کی جرأت کریں۔