"IGC" (space) message & send to 7575

مودی سرکار کو درپیش چیلنجز

بھارتی پارلیمنٹ میں بھرپور اکثریت رکھنے والی،وزیراعظم نریندرکی حکومت کو داخلی اور خارجی دونوں سطح پر اہم چیلنج اور سنگین مشکلات در پیش ہیں۔ انتخابی دور ختم ہوتے ہی سیاستدانوں کے ایک دوسرے کے خلاف تندوتیز بیانات اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کا سلسلہ بھی بند ہوگیا ۔ اب وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے لئے آزمائش شروع ہوگئی اور انتخابی وعدوں کو عملی شکل دینے کا وقت آگیا ۔اس وقت جو مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں ان میں معیشت کی سست روی ، ناقابل برداشت گرانی ، بدعنوانی ، زرعی، صنعتی اور دیگر شعبہ جات میں پیداواری کمی، امیری اور غریبی میں بڑھتا ہوا تفاوت ،کساد بازاری ، رشوت ستانی اور بنیادی سہولتوں کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔ مودی کے کا رپوریٹ گھرانوں کے تئیں ہمدردانہ رویہ کے پیش نظر ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے ۔انہیں اپنے خواب شرمندہ ٔتعبیر ہوتے نظر آرہے ہیں؛ تاہم مودی حکومت کو سر دست پانچ چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ نئی حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانا ہے ۔جس کی شرح نمو ،کئی عوامل کے سبب سست روی کا شکار ہوگئی ہے ۔ ان میں سرکاری خزانہ کی دگر گوں حالت ، افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ ، سود کی انتہائی شرحیں، اور قرضوں کی عدم وصولی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سرکاری مالیات کی تنگی کیونکہ اخراجات کے مقابلے میں آمدنی کم ہورہی ہے ۔ حکومت کو اگر مالی بحران پر قابو پانا ہے تو اس کے لئے سبسڈی کی رقوم میں کمی کرنا ہوگی ۔ ظاہر ہے اگر یہ سخت قدم اٹھایا گیا تو اس کی ضرب سیدھی غریبوں اور متوسط طبقوں پر پڑے گی۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو ملکی معیشت کی حیثیت کو بین الاقوامی ایجنسیاں کم کرسکتی ہیں۔ حال ہی میں اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے سیکرٹری مالیات کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا سب سے بڑا ا مسئلہ افراط زر پر قابو پانا ہے ۔ ملک کے مرکزی بنک 'ریزرو بینک آف انڈیا‘ کو سود کی شرح میں اضافہ کرنا پڑ رہا 
ہے جس کے باعث اقتصادی سر گرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر اس سال محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق بارش اوسط سے کم ہوئی تو زرعی پیداوار متاثر ہوگی۔ قرضوں کی عدم وصولی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اس وقت سو ارب ڈالر مالیت کے قرضوں کو ری شیڈول کیا گیا ہے ۔ 
الیکشن مہم میں بی جے پی اور مودی کو کامیاب بنانے کے لیے مراعات یا فتہ طبقات کے زیر کنٹرول تمام اداروں ، الیکٹرانک میڈیا، تفریحی چینلز اور کمپنیوں نے مہم چلا ئی ۔ بطور مثال آئیڈیا موبائل کمپنی کا اشتہار تھا 'سرکار بھی صحیح چننا‘ اسی طرح بنیان کا ایک اشتہار ' تم فٹ نہیں ہو اس لئے تمہیں ووٹ نہیں ،یہ کہہ کر ایک بزرگ ،لیڈر پر اپنی شرٹ ڈال دیتا ہے ۔ غر ضیکہ ہر وہ حربہ اور ہتھکنڈا استعمال کیا گیا جو مودی کی شخصیت کو ' سپر مین ‘ ، 'سپر ہیومن ‘ ، نجات دہندہ ، 'مسیحا ‘ وغیرہ بناکر پیش کر سکے ۔ بعض کارپوریٹ گھرانوں نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے ۔ اپنے آرام دہ اور جدید سہولیات سے لیس طیارے فراہم کئے ۔ یہ فطری بات ہے کہ عوام کو نئی حکومت سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ یہی چیز حکومت کا اصل امتحان لے گی۔
اس وقت ملک میں ایک بڑا مسئلہ فرقہ ورانہ ہم آہنگی بنائے رکھنا ہے۔چونکہ بی جے پی پر فرقہ ورانہ سیاست کرنے کے الزام لگتے رہے ہیں اس لئے ملک کی مذہبی اقلیتوں میں احساس تحفظ پیدا کرنا مودی حکومت کے لیے اہم چیلنج ہے ۔ بی جے پی کی الیکشن میں کامیابی پر جشن منانے کے حوالے سے خود گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد کے جو واقعات پیش آئے وہ قابل تشویش ہیں۔گجرات کے نسل کش فسادات کی وجہ سے نئے وزیراعظم متنازع شخصیت بنے ہوئے ہیں ؛ تاہم وزیر اعظم کے منصب کے لئے منتخب ہونے کے بعد مودی نے اپنی پہلی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ تمام ہندوستانی شہریوں کے لئے کام کریں گے ۔ اس کے باوجود اس بات کا خدشہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں وہ ملک کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی کو شش کریںگے۔ حال ہی میں پونہ میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ 
دوسری طرف بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کے وعدے کا اعادہ کیا ہے ۔ دراصل یہ ایک سیاسی نوعیت کا وعدہ ہے ۔ این ڈی اے کے پہلے دور حکومت میں بی جے پی اب تک سخت گیر حلقوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کیا کرتی تھی کہ اس کے پاس مطلوبہ تعداد میں پارلیمان میں اکثریت نہیں ہے اس لئے وہ اس سلسلہ میں کوئی قانون پاس نہیں کر سکتی۔اب اس کے پاس کوئی عذر نہیں بچا ۔ پارٹی کو انتخابات میں کامیابی ملنے کے فوری بعد اس کے حق میں صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ وی ایچ پی کے رہنما اشوک سنگھل نے رام مندر کے علاوہ ذبیحہ گائے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ بابری مسجد کی ملکیت کا تنازع اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔الہ آباد ہائی کورٹ نے ملکیت کے بارے میں فیصلہ دینے کے بجائے ایک ایسا مضحکہ خیز فیصلہ سنایا تھا کہ جس کی نظیر جدید دنیا میں نہیں ملتی ۔ اب مودی حکومت کے لئے یہ مسئلہ دو دھاری تلوار سے کم نہیں ہے ۔کیونکہ ان کی جماعت کے پاس کوئی حیلہ نہیں رہا کہ وہ اس پیچیدہ مسئلہ کو حل کرسکے۔ اگر وہ اپنے حلقہ اثر کو ' خو ش ‘ کرنے کے لئے قدم اٹھاتی ہے تو ملک کا منفی تاثر پوری دنیا میں جائے گا ۔ بابری مسجد کے انہدام نے ملک کی ساکھ کو جو نقصان پہنچایا اس سے دانشمند طبقہ باخبر ہے ۔ 
داخلی سطح پر کئی مسائل ہیں جو ایک طویل عرصہ سے چلے آرہے ہیں ۔ ان میں سر فہرست بائیں بازو کی انتہاپسندی کامسئلہ ہے ۔ مودی کے پیشرو و زیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اسے داخلی سلامتی کے لئے سب سے سنگین مسئلہ قرار دے چکے ہیں۔ وہ (بائیں بازو کے انتہا پسند )ملک کے کئی حصوں میں اپنی عملداری قائم کرچکے ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ اور تربیت یافتہ گوریلا جنگ کے ماہر جنگجو ہیں۔وہ آئے دن سکیورٹی فورسز کو تشدد کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ان سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ نکسلی علاقوں میں ہی زیادہ تر معدنیات کے ذخا ئر پائے جاتے ہیں۔یہ ما ئو نواز بائیں بازو کے انتہا پسند ،قبائلی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی شکایت ہے کہ ان کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جارہا ہے۔ اب تک سختی سے پیش آنے کی پالیسی زیادہ موثر ثابت نہیںہوسکی ہے ۔ مودی اس سلسلہ میں کوئی نئی پالیسی اختیا ر کرتے ہیں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ 
بھارت وفاقی ملک ہے ۔ لیکن ماضی میں کانگریسی حکومتوں نے صوبوں کے اختیارات سلب کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔مودی چونکہ خود وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہ چکے ہیں اس لیے امید ہے کہ صوبوں کے مسائل کا وہ اچھی طرح احاطہ کرسکیں گے۔ مالی اختیارات کے ختم ہوجانے کے اندیشہ کے تحت بعض ریاستیں سروس اور گڈز ٹیکس کے نظام کو نافذ کرنے سے کتراتی رہی ہیں ۔ اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو معیشت کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ گزشتہ حکومت نے جب دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے نیشنل نیٹ ورک تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا تھا تو اسے بعض ریاستی حکومتوں کی مخالفت کے سبب ترک کردینا پڑا ۔ اسی طرح فرقہ وارانہ تشدد کے روک تھام کے لئے یو پی اے حکومت جب ایک خصوصی بل لائی تو اس کی مخالفت بھی بعض ریاستی حکومتوں نے کی ۔ اس وقت ملک میں تقریبا 17ریاستوں میں غیر بی جے پی حکو متیں ہیں جومودی حکومت کے مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔
ایک مسئلہ غیرقانونی دولت کو ملک میں وپس لانے کا ہے ۔ بلیک منی یا غیرقانونی دولت کو واپس لانے کا مطالبہ کرنے والی جماعت نے خود کس قدر پیسہ پانی کی طرح بہایا،اس کا کوئی صحیح حساب نہیں ہے۔ کوئی دس اور کوئی پندرہ ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کا تخمینہ پیش کررہا ہے۔ اس حقیقت کی عکاسی اس بات سے ہوتی ہے کہ بی جے پی کے 84فی صد منتخب ارکان کروڑ پتی ہیں۔ نئے ایوان میں کروڑ پتیوں کی تعداد میں 82 فی صد اضافہ ہوگیا ہے جبکہ 2004 ء کے ایوان میں یہ تناسب 30 فی صد تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جمہوری عمل دولت مندوں کی باندی بن گیا ہے ۔بلیک منی کیلئے مودی نے اپنی پہلی کابینہ کی میٹنگ میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ 
دوسر امسئلہ سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کا ہے ۔نئے ایوان میں مجرمانہ پس منظر رکھنے وا لے ارکان کی تعداد میں بھی تشویشناک اضافہ ہوا ۔ان میں 112 ارکان کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ایسوسی ایشن فارڈیمو کریٹس ریفارمز کے مطابق یو پی (اُترپردیش )سے بی جے پی کے 22ایسے ارکان منتخب ہوئے ہیں جن پر انتہائی سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں اور اگر ان کے خلاف فورا ًفیصلہ آجاتا ہے تو وہ اپنی رکنیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ کا بینہ میں بھی ایسے ارکان کی تعداد موجود ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں