"IGC" (space) message & send to 7575

مودی حکومت کا پہلا بجٹ: اچھے دن ابھی دور ہیں!

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار کے دو ماہ مکمل کرلئے ہیں۔ گو کہ یہ قلیل مدت ان کی کارکردگی کا احاطہ کرنے کیلئے ناکافی ہے، مگر جس طرح شمالی ہمالیائی ریاست اور ہندو قوم پرستوں کے گڑھ اتراکھنڈ میں صوبا ئی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے دہلی میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔نہ صرف ہندوئوں کے پوتراستھان بلکہ دریا گنگا کا منبع گومکھ گلیشیر بھی اسی صوبہ میں واقع ہے۔ جن سیٹوں پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھاری فرق سے ہا ر کا سامنا کرنا پڑا ہے ، ان میں سے دو تو سابق وزرائے اعلیٰ نے خالی کی تھیں ، کیونکہ وہ پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوگئے تھے۔یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ اس ٹرینڈ کا اعادہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوسکتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ عوام نے ''اچھے دنوں‘‘ کی جو امیدیں مودی سے لگائی تھیں ابھی تک وہ بارآور نہیں ہورہیں؛ البتہ حکمران جماعت کے اراکین کی کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے جذباتی نعروں اور اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کر کے ماحول کو مزید مکدر کرنے کا کام ہورہا ہے۔
حا ل ہی میں وزیر مالیات ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں مودی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کیا ، اس میں سوائے سرمایہ داروں کے کسی کیلئے کوئی خوش خبری نہیں تھی۔عوام کو امید تھی ، کہ شاید مہنگائی اور افراط زر کو لگام دینے کے لیے حکومت کوئی ٹھوس اقدامات کرے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس نے ثابت کردیا کہ مودی کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ معیشت کو راتوں رات پٹڑی پر لاسکتے ہیں جس کا وہ دعویٰ کر رہے تھے۔ بی جے پی کے '' مسلم پریم ‘‘ کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نام نہاد '' مدرسہ جدید کاری سکیم ‘‘کے لئے گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں 150کروڑ روپے فراہم کئے گئے تھے ؛تاہم نئے وزیرخزانہ نے نہایت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مد کا بجٹ 150 کروڑ سے 100کروڑ روپے کردیا ۔ اسی طرح مولانا آزاد فائونڈیشن کا بجٹ بھی اس مرتبہ کم کردیا گیا۔ دریائے گنگا کی صفائی کے لئے حکومت کے پاس دوہزار کروڑ سے زیاد ہ رقم ہے ۔اسی طرح گجرات میں ولبھ بھائی پٹیل کا مجسمہ بنانے کے لئے 200کروڑ سے زیادہ روپے لیکن عام آدمی کو را حت دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ،جس کی کمر مہنگائی نے توڑ دی ہے ۔
انتخابات سے پہلے اور انتخابی مہم میں بی جے پی اور اس کا ہم نوا میڈیا معیشت کو پٹڑی پر لانے اور احسن حکمرانی (گڈ گورننس )کا ڈھنڈورا بڑے زور و شور سے پیٹاکرتا تھا لیکن مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عام آدمی کو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا ۔ مودی او ربی جے پی ہر بات کے لئے کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کو کوسا کیا کرتے تھے ۔لیکن اب وہ ہر اس پالیسی پر عمل کر رہے ہیں جو یو پی اے نے وضع کی تھی۔ 
مودی حکومت کی ترجیحا ت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل کا مجسمہ تعمیر کرنے کے لئے تو 200کروڑ روپے بجٹ میں دیئے گئے ،لیکن صنف نازک کے تحفظ کے لئے بنائی گئی اہم سکیم 'بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘ سکیم کے لئے محض 100 کروڑ۔ بجٹ میں فلاحی سکیموں کے تئیں بڑی کنجوسی سے کام لیا گیا ۔ یو پی اے حکومت نے چاہے کچھ بھی ہو، عام آدمی کے لئے متعدد فلاحی سکیمیں شروع کی تھیں اور اس کے لیے ہر سال بجٹ کا اضافہ کیا جاتا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک کی فطرت میں داخل کرپشن اور '' لکشمی کی پوجا ‘‘ کے سبب یہ فلاحی رقوم ان کے مستحقین تک پوری طرح نہیں پہنچتی رہیں ۔یہی نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ غریب بھارت میں ہیں۔
یو پی اے حکومت کی سب سے بڑی فلاحی سکیم دیہی روزگار گارنٹی سکیم کو نئی حکومت نے رد تو نہیں کیا لیکن اس کے بجٹ میں ایک دھیلے کا بھی اضا فہ نہیں کیا ۔ حکومت اس سکیم کو رد اس لئے نہیں کرسکتی کہ روزگارکو بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی حیثیت فراہم کی گئی ہے ۔ حالانکہ اس کے بجٹ میں اضافہ کیا جانا ضروری تھا ۔ مودی حکومت اپنے دعووں کے باوجود آسمان کوچھوتی قیمتوں پر قابو پانا تو دور کی بات ،زخم پر نمک پاشی کے مترادف ان میں مزید اضافہ کرتی چلی گئی۔ پٹرول، ڈیزل ، مٹی کا تیل، پھلوں اور سبزیوں غر ض یہ کہ ہر ایک کے دام میں غیر معمولی اور نا قابل برداشت اضافہ ہورہا ہے۔
ایوان میںبجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ عالمی سطح پر معیشت کی دگرگوں صورت حال کے پیش نظر بھارتی معیشت کی سست روی کودور کرنا مشکل کام ہے ۔ اس لئے بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکسوں میں کوئی بڑی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ۔ مگر سرمایہ داروں پر واجب الادا پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے معاف کردئے گئے۔دفاعی مد میں 12فی صد کا اضافہ کرکے دفاعی بجٹ 2990 بلین کردیا گیا۔ جس میں 940بلین تو جدید ہتھیارو ں اور سازوسامان پر خرچ کئے جائیں گے۔اس بجٹ کے مطابق حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے خود کچھ خرچ نہیں کرنا چاہتی بلکہ اس سلسلے میں وہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دارو ں پر انحصار کرنا چاہتی ہے۔یہ منصوبہ پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔سرمایہ داروں کو زبردست رعایتیں دینے کے باوجود پچھلے دس سالوں میں صرف11لاکھ روزگار پیدا کئے گئے۔لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ مودی گجرات ماڈل کا جو ڈھول دنیا کے سامنے پیٹا کرتے تھے اب وہ کہاں گیا؟ معیشت کے احیاء اور عا م آدمی کو راحت دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ،وہ ریل اورمال برداری کے کرایوں میں اضافہ اور سوئی گیس کی قیمتیں بڑھا کر پورا کردیا گیا!!
حکومت کے پاس ایسا کوئی کارگر حربہ یا جادوئی چھڑی نہیں ہے جس کے بل بوتے پر وہ معیشت کی شرح نمو ،د وبارہ آٹھ فی صد تک لاسکتی ہو۔ لہٰذا بجٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں فلاحی سکیموں کی رقوم میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ ابھی اقوام متحدہ کے ''ملینیم گول ‘‘کی رپورٹ آئی ہے جس میں انسانی ترقی کے اشاریہ میں بھارت کی حالت اپنے ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں بھی خراب ہے اس کے باوجود نہ صحت کے بجٹ میں جی ڈی پی کے حساب سے چار تا چھ فی صد اضافہ کیا گیا اور نہ ہی تعلیم کے میدان میں ۔ کم از کم موجودہ حکومت کی پیشرو یو پی اے حکومت نے اپنی تمام تر ناکام اقتصادی پالیسیوں کے باوجود فلاحی سکیموں پر خصوصی توجہ دی ۔ 
جہاں تک اقلیتوں کاتعلق ہے بجٹ میں گزشتہ حکومت کی اقلیتوں سے متعلق تمام سکیموں کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ اقلیتی وزارت کے بجٹ میں کچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ یو پی اے حکومت نے گزشتہ مالی سال میں 3130.84 کروڑ روپے فراہم کئے تھے جو اب 3734.01کروڑ کردیے گئے ہیں ۔ مگر تشویش کا باعث یہ امر ہے کہ متعددسکیموں کی مالی ہیئت تبدیل کردی گئی ہے یعنی ان کو مرکز کی طرف سے اب پورا پیسہ نہیں ملے گا اس میں صوبائی حکومتوں کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا ۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ ان سکیموں پر عمل مشکل ہوجائے گا کیونکہ صوبوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا ۔ اس بجٹ میں کل مجوزہ خرچ575لاکھ کروڑ روپے ہے، پچھلے سال یہ رقم555 لاکھ کروڑ روپے طے کی گئی تھی۔ اگر مہنگائی کو مدنظر رکھا جائے تو درحقیقت طے شدہ رقم پچھلے سال سے کم ہے۔ ا س لیے ماہرین اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ بجٹ میں گزشتہ حکومت سے مختلف کچھ بھی نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں