"IGC" (space) message & send to 7575

’’لَو-جہاد‘‘ یا فساد؟

سخت گیر شبیہ کے باوجود جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تین ماہ قبل اقتدار میں آتے ہی خیر سگالی کا مظاہرہ کرکے فرقہ وارانہ منافرت کی لگام کسنے اور غریبی کے خلاف مشترکہ جنگ کا اعلان کیا تھا تو اس سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں اور سیکولر طبقہ کے خدشات بڑی حد تک زائل ہوگئے تھے۔ لگتا تھا کہ مودی اپنے امیج کے برعکس اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے اور افراط زر پر قابو پانے پر بھرپور توجہ مرکوز کریں گے، تاکہ عوام کو کچھ راحت (ریلیف) ملے۔ مگر ایسا لگتاہے کہ بنیای مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک حکمت عملی کے تحت ملک میں فرقہ وارانہ منافرت والے ماحول کو گرم رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کی تازہ مثال ہندو تنظیموں کی طرف سے ایک نیا نعرہ ''لو- جہاد‘‘ کا ہے۔ ان تنظیموں کا کہناہے ، کہ مسلم نوجوان معصوم ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاکر انہیں مسلمان ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ توایک ریٹ لسٹ بھی لگی ہے‘ جس کے تحت ایک برہمن لڑکی کو بھگانے اورنکاح کرنے پر مسلم نوجوانوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں سے دس سے پندرہ لاکھ رروپے دلائے جاتے ہیں، جبکہ دیگر ذاتوں کی لڑکیوں کے لیے سات سے دس لاکھ اور نچلی ذات یعنی دلت لڑکیوں کے لیے یہ ریٹ پانچ لاکھ ہے۔شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ 
اس نئے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اتر پردیش، راجستھان، کرناٹک اور کیرالامیں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن کرکے رکھ دی ہیں۔اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے تار نہ مل رہے ہوں ، تو لو‘ جہاد کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کے ساتھ آنکھیں لڑانے کی پاداش میں ہی انہیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ پچھلے سال دہلی سے صرف 100کلومیٹر دور مظفر نگرکے خونیں فساد اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریبا 60 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور ہزاروں افراد اب بھی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں جنسی تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گائوں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گائوںکی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گائوں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ان علاقوں میں کئی موقعوں پر لڑکیاںگائوں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوںکہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرہ میں نہیں آتے۔ مگر اس علاقے میں بھی ابھی تک کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابط کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔ 
چند سال قبل 2010ء میں،جب میں فلسطین اور اسرائیل کے دورے پر تھا، اسرائیل کے با اثر اخباراتـــ 'معاریو‘، 'یروشلم پوسٹ‘ او ر نسبتاً اعتدال پسند ' ھارٹز‘ یہودی تنظیموں کے حوالے سے رپورٹیں شائع کررہے تھے کہ کس طرح اسرائیلی عرب (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے اور مغربی کنارہ اور غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے برعکس اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کرتے ہیں۔اس پورے پروپیگنڈے کا ماخذ عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا۔اس واقعہ کے نتیجے میںتل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھا، تاکہ غسل آفتابی کرتے ہوئے نیم برہنہ یہودی خواتین ان کی التفات کا شکار نہ ہوجائیں۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے ، تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پراپیگنڈا کو عام کرنے میں خاصی دلچسپی دکھائی، کہ یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں، تاکہ بقول ہٹلر اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے۔ ایڈولف ہٹلر کے خود نوشت مینی فیسٹو‘ مین کامپ(Mein Kamp )میں وہ رقم طراز ہیں: ''چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ، تاکہ ان کے خون کو گندا کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیںـ۔‘‘ بالکل اسی طرح کا کھیل آج کل 
بھارت میں کھیلا جا رہا ہے۔حیر ت یہ ہے کہ ''لو جہاد‘‘ کا یہ مفروضہ2006ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ 2009ء میں کرناٹک کی عدالت عالیہ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ان کی جانکاری میں نہیں؛ تاہم 25 جون2014ء کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں 2006ء اور 2014ء کے درمیان 2667 ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے، مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں‘ یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا۔
فی الحال یہ نعرہ اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹانے اور منافرانہ ماحول گرم رکھنے کی ایک کامیاب کوشش اور ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے کی سازش ہے۔ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمائندہ ہیں ، مختلف جذباتی اور اشتعال انگیز مسائل جیسے رام مندر ، یکساں سول کوڈ ، وقتی موضوعات جیسے 'لو جہاد‘ وغیرہ نعرے اچھالتی رہتی ہیں۔ بعض تاریخی اسباب کی بنا پر مسلمان اس حکمت عملی کا خصوصی ہدف ہیں۔ مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے ان کی فکر مندی کو دو چند کردیا ہے جو اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی جرات نہیں کر سکتے؛ تاہم انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوںکو نرم چارا تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی عائلی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لا محالہ بیوی یا شوہر اس عذاب زدہ زندگی سے چھٹکارہ پانے کے لیے تبدیلیٔ مذہب سمیت انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ لو‘ جہاد کا یہ نعرہ مودی اور بی جے پی کے لیے جگ ہنسائی کا موضوع بھی بن گیا ۔ بی جے پی کے چوٹی کے مسلم رہنمائوں شاہنواز حسین ، مختار عباس نقوی کی بیویاں ہندو ہیں، ایک اور لیڈر مرحوم سکندر بخت کی بیوی بھی ہندو تھی۔ پارٹی کے ایک اور سخت گیر لیڈر سبرامینیم سوامی کی صاحبز ادی نامور صحافی سھاسنی نے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر کے بیٹے کے ساتھ شادی کی ہے۔ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی اہلیہ سکھ ہے۔ بھارت کے ممتاز فلمی اداکاروں شاہ رخ خان اور عامر خان نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہیں۔کیا یہ سبھی لو‘جہاد کے مرتکب ہوئے ہیں؟ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔ جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوںکہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوںکا سازشی ٹولہ کسی بہانے سے مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑا فساد کروانے کے درپے ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں