ہندو قوم پرست تنظیموں کے ایما پر گزشتہ چھ دہائیوں سے اس خطے کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں تو جاری ہیں ہی ، مگر اب سائنس بھی ان کی دست برد سے باہر نہیں رہی ۔ اس کا مظاہرہ حال ہی میں بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں منعقدہ سائنس کانگریس میں ہوا۔ بھارت میں ہر سال جنوری میں یہ کانگریس منعقد ہوتی ہے جس میں سائنس سے متعلق کمیونٹی کی کامیابیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ایک طرح سے ملکی بجٹ کی تیاری سے قبل ملک کی سیاسی لیڈرشپ، بیوروکریسی اور سائنسدان، علم و تحقیق کے فروغ کے لئے لائحۂ عمل طے کرتے ہیں۔ ممبئی یونیورسٹی میں منعقدہ اس اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شریک تھے۔ یہ کانفرنس اس لیے بھی اہم تھی کہ بھارتی سائنس دانوں نے حالیہ چند برسوں میں کئی غیر معمولی سنگ میل عبورکیے ہیں۔ گزشتہ برس بھارت ایشیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جس نے خلائی مشن کامیابی کے ساتھ مریخ کے مدار تک پہنچایا اور یہ کام اس کے سائنس دانوں نے انتہائی کم بجٹ میں کر کے دکھایا تھا۔
چونکہ بھارت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلی سائنس کانگریس تھی،اس لیے کانفرنس کے کئی سیشن ویدک سائنس کے لیے مختص کئے گئے تھے جس نے سائنسدانوں سمیت ملک کے سبھی حساس افراد کو حیران و پریشان کردیا ۔
دنیا کے6 نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں کی موجودگی میں نہ صرف مشتبہ قسم کے سائنس دانوں اور ماہرین نے بلکہ مرکزی وزیروں نے بھی سائنس کو ہندو مذہب کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کی اور ہندو دھرم اوراس کی دھارمک کتابوں کو ہوائی جہاز سے لے کر نیوکلیائی سائنس تک بیشتر ایجادات کا ماخذ قرار دیا،
لیکن اکثر محققین نے اسے بھونڈے مذاق اور فاش غلطی سے تعبیر کیااور بالآخر یہ کانگریس ہی مذاق بن کر رہ گئی ۔ بھارت نے حال ہی میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا راکٹ کامیابی کے ساتھ خلا میں پہنچا دیا ہے۔ اس راکٹ کے ساتھ ایک غیر انسان بردارکیپسول بھی جڑا ہے جو مستقبل میں انسانوںکو خلا میں پہنچانے کے لیے استعمال ہوگا۔ اس پیش رفت کا کریڈٹ خلائی سائنسی ادارے کو دینے کے بجائے ایک سابق پائلٹ اور مصنف آنند جے بوداس کا کہنا تھا کہ مہارِشی بھردواج نے، جو پندرہ سو سے پانچ سو برس قبل مسیح زمانے کے درمیان پیدا ہوئے تھے، پانچ سو ایسی گائیڈ لائنز دنیا کے سامنے پیش کی تھیں جو ہوائی جہازوں سے متعلق تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام انہوں نے پندرہویں صدی میں لیونارڈو دا وینچی اور 1903ء میں رائٹ برادرز سے کہیں پہلے کر دکھایا تھا۔ بوداس مزید کہتے ہیں کہ مہا رشی نے اڑنے والی ایسی چیزوں کا بھی ذکر کیا تھا جو ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ، وہ کہتے ہیں کہ قدیم ہندوستان میں ''جمبو‘‘ طیاروں میں چالیس چھوٹے انجن لگے ہوتے تھے اور وہ نہ صرف یہ کہ آگے کی جانب سفر کر سکتے تھے بلکہ پیچھے کی طرف بھی۔ اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر ان جہازوں میں کون سا ایندھن استعمال ہوتا تھا تو چار قدیم سنسکرت کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان جہازوں کے موٹر ایک سپیشل ایندھن سے چلتے تھے جس میں اور چیزوں کے علاوہ گدھے کا پیشاب بھی استعمال ہوتا تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نیوٹن
کے اصول حرکت کی نفی کرتا ہے۔ بنگلور میں انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے خلائی سائنسدانوں نے انکشاف کیا کہ 1973ء میں بھی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ایما پرجواکثر سادھوئوں کے گھیرے میں رہتی تھی، ان کے ادارے کو سنسکرت کے قدیم نسخوں کا معائنہ کرنے کا حکم صادر ہوا تھا۔ چنانچہ پانچ نفری کمیٹی نے ان نسخوں میں موجود ہدایتوں کے مطابق ماڈلز بھی بنائے ، نو ماہ کی عرق ریزی کے بعد ان سائنسدانوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ جہاز کبھی اڑ نہیں سکتے کیونکہ ان کا ڈیزائن ہی ہوائی حرکیات یعنی ایرو ڈائنیمکس کے قاعدہ کے برعکس ہے ؛ یہ اصول کشش اور فرکشن کے بھی برخلاف ہے۔ مسزگاندھی نے سائنسدانوں کی ان کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی جان بخشی توکی مگر ان کے حلقے میں شامل سادھوئوں اور دیگر مذہبی شخصیات انہیں وقتاً فوقتاً سائنسدانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھیں اور ان کو بھارت کے قدیمی ویدک سائنس کے فروغ میں رکاوٹ مانتی تھیں۔
اس کانگریس کی خاص بات یہ تھی کہ مرکزی وزیروں نے بھی ان خود ساختہ سائنسدانوں کی ہاں میں ہاں ملائی، حتیٰ کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر ہرش وردھن نے فرمایا کہ الجبرا اور فیثاغورث کی تھیوری بھی بھارت کی دین ہے۔ ایک دوسرے مقرر ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت کے سربراہ ڈاکٹرگوری مہولکر نے بتایاکہ فیثاغورث سے 300 سال قبل بودھیان نے سلبھ سوتر میں جیومیٹری کا جوفارمولہ لکھا تھا وہی دراصل فیثا غورث کی تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک دوسرے مقرر نے کہا کہ گائے میں ایک ایسا جرثومہ ہوتا ہے جو اس کے ذریعہ کھائی گئی خوراک کو24 قیراط کے سونے میں تبدیل کردیتا ہے۔ایک دوسرے مقررکرن نائک نے کہا کہ مہا بھارت کی جنگ کے دوران ویدک زمانے کے وہ ہوائی جہاز زمین سے چاند پر ہوتے ہوئے مریخ سیارے پر گئے تھے جہاں ایک راجہ نے اپنے حریف پر حملہ کیا تھا اوراس کے ہیلمٹ کو توڑ ڈالا تھا۔ انہوں نے کہاکہ اگر آپ کو میری باتوں پریقین نہ ہو توآپ کو امریکہ کی خلائی تنظیم ناسا پرتویقین کرنا پڑے گا جس نے مریخ پر ہیلمٹ پایا ہے اور اس کے پاس اس کی شہادت موجود ہے۔انہوں نے ایک اور مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ بھارت میں پلاسٹک سرجری کا استعمال بھگوان گنیش کے ہاتھی کا سر اس کے انسانی دھڑ میں جوڑنے کے لیے کیا گیا تھا۔ واضح ہوکہ اس سے قبل بھگوان گنیش کے سر کی پلاسٹک سرجری کے معجزے کا انکشاف خود وزیر اعظم مودی نے بھی گزشتہ سال ممبئی میں ایک ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے کیا تھا۔ آل انڈیا پیپلز سائنٹیفک نیٹ ورک کے صدر رگھونندن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دعووں سے بھارت کا صرف مذاق ہی بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے : ''یہ لوگ ہر چیز کو ہندو ویدک دور میں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ قرون وسطیٰ دورکی بات کبھی نہیں کریں گے کیونکہ وہاں ان کو مسلمانوں کی سائنسی خدمات کا ذکر کرنا پڑ جائے گا۔
گزشتہ سال پارلیمانی انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے بے شمار وعدوں میں سے جس وعدے نے عوام کو سب سے زیادہ لبھایا وہ تھا ملک اور عوام کو ترقی و خوش حالی سے ہمکنار کرنے کا وعدہ ۔ پارٹی نے اپنے وزارت عظمیٰ کے امید وار نریندر مودی کو کچھ ایسے انداز میں پیش کیا جیسے انہیں ملک و قوم کو ترقی کی ڈگر پر لے جانے میں ملکہ حاصل ہو اور وہ بر سرِ اقتدار آتے ہی ملک میں دودھ اور شہدکی ندیاں بہادیں گے۔ مجموعی طورپر سب کے لیے اچھے دن لانے کاوعدہ کیا گیا، بدعنوانی کے خاتمے کی بات کی گئی، بیرونیِ ممالک سے بلیک منی واپس لانے اور اسے تمام شہریوں کے بینک کھاتوں میں پہنچادینے کا لالچ دیاگیا، مہنگائی کو چھومنتر کرکے بھگا دینے کا دلاسہ دیاگیا ، گڈگورننس یعنی عمدہ حکمرانی کا عہد کیا گیا، بیروزگاروں کے لیے ہر سال لاکھوں روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیاگیا، لیکن مودی حکومت بنتے ہی اگر واقعی اچھے دن کسی کے آئے ہیں تو وہ ہیں ہندوتوا گروپ کے جن کے عزائم ہر روز کسی نہ کسی شکل میں آشکار ہو رہے ہیں۔ ان گروہوںکے دلوں میں دبے ہوئے سارے ارمان ان کے کسی نہ کسی لیڈرکی زبان سے باہر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ، یہاں رہنے والے سارے لوگ ہندو ہیں۔۔۔۔ جو لوگ مسلمان یا عیسائی یا بدھ ہیں وہ پہلے ہندو ہی تھے، انہیں واپس گھرلانا ہے یعنی ان کا مذہب تبدیل کراکے ہندو دھرم میں لانا ہے،اپنی بیٹیوں کو کسی اور مذہب کے لڑکے سے شادی کرنے سے روکنا ہے ؛ البتہ دوسرے مذاہب خصوصاً مسلمان لڑکیوں کو بہوبناکر لانا ہے۔ ہندودھرم کا تحفظ کرنے کے لیے ہندوعورتوں کو چار بچے پیدا کرنے کی تلقین کرنا اور اس جیسے ان کے بے شمار فرمودات ہیں۔