"IGC" (space) message & send to 7575

بھارتی پارلیمنٹ میں عدم رواداری پر بحث

گزشتہ دنوں بھارتی پارلیمنٹ میں دو دن کے لیے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور عدم رواداری پر بحث ہوئی۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے حزب اختلاف کے اعتراضات اور الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رواداری بھارتی روایات کا اٹوٹ جُز ہے‘در اصل اپوزیشن کو بی جے پی کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے نام نہاد دانشور ہمیں رواداری کا سبق دے رہے ہیں۔ مگر اس یقین دہانی کے چند روز بعد ہی ان کی اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے فلمی اداکار شاہ رخ خان کی فلم 'دل والے‘ اور پروڈیوسر سنجے لیلا بنسالی کی فلم 'باجی رائو مستانی‘ کی نمائش روکنے کے لیے کئی سینما گھروں میں توڑ پھوڑکی۔ یہ سب مظاہرے بی جے پی کی قیادت والے صوبوں مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہوئے۔ اس سے قبل راجستھان کے دوسہ ضلع میں ایک مسلم خاندان کو صرف اس وجہ سے تختۂ مشق بنایا گیاکہ عید میلادالنبی ﷺ کی مناسبت سے ہر سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے اپنے گھر پر سبز پرچم لگایا تھا۔ مقامی ہندی میڈیا اور بعد میں انتظامیہ نے جہالت کی سبھی حدیں پار کرتے ہوئے اسے پاکستانی پرچم قرار دے کر فتویٰ صادر کردیا کہ یہ ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ گزشتہ ماہ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں انہی عناصر نے صوبہ بہار کے چمپارن ضلع میں انتخابات سے قبل محرم کے موقع پر سبز اسلامی پرچم کو پاکستانی پرچم قرار دے کر فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی کوشش کی؛ حالانکہ اس صوبے میں بی جے پی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور صرف اسی ضلع نے اس پارٹی کو 13سیٹیں دلا کر اس کی عزت بچائی تھی۔
عدم رواداری کے مسئلہ پر بحث میں کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی، مجلس اتحاد المسلمین کے بیرسٹر اسد الدین اویسی اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے کہا کہ اگرچہ فرقہ وارانہ فسادات بھارت کے لیے نئی چیز نہیں، مگر مودی حکومت میں یہ عناصر مین اسٹریم سیاست کا حصہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر وزیر اعظم اپنی کابینہ
کے وزراء مہیش شرما، جنرل وی کے سنگھ اور گری راج سنگھ کے علاوہ پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ساکشی مہاراج، یوگی ادتیاناتھ، سادھوی پراچی اور سنجے بلیان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے جو آئے دن مسلمانوں اور دلتوں کی دل آزاری کرتے رہتے ہیں؟ راہول گاندھی نے اپنی زوردار تقریر میں وزیراعظم سے پوچھا کہ نارائن مورتی، رگھو رام راجن اور پی ایم بھارگو جیسی نامور شخصیات جو صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں، کیا وہ تصنع ہے؟ وہ اس لیے آواز اٹھا رہے ہیں کہ ملک میں ہزاروں لاکھوں لوگ موجودہ صورت حال پر فکرمند ہیں۔ کیا وزیراعظم ان لوگوں کی آواز سنیں گے یا وہ خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں گے؟ حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا کہ عقلیت پسندوں کے قتل کے واقعات، ذبیحہ گائے اورگائے کا گوشت کھانے کی افواہوں کی بنیاد پر حملے، بی جے پی کے بعض وزراء و ارکان پارلیمنٹ اور اس سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے اشتعال انگیز بیانات موجودہ حکومت کے دور میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے مظاہر ہیں۔ ان واقعات کے خلاف ادیبوں، فلمسازوں اور اداکاروں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجاً اپنے قومی اعزازات واپس کردیے۔ انہیں شکوہ ہے کہ ان واقعات کے بارے میں وزیر اعظم اور ان کی حکومت کا طرز عمل تشویش پیدا کرتا ہے۔کانگریس اورکمیونسٹ جماعتوں نے کہا کہ بہار میں شکست مودی حکومت کی تنگ نظر پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ 
مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما اسدالدین اویسی نے ہندتوا تنظیموں کی طرف سے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پیداکرنے پر حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دادری میں اخلاق اور نعمان کو، ہماچل پردیش میں زاہدکو اور جموں میں کئی لوگوں کو بیدردی سے مارمارکر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے اسے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ جرم دہشت گردوں نے کیا ہے۔ 
اس سے پہلے سی پی ایم کے رکن محمد سلیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے آئوٹ لک میگزین میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو ان کا وہ بیان پڑھ کر سنایا جس میں گزشتہ سال منعقدہ انتخابات میں کامیابی پر انہوں نے کہا تھا کہ ''ہندوستان کو 800 سال کے بعد پہلا ہندو حکمران نصیب ہوا ہے‘‘۔ راج ناتھ سنگھ نے اس بیان سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان وی ایچ پی کے رہنما اشوک سنگھل کا تھا جو اب آنجہانی ہوچکے ہیں۔ حیدر آباد دکن کے ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اویسی نے جذباتی انداز میں اپنی تقریر میں کہا کہ ''میں اس ایوان میں بھارت کا واحد تنگ نظر، باقی سب شرافت کے پتلے ہیں، وہ اظہار خیال کی آزادی اور انصاف کے مینارہ نور ہیں‘‘۔ بی جے پی اورکانگریس دونوں کو ہدف بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک سیاسی جماعت مسلمانوں اور دلتوں کو کتے کے پلے اورکتے سے تشبیہ دیتی ہے جبکہ دوسری جماعت (کانگریس) ہمیں جھوٹے ٹکڑوں پردم ہلانے کا الزام دیتی ہے۔ میری تشویش یہ ہے کہ آزادی کے 68 سال بعد بھی مسلمانوں کو بڑے شہروں میں کرائے کا مکان یا فلیٹ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں بی جے پی کی مخالفت کرتا ہوں تو مجھے 'ملک دشمن‘ اور دوسرا جناح بننے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور جب میں سیکولر جماعتوں پر تنقید کرتا ہوں تو مجھے فرقہ پرست کہا جاتا ہے۔ انہوں سوال کیا کہ ہریانہ میں کانگریس نے ذبیحہ گائے کے بِل کی کیوں حمایت کی جس
میں دس سال قید کی سزا ہے اور تریپورہ کے گورنرکے بیان پر کیوں گوشمالی نہیں ہوتی جب انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان خنزیر کا گوشت کھائیں گے تو ہم رواداری اور اظہار خیال کی آزادی کا جشن منائیںگے؟ کئی مقامات پر تقریرکرنے سے روکنے کا ذکر کرتے ہوئے مجلس کے رہنما نے پوچھا کہ آپ میری اظہار رائے کی آزادی کا حق کیوں سلب کرنا چاہتے ہیں؟ میںکرناٹک یا یو پی میں کیوں نہیں بول سکتا؟ کیوں 22 فیصد مسلمان بغیر مقدمہ چلائے جیلوں میں بند ہیں؟ یہ تعداد مہاراشٹر میں 29 فیصد، مغربی بنگال میں 49 فیصد اور یو پی میں 39 فیصد ہے۔ وزیر داخلہ کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے بیرسٹر اویسی نے کہا کہ جب ایک غلط الزام لگایا گیا تو آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی، میں اس کی قدر کرتا ہوں لیکن میری عزت نفس اور انا کا کوئی خیال نہیں کرتا جب مجھے (مسلمانوں کو) 69 برسوں سے پاکستانی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔کیا آپ میری عزت نفس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوںگے؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ وزارت کے اندرونی سلامتی کے محکمہ میں ایک صیغہ ہندو انتہا پسندوں کی سرگرمیوں پر نگرانی کی غرض سے قائم کیا جائے۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو وہابی اور صوفیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش پر بھی اسے آڑے ہاتھوں لیا اورکہا کہ ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
مرکزی حکو مت اور وزیر اعظم کے طرز عمل سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بی جے پی اور وزیراعظم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو وعدے کیے تھے‘ وہ ان میں سے ایک بھی پورا کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ واریت کا آزمودہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کا اپنی پارٹی اورکابینہ کے ارکان پرکوئی کنٹرول نہیں، اصل کنٹرول ناگپور میں بیٹھی آر ایس ایس کی قیادت کے ہاتھ میں ہے جس کا علانیہ مظاہرہ حال ہی میں دہلی میں آرایس ایس کے منعقدہ دربار میں دیکھنے کو ملا جہاں وزیراعظم سمیت ان کے وزراء اپنی اپنی رپورٹ پیش کر رہے تھے۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ مودی نے اپنے 'سخت گیر ہندو قوم پرست‘ ہونے کا امیج بنایا جس کے تحت وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاناچاہتے جس سے ان کے حامی ناراض ہوں۔ انہیں سنگھ پریوارکی 'اعلی ذاتوں‘ پر مشتمل قیادت نے پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود قبول کیا۔ 
ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ صف بندی کا اگر ایک سبب نصابی اور تاریخی کتب ہیں تو اس کی دوسری وجہ برطانیہ سے مستعار لیا ہوا انتخابی طریقہ کار بھی ہے جسے انگریزی میں First-Past-the-Post سسٹم کہا جاتا ہے، یعنی جو امیدوار اپنے قریبی حریف امیدوارکے مقابلے میں ایک ووٹ بھی زیادہ لے گا وہی فاتح قرار پائے گا۔ اسی ناقص نظام انتخاب کے باعث موجودہ حکومت کو ایک تہائی سے بھی کم ووٹ لینے کے باوجود بر سر اقتدار آنے کا موقع ملا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروںکی کثرت کی صورت میں ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک بنائے چونکہ ملک کا سماجی نظام کچھ اس طرح ہے کہ اس میں ذات اور طبقات کی شناخت کو اہمیت حاصل ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریہ ہندتوا میں ایسی کوئی کشش اور مذہبی علامت نہیں جس کے ذریعے وہ ہندو ووٹ بینک بنا سکے، اس لیے وہ ذات پات کی سیاست کی بنیاد پر حاوی ہونے کے لیے مفروضہ دشمن اور نعروں کے سہارے ہندوئوں کی صف بندی کرتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ کام غیر ہندو مذہبی گروہوں بالخصوص ملک کے دوسرے بڑے مذہبی فرقہ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کی مہم چلا کر انجام دیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ جب تک انتخابی نظام میں اصلاحات نہیں کی جاتیں یا کم از کم متناسب نمائندگی کا نظام اختیار نہیں کیا جاتا، ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ مشکل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں